"چڑياں دا چمبا"اور بيٹی كی رخصتی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : نومبر 2025

آواز دوست

"چڑياں دا چمبا"اور بيٹی كی رخصتی

محمد صديق بخاری

وطن عزيز كی ايك انتہائی اہم ، مہنگی  اور اپنی نوعيت كی اكلوتی يونيورسٹی ميں انٹر ی ٹيسٹ كا اعلان ہوا تو اس كا بھائی ،جو كبھی اسی يونيورسٹی ميں داخلے كا خواہشمندہوا كرتا  تھا مگر بوجوہ يہ منزل سر نہ كرسكاتھا ، اسے كھينچ كے وہاں لے گيا كہ انٹر ی ٹيسٹ دو- وہ بغير تياری كے اس ٹيسٹ ميں جا بيٹھی – اور جب رزلٹ آيا تو حيرت انگيز طور پروہ  كامياب قرار پائی اور يوں اس كا   ايك ايسامشكل تعليمی سفر شروع  ہو گيا كہ جس كا اس نے كبھی سوچا بھی نہ تھا-

اس كے والد نے يونيورسٹی ميں آنے جانے كے ليے ايك ركشے كا بندوبست كر ديا اور پھر يوں ہوا كہ چار برس تك يہ  والد ہر صبح ايك خاص وقت پر صرف اس ليے نيند سے بيدا ر ہوتا كہ اس كی بيٹی نے يونيورسٹی جانا ہے -اس كا ركشا آتا اور اس كا والد دروازے تك اس كے ساتھ جاتا ،اس كو خدا حافظ كہتا اور دل ہی دل ميں تين بار آيت الكرسی پڑھ كر ا س پہ دم كرتا اور اس كو اللہ كے حوالے كرتے ہوئے يوں كہتا كہ اللہ كريم تيرے حوالے ،  ميری بچی كو دائيں بائيں اوپر نيچے آگے پيچھے سے خيرہی خير نصيب فرمانا ، ركشے ميں جاتے خير ، ركشے ميں آتے خير اور يونيورسٹی ميں خير اور يونيورسٹی سے باہر خير-ان چار برسوں ميں ايك دن بھی اس نے اس معمول ميں ناغہ نہ كيا اور جب اس كے واپس آنے كا وقت ہوتا تو  وہ اندازاََ دس منٹ پہلے ہی مين گيٹ كھول ديتا كہ بيٹی كو دروازہ كھلنے كے انتظار ميں ايك منٹ باہر نہ كھڑےہونا پڑے –

اس سے پہلے يہی بيٹی ابوظبی ( متحد ہ عرب امارات) ميں اس كے ساتھ تھی تو اس نے اسے دبئی كے  ايك ادارے ميں ايك شارٹ كورس ميں داخلہ دلوا ديا تھا جس كی مدت نو ماہ تھی – اس عرصے ميں وہ ہر ويك اينڈ پہ دبئی سے ابوظبی پبلك بس پہ سفر كرتی -وہ فون پہ اس سے رابطہ ركھتا اور  بس كے اپنے سٹيشن پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ  اپنی گاڑی ليے  اس كا منتظر ہوتا - اسی طرح جس صبح اس نے جانا ہوتا ، تو وہ اسے بس سٹيشن پر چھوڑنے جاتا ، اور جب وہ بس ميں سوار ہو جاتی تو وہ دور كھڑا بس كو ديكھتا رہتا اور جب بس اپنی منزل كی طرف چل پڑتی تو وہ آنكھوں ميں آنسو ليے واپس ہو ليتا-

اور ہاں ان آنسوؤں سے ياد آيا كہ شادی كے اوائل دنوں ميں جب اس كی اہليہ ايك دو دن اپنی والدہ كے پاس رہ كر اس كے ساتھ اپنے گھر جانے لگتی تو ركشے ميں بيٹھتے ہی ا س كی آنكھوں سے آنسو رواں ہو جاتے – اور وہ حيرانی سے اسے ديكھتا اور كہتا كہ  رو كيوں رہی ہو؟ اور وہ آنسو پونچھتے ہوئے كہتی " كچھ نہيں بس يوں ہی" –اور آج جب وہ اپنی بيٹی كو گھر ميں چلتے پھرتے ، اٹھتے بيٹھتے حتی كہ سوتے ہوئے بھی ديكھتا ہے تو اس كی آنكھيں بھيگ جاتی ہيں اور آج وہ سوچتا ہے كہ اگر اس كيفيت ميں اس كی بيوی اسے ديكھ لے اور اس سے  يہ پوچھے كہ رو كيوں رہے ہو تو وہ بھی شايد يہی كہے گا كہ" كچھ نہيں بس يوں ہی" – بعض باتيں سمجھ آنے ميں كتنی دير لگ جاتی ہے -----شايد كچھ باتيں وقت او رعمر كے ساتھ ہی سمجھ ميں آيا كرتی  ہيں ----- جيسے كتنے ہی گيت ايسے ہيں جن كی حقيقت اسے سمجھ ميں نہيں آتی تھی ليكن اب اگر ان كی دُھن بھی سنے تو حقيقت  سارے پردے اٹھا كر سامنے آ ن كھڑی ہوتی ہے اور انہيں ميں سے ايك بول يہ بھی ہے جسے آج كل وہ اكثر سنا كرتا ہے  ---ساڈا چڑياں دا چمبا وے  بابل اساں اڈجانا--------چڑيوں نے بہر حال اڑنا ہی ہوتا ہے انہيں اڑنے سے كون روك سكتاہے ليكن وہ سوچتا ہے كہ جس گھر ميں يہ چڑياں پيدا ہوتی ہيں ، جس آنگن ميں ان كا بچپن گزرتا ہے اور جو دروديوار ان كو بڑا ہوتے ديكھتے ہيں اور جن دروازوں سے وہ رخصت ہوتی ہيں ،وہ رخصتی كے بعد بھی  سدا ان كے منتظر رہتے ہيں اوركبھی يہ چڑياں لمبی اڈاری كے بعد اس گھر ميں چكر لگائيں تو اس گھر كے دروديوار پہ پھر بہار لوٹ آتی ہے ليكن كتنی  دير ---انہيں بہر حال پھر بھی جانا ہی ہوتا ہے - ---ہائے ،كتنا مشكل ہے بيٹيوں كو رخصت كرنا------ليكن شايد اسی مشكل ميں آسانی ہے ---ان مع العسر يسرا---