عاملوں كی تلبيس

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : دسمبر 2025

آواز دوست

عاملوں كی تلبيس

محمد صديق بخاری

وہ اپنی بيوی اور دو بچوں كے ساتھ اس گھر ميں پچھلے تين برس سے مقيم تھا- زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی اور اس دوران ميں كوئی نا خوشگوار واقعہ پيش نہ آيا تھا ليكن پھر ايك دن كچھ ايسا ہوا كہ جس نے ان سب كی زندگی كو خوف اور ڈر سے بھر ديا- ہوا يوں كہ  دسمبر كی سرد  راتوں ميں جونہی   دس بجتے، انہيں اپنی چھت پر يوں محسوس ہوتا كہ جيسے آسمان سے كوئی وزنی گولہ آن گرا ہے – وہ بھاگ كر چھت پر پہنچتا مگر وہاں كچھ بھی نہ ہوتا-  وہ ہمسايوں كی چھتوں كی طرف نظر كرتا مگر وہاں بھی خاموشی اوراندھيرے كا راج ہوتا- نصف گھنٹے تك يہ آواز وقفے وقفے سے آتی رہتی اور پھر خاموشی چھا جاتی – اس نے دو چار ہمسايوں سے بات كی مگر سب نے اس بارے ميں لاعلمی كا اظہار كيا- كئی دن كی  كوشش كے بعد بھی جب ڈور كا كوئی سرا ہاتھ نہ آيا تو اُس نے بھی معاشرتی رواج كے تحت اسے جن بھوت يا جادو كا اثرجانا – اُ س نے اپنے والد صاحب سےمشورہ كيا ،والد نے كہا كہ تم تين دن سورہ بقرة اونچی آواز سے پڑھ لو اگر كوئی شيطانی اثرات ہوں گے تو انشاء اللہ ختم ہو جائيں گے – اس نے اس پر بھی عمل كيا مگر مسئلہ وہيں كا وہيں رہا- اب تو اسے يقين ہو چلا كہ  ضروريہ كسی جن بھوت كی كارستانی ہے – اس نے پھر اپنے والد سےمشورہ كيا – والد نےكہا كہ دل تو نہيں مانتا كہ جن بھوت اتنےفارغ ہوں گے كہ تمہارے گھر آ كر ايسی كارروائی كريں ،ليكن پھر بھی تمہارے دل كی تسلی كے ليے كسی عامل صاحب سے  مشورہ كر ليتے ہيں- چنانچہ وہ ايك ايسے عامل كے پاس پہنچے جو اس كے والد كےپرانے جاننے والے تھےاور نماز روزے كے بھی پابند تھے -انہيں ساری كہانی سناكے درخواست كی گئی كہ ساتھ چل كر موقع ملاحظہ فرمائيں-عامل صاحب اُن كے گھر پہنچے -انہوں نے وہاں پہنچ كر كچھ پڑھنا شروع كيا اور تھوڑی دير آنكھيں موند كے بيٹھ رہے – پھر انہوں نے ايسے ظاہر كيا گويا كہ كسی سے باتيں كر رہے ہوں-تھوڑی دير بعد انہوں نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا كہ يہ  جنات  تھے اور مذہباً ہندوتھے - ميں نے انہيں بوتل ميں بند كر كے سمندر ميں پھينك ديا ہے -اس كے والدنے پوچھا كہ آپ كو كيسے پتہ چلا كہ يہ ہندو ہيں عامل صاحب نےكہا كہ انہوں نے مجھے خود بتايا ہے – پوچھا كہ انہوں نے آخر اسی گھر ميں آنے كی تكليف كيوں كی ؟كہنے لگے كہ  بس وہ               يہاں سے گزر رہے تھے كہ يہ جگہ انہيں پسند آ گئی تو وہ يہاں آ گئے – پوچھا كہ كيا آپ نے ان كو ديكھا ہے ، كہنے لگے كہ جن نظر نہيں آتے – توپھر آپ كيسے ان كو قيد كرتے ہيں اور كيسے يہ تعين كرتے ہيں كہ اتنے جن ہم نے جلا ديے يا قيد كر ديے ؟– بہر حال اور بھی بہت سے سوالات تھے ليكن عامل صاحب  كےپاس ان كا تسلی بخش جواب نہ تھا-اس كے بعد انہوں نے خاتون خانہ كو بہت سے عمل بتائے اور  ساتھ ہی جھاڑو سے صفائی كرنے   كا ايك خاص طريقہ بتايا  اور كہا كہ اس  طريقے سے ان شيطانی اثرات كی بھی صفائی ہو جائے گی –جوں ہی عامل صاحب چائے وائے پی كر رخصت ہوئے تو گھر والوں كو يقين ہو گيا كہ اب معاملہ ختم ہوجائے گا ليكن جونہی رات كے دس بجے ، وہ دھماكہ پھر آن موجو د ہوا- اس نے دوسرے دن اپنے والد صاحب كو پھر بتايا، انہوں نے كہا كہ زيادہ وہم ميں نہ پڑو، بس اللہ سے دعا كرو ، اللہ خير كرے گا-

دو تين بعد وہ رات كو اپنے گھر كےباہر كھڑا تھا تو ديكھا، كہ ان كے گھر كے عقب پہ جو گھر تھا اُن كا بيٹا ، پڑھ كے آ رہا تھا – وہ اُس كے پاس پہنچا ، تو سلام دعا ہوئی – اُس نے اِس لڑكے سے ذكر كيا كہ اس طرح ہمارے ہاں رات كوايك آواز آتی ہے – تم ذرا ديكھنا كہ تمہاری چھت پہ بھی ايسا كچھ محسوس ہوتا ہے – لڑكے نےپوچھا كہ انكل كتنے بجے – اُس نے بتاياكہ دس بجے – تو وہ لڑكا ہنس پڑا ،اس نے كہا كہ انكل وہ تو ميں ہارڈ بال سے پريكٹس كرتا ہوں كيونكہ ميرے پاس اوركوئی وقت نہيں ہوتا تو ميں اكثر رات كو دس بجے اس بال كو آپ كی ديوار پہ مار كے پريكٹس كرتا ہوں – اُس نے كہا انكل آج بھی ديكھنا كہ آواز آتی ہے كہ نہيں – اس دن كوئی آواز نہ آئی – صبح اس لڑكے نے بتايا كہ آج ميں نے پريكٹس نہيں كی تھی- پھر جس دن وہ پريكٹس كرتا ،فون پہ بتاديتا اور جس دن نہ كرتا كوئی آواز نہ آتی – اور پھر چند دن كے بعد يہ آواز مستقلاً بند ہو گئی  كيونكہ اس  بچے نے ہمسايوں كے آرام كی خاطر اپنے كھيل كی پريكٹس ترك كر دی تھی اور اس كے  اس شغل كو ترك كرتے ہی "جن " بھی رخصت ہو گئے تھے– اب عامل صاحب نے كو ن سے جن بوتل ميں بند كيے تھے ، كن سے بات كی تھی اور انہيں كيانظر آياتھا يہ سوال ابھی تك حل طلب ہيں–

اسی طرح ايك قريبی دوست كے پچيس سالہ بيٹے كو شيزوفرينيا كا مرض لاحق ہو گيا – اس مرض ميں ظاہر ہے كہ ہيلوسينيشن كے تحت مختلف شكليں اور ہيولے بنتے ہيں اور وہ ہيولے  مريض كو واقعتاً نظر  بھی آ رہے ہوتے ہيں اور وہ انہيں حقيقی ہی سمجھتا ہے – ليكن اس دوست كے گھر ميں بھی عرفِ عام كے تحت يہی سمجھأ گيا كہ اس كو جن چمٹ گئے ہيں اورجادو كا اثر ہو گيا ہے -اور وہ اسے عاملوں ، مولويوں ، مفتيوں اور پيروں كے پاس لے جانے لگے – جہاں بھی گئے ، سب نے كہا كہ ہاں واقعی جن ہيں، جادو ہے اور سب نے سينكڑوں كے حساب سے جن جلا كر بھسم بھی كر ديے مگر مسئلہ وہيں كا وہيں رہا – راقم نے اپنے دوست سے بارہا درخواست كی كہ اسے سائيكاٹرسٹ كے پاس لے جاؤ ، يہ ٹھيك ہو جائے گا ليكن اس بات كو سمجھنے ميں انہيں پانچ سال بيت گئے اور اس عرصے ميں اس بچے كا ناقابل تلافی نقصان ہو گيا- آخر پانچ سال كے بعد جب متعلقہ ڈاكٹركے پاس گئے تو صرف چھ ماہ كے علاج سے سب جن بھوت رخصت ہو گئے اور جادو بھی اپنا سا منہ لے كر رہ گيا-البتہ اس كی صحت كا جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چكاتھا، اب اسے واپس آنے ميں  شايد كئی برس دركار ہوں گے –

بطور مثال يہ تو صرف دو واقعات تھے، ورنہ ہمارے معاشرے كے ہر تيسرے گھر ميں اس طرح كے واقعات بكھرے پڑےہيں-پہلے واقعے ميں ايك كھيل اور كھلاڑی ہے اور دوسرے ميں ايك ميڈيكل بيماری ،ليكن عامل تو رہے   ايك طرف ، تمام مفتيان اور علماء بھی اسے جن اور جادو قرار ديتے رہے جبكہ ان كے پاس نہ تو اس كا كوئی ٹھوس ثبوت  موجود تھا اور نہ ہی كسی نے جنات كو اپنی آنكھوں سے ديكھا تھا-

ان واقعات كے پس منظر ميں جہاں عوام كی ناخواندگی ،جہالت ، توہم پرستی اور غربت كام كرتی ہے وہيں عاملوں كا فراڈ ، جھوٹ ، دھوكہ اور منافقت بھی اہم كردار ادا كرتی ہے – عاملوں ميں سے اكثر ،محض اپنے مالی اور مادی مفاد كے ليے لوگوں كو اسی چكر ميں پھنسائے ركھنے كی سعی كرتے ہيں اور انہيں ڈاكٹروں كے پاس جانے سے روكتےہيں-البتہ عاملوں كی ايك قسم ،بظاہر سمجھدار اور نيك لگتی ہے  ليكن لگتا ہے كہ وہ بيچارے  بھی وہم كے مريض ہو جاتے ہيں اور يا پھر  ہر وقت جنوں بھوتوں اور جادو كی باتيں سنتے سنتے  اور كرتے كرتے،خود بھی نفسياتی عارضے كا شكار ہوجاتے ہيں اور انہيں بھی ہر مريض ميں سوائے جنوں اور جادو كے كچھ نظر نہيں آتا - بلكہ ہمارے عامل صاحب تو كہہ رہے تھے كہ بھائی آپ ڈاكٹروں كی بات كرتے ہيں ، نفسياتی ڈاكٹر تو خود ميرے پاس آتے ہيں -بس يہی " مَيں" اور اس "مَيں" كے لبادے ميں چھپے ان كےمفادات  اصل بات كو تسليم كرنے كی راہ ميں ركاوٹ بن جاتے ہيں –

 حق  سچ كو ماننا  اورحق سچ ہی دوسروں كو بتانا،اصل ميں ايك بڑا امتحان ہے اور  اس  امتحان ميں كامياب صرف  وہ ہوتے ہيں  جن پر اللہ رحم فرمائے  اور اللہ ان پر رحم فرماتا ہے جو تعويذوں  ، ٹُونے ، ٹوٹكوں، عاملوں ، وسيلوں اور واسطوں سے كٹ كر صرف اُسی كا بن كر جينے كی سعی كرتے  ہيں اور يہ سعی  كرتے كرتے ہی مرتے ہيں، اور مرتے مرتے بھی كرتے ہيں-