‘‘الف’’ ایروناٹیکل انجنیرہیں ،ان کی تنخواہ سات لاکھ ماہانہ بتائی جاتی ہے دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ وہ لاہور کی ایک جدید آبادی میں آٹھ کنال کے بنگلے میں رہایش پذیر ہیں۔ ان کے بچے شوئفات سکول میں پڑھتے ہیں جہاں ان کی فیس لاکھوں میں ہے۔ فزکس ’ کیمسٹری اورمیتھ پڑھانے والے ٹیوشن ٹیچر بھی ان سے ایک ایک مضمون کی پچیس پچیس ہزارروپے ماہانہ ٹیوشن لے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری صاحب سے رابطہ کیا ۔ فیس کی بات ہوئی تو قاری صاحب نے ایک ہزارماہانہ کہا ۔ اس پرانجنیرصاحب بولے ، قاری صاحب ،خدا کا خوف کریں،کیاپانچ سوماہانہ تھوڑا ہے؟ آخر قرآن ہی تو پڑھانا ہے۔
‘‘ب’’ ایک اسلامک سکالر ہیں ۔ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلر (جو سابق وفاقی وزیر ہیں)نے ا ن سے رابطہ کیا اور کہا کہ اُن کے فائن آرٹس کے شعبے سے وابستہ طلبا کے لیے اسلامیات کانصاب درکار ہے۔ وہ یہ نصاب ترتیب دے دیں اور اس کو ہفتے میں دو بار طلبا کو پڑھا بھی دیا کریں ۔ یونیورسٹی ان کو مناسب مشاہر ہ دے گی۔ اس پر سکالر نے مشاہر ہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم دس ہزار ماہانہ دے سکتے ہیں ۔ سکالر نے کہا کہ آپ باقی مضامین کے اساتذہ کو تو پچاس سے اسی ہزار تک دے رہے ہیں جب کہ میں نے صرف پڑھانا نہیں بلکہ نصاب بھی ترتیب دینا ہے، تو وائس چانسلر صاحب نے کہا ارے صاحب یہ تو ہماری مجبوری ہے ۔ایچ ای سی والے بغیر اسلامیات پڑھائے ڈگری کی تصدیق نہیں کرتے اور دوسرے جناب دس ہزاربھی تو بہت ہیں آخر اسلامیات ہی تو پڑھانی ہے ۔
‘‘ج’’ ایک انٹر نیشنل سکول میں استاد ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ جب ان کے سکول میں سالانہ انکریمنٹ دینے کی باری آتی ہے توسائنس پڑھانے والوں کوتو پانچ سے دس ہزار دی جاتی ہے جبکہ اسلامیات پڑھانے والوں کو ایک سے دو ہزار ۔ اور جب سکول کے مالک سے اس امتیازی سلوک کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ دیکھو فزکس، میتھ اور کیمسٹر ی پڑھانے والے اتنی موٹی موٹی کتابیں پڑھاتے ہیں جبکہ اسلامیات والے اتنی چھوٹی چھوٹی ، تو انکریمنٹ برابرکیسے ہو سکتی ہے؟ اور پھر کہتے ہیں کہ بھائی اس میں کیامشکل ہے ،آخر اسلامیات ہی تو پڑھانی ہے ۔
‘‘د’’ ایک بڑے تعلیمی ادارے میں اسلامیات کے استاد ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ایک رات انہیں ایک شاگر د کافون آیا وہ کہہ رہا تھاکہ سر کل میرا، اسلامیات ( او لیول) کا پیپر ہے او ر میرے والد مجھے اسلامیات پڑھنے نہیں دیتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ تم کیوں وقت ضائع کرتے ہو ۔ فزکس میتھ پڑھو ، جبکہ میں ان سے کہتا ہوں کہ کل میرا پیپر ہے تو والد صاحب کہتے ہیں اس کا کیا ہے؟ آخر اسلامیات ہی تو ہے، تیاری کی کیا ضرورت؟یہی ماہر استاد بتاتے ہیں کہ ان کے سکول میں جب پیرنٹ ٹیچر میٹنگ ہوتی ہے تو بچے اپنے والدین کو کھینچ رہے ہوتے ہیں کہ پاپا، یہ ہمارے اسلامیات کے ٹیچر ہیں ان سے بھی ملتے جائیں تو پاپا اور ماما یہ کہہ کر بھاگ رہے ہوتے ہیں ارے بچو چھوڑو ، جلدی کرو جلدی ،ہمیں میتھ ، فزکس ، اور کیمسٹر ی والے کے پاس لے چلو۔ اسلامیات کاکیا ہے ان سے پھر مل لیں گے ۔
‘‘ھ’’ ایک انگلش میڈیم عالمی سکول میں اسلامیات کے استاد ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان کے سکول میں اسلامیات کے بس دو ہی سند یافتہ اور اپنے سبجیکٹ کے تعلیم یافتہ استاد ہیں جبکہ سکول کوضرورت چار پانچ اساتذہ کی ہے کیونکہ مصیبت یہ ہے کہ ہر کلاس میں اسلامیات لازمی ہے اور گورنمنٹ نے بھی اس لیے لازم کر رکھی ہے کہ اپنے مسلمان ہونے کی سند کے طور پر پیش کر سکے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ پچھلے پچیس سال سے اسلامیات کے اساتذہ کی کمی انگلش ، معاشرتی علوم اور اب کمپیوٹر ٹیچرز کے ذریعے پوری کر رہا ہے اور ان کو جماعت چہارم ، پنجم اور ششم پڑھانے کے لیے دتیا ہے اور وہ بیچارے بھی پڑھاتے ہیں کیونکہ نوکر ی جو کرنی ہوئی۔ مگر اس پڑھانے کانتیجہ وہی ہوتا ہے کہ بچہ ساری عمر یہ سمجھ نہیں پاتا کہ آخر مذہب کی ضرورت ہی کیوں ہوتی ہے؟اسلام بائی چانس اور اسلام بائی چوائس میں کیا فرق ہے ؟توحید کا صحیح تصور کیا ہے اور آخرت کی ضرورت کیوں ہے؟ ایسے بچوں کا اسلامی علم اس طرح کا ہوتاہے کہ وہ پوچھتے ہیں سر کیاپرفیوم لگا کر نماز ہو جاتی ہے کیونکہ ہمارے اسلامیات کے استاد ( جو اصل میں کمپیوٹر کے استاد ہیں) کہتے ہیں کہ پرفیوم لگا کر نماز نہیں ہوتی اوریہ بچہ پرفیوم لگانا بند نہیں کرتاجبکہ نماز چھوڑنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ دوسرا بچہ پوچھتا ہے کہ سر کیاٹوپی کے بغیر نماز ہوجاتی ہے؟ کیونکہ ہمارے اسلامیات کے استاد (جو اصل میں کیمسٹری کے استاد ہیں) کہتے کہ بغیر ٹوپی کے نماز نہیں ہوتی۔ اب بچے نہ ٹوپی پہنیں اورنہ نمازپڑھیں۔تیسرا یہ پوچھتاہے کہ سر کیا نماز کے بعد جانماز کو کو فوراً اکٹھا کرد ینا چاہیے؟ کیونکہ ہمارے اسلامیات کے استاد ( جو کہ اصل میں انگلش زبان کے استاد ہیں) کہتے ہیں کہ اگر آپ جانماز فولڈ نہیں کریں گے تو شیطان اس پر نماز ادا کرے گا ۔ یعنی کہ نمازوں کے اوقات کے علاوہ ساری مساجد میں شیطان ہر وقت نماز پڑھتا رہتاہے کیونکہ ان میں جانماز کبھی اکٹھے نہیں کیے جاتے اور اگر وہ یہ کام ہی کرتا رہتاہے تو اپنی اصل ڈیوٹی کس وقت انجام دیتا ہے؟چوتھاطالب علم کہتا ہے کہ سر ہماے اسلامیات کے استاد کہتے ہیں(جو اصل میں معاشرتی علوم کے استاد ہیں)کہ توحید کامطلب ہے اللہ ایک ہے ۔جب بچے سے کہاجاتا ہے کہ بیٹا ،توحید کا مطلب ہے اللہ اپنی ذات و صفات دونوں میں یکتا ، بے مثال اور ایک ہے تووہ کہتا ہے کہ ہمارے استاد کہتے ہیں کہ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اللہ ایک ہے، صفات کے چکر میں پڑھنے کی ضرورت نہیں یہ سب مولویوں کی باتیں ہیں۔گویا شروع ہی سے بچے کے ذہن میں صرف غلط تصور ہی نہیں بلکہ مولویوں کی نفرت اور ان سے بُعد بھی غیر محسوس طریقے سے انڈیلا جارہا ہے ۔
‘‘و’’ ایک ایسے والدہیں جو اپنے تین بیٹوں کو لاہورگرامر میں پڑ ھا رہے تھے ان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اپنے چوتھے بیٹے کومدرسے بھیجنے کاپروگرام بنا رہے ہیں۔ تحقیق و تشویش سے معلوم ہوا کہ یہ فیصلہ دین سے محبت کا نتیجہ نہ تھابلکہ وہ بچہ ذہنی طور پر نکما تھااورسکول والوں نے اس کو ساتھ چلانے سے انکار کر دیا تھا۔باپ نے سوچا کہ ایک ٹکٹ میں دو نظارے لے لیے جائیں ۔ تعلیم کی تعلیم اور جنت کی جنت اورسماجی حلقوں میں دین دار ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی۔
قارئین محترم !ہمارے معاشرے میں صرف یہ نہیں بلکہ اس طرح کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دینی تعلیم کے بارے میں ہمارا رویہ اصل میں ہے کیا ؟ہم دینی علم کو اپنی زندگی میں کیا مقام دیتے ہیں اور اس کی ہمارے نزدیک کیا اہمیت ہے ۔
زبانیں جو بھی راگ الاپیں ، لیکن اصل میں مسلمان سوسائٹی کے تقاضے پوراکرنے کے لیے ہم بامر مجبوری دینی تعلیم یا اسلامیات کی طرف آتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں فارمیلٹی یارسم پوری کر کے ہم مطمئن ہو جاتے ہیں۔جو افراد یاادارے اپنی نام نہاد ماڈرن زندگی کے ساتھ کمٹمنٹ کے حوالے سے واضح ہیں ، وہ بہت بہتر جگہ پر ہیں کہ کم از کم دوغلی پالیسی کا شکارتونہیں ۔وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی کوئی ضرورت نہیں تو ان کا عمل بھی اسی کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔مگر افسوس تو وہاں پر ہوتا ہے کہ جہاں یہ دعوی کیا جائے کہ ہم دین دار ہیں ،دین ہماری ضرورت ہے مگر دینی علم کی صرف رسم یا فارمیلٹی پوری کی جائے اور دینی علم رکھنے والوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے پر رکھا جائے اور اصل اہمیت صرف سائنس اور سائنس والوں کو دی جائے۔
دینی علم یا تعلیم کو ایک ضرورت سمجھ کر دینا اورمحض رسم پوری کرنا،دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔اگر آج ہمارے معاشر ے کو یہ علم ہو جائے کہ کسی میڈیکل کالج میں سیاسیات کے استاد انا ٹومی پڑھارہے ہیں یا انجنیرنگ میں اسلامیات کے ا ستاد کیلکولس پڑھا رہے ہیں اور یا کہ حکومت نے میڈیکل یا انجنیرنگ کے تعلیمی ادارے ختم کرنے کافیصلہ کیا ہے تو تمام معاشرہ سراپااحتجاج بن جائے گا لیکن اگر یہ پتہ چلے کہ کمپیوٹر کے استاداسلامیات پڑھا رہے ہیں، معاشرتی علوم کے استاد فقہ پڑھا رہے ہیں یا یہ کہ دینی تعلیم کو آپشنل کر دیا گیا ہے تو کوئی اکا دکا صدائے احتجاج بلند ہو گی اور اس کے بعدخاموشی چھا جائے گی۔
ہمیں انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے ۔دین یا دینی تعلیم کوئی جز وقتی یا پارٹ ٹائم کام نہیں بلکہ ایک ہمہ وقتی ، ہمہ جہتی کام اور ضرورت ہے ۔ جب تک یہ رویہ ہماری زندگی کا حصہ نہیں بنے گا ،نہ ہماری زندگی میں انقلاب برپا ہو گا اور نہ ہمارے ملک میں۔ ساٹھ برس سے انقلاب کی کوشش ہو رہی ہے لیکن یہ بات ہمیں کبھی سمجھ نہ آئی کہ انقلاب اصل میں رویوں کے بدلنے کانام ہے نہ کہ نعرے لگانے ، کانفرنسیں کرنے، جماعتیں بنانے اور گروہی ادارے یاتعصبات پالنے کا نام ۔ ہمارے وطن میں انقلاب کے نام پر جتنے بھی کام ہر ہے ہیں وہ اصل میں جماعتی ، گروہی اور مسلکی کام ہیں ۔ مدارس میں طلبا کو فقہ اور مسلک سے وابستہ کیا جاتا ہے اور سکولوں میں فزکس ،میتھ اور کیمسٹر ی سے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اچھے انجنیر ، ڈاکٹر، سانئس دان اور مولوی تو پیدا کررہے ہیں مگر اچھے انسان اور مسلمان نہیں۔ نہ مدارس میں قرآن کو ایک ضرورت کے طور پڑھانے کارواج ہے اور نہ ان سکولوں میں جو خود کو اسلام سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ وہاں بچے بارہ بارہ سال پڑھتے ہیں مگر قرآن کاسمجھنا تو دور کی با ت ہے اس کی ریڈنگ بھی صحیح طور نہیں سیکھ پاتے جبکہ دوسری طرف سائنس اور انگلش خو ب سمجھتے اور جانتے ہیں کیونکہ ماں باپ سے لے کر ادارے تک سب نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن و اسلامیات کے بارے میں رسم پوری کرنا کافی ہے اوردیگر علوم کے بارے میں محنت اور جانفشانی ۔دینی تعلیم کوئی اپنے شوق سے حاصل کر لے تب بھی ٹھیک ہے نہ کرے تب بھی کوئی بات نہیں جب کہ سائنسز تو اصل مقصد اور ضرور ت ہیں۔دینی تعلیم میں جوہر قابل ہو تب بھی ٹھیک ہے نہ ہو،تو پھر بھی مسئلہ نہیں کیونکہ اصل میں دونوں(جوہر قابل اورغبی) کا ایک مقام ہے یعنی زبانی طور پر فرسٹ کلاس اور عملاً تھرڈ کلاس۔
ان سطور کا مقصد ،تنقید ، تردید، تنقیص یا تقابل ہر گز نہیں بلکہ یہ توجہ دلانامقصود ہے کہ آج بھی وقت ہے کہ ہم اپنے رویے اور سوچ میں تبدیلی پیدا کر لیں۔ مخلص انسان ان الفاظ کو ایک یاد دہانی سمجھ کر یقینا اپنا رخ درست کر ے گا اور اس کے برعکس شخص ان حروف کو تنقید قرار دے کر اپنی سابقہ منزل کی طرف گامزن رہے گااور یہیں سے معلوم ہو جائے گا کہ کس کا اسلام پارٹ ٹائم اور مشغلہ ہے اور کس کا مقصد اور ضرورت۔
ہر عمل کاپہلا زینہ سوچ ، نیت اوررویہ ہی ہوتا ہے ۔ اس کے بغیر چلتے رہے تو اگلے سوبرس بعد بھی ہم یہیں ہو ں گے جہاں آج ہیں۔اور اگررویے کی تبدیلی کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کیا تو یقین کیجیے ہر اگلا قدم نئی منزل کی خبر دے گا۔
ان شاءاللہ