جنسی تعلیم ہمارے روایتی نظام تعلیم و تربیت میں ہمیشہ سے نصاب کا حصہ رہی ہے۔ سیدھا سا اصول یہ ہے کہ جو شے زندگی میں جس حد تک ضروری ہے دین میں اس کی تعلیم کا بندوبست بھی اسی حد تک فرض ہے۔ جنس چونکہ زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے بلکہ زندگی قائم ہی اسی کے وسیلے سے ہے لہٰذا اسکی تعلیم سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا تھا۔یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے روایتی معاشروں میں سیکس ایجوکیشن کا الگ سے کوئی شعبہ یا اس کا کوئی رنگ رنگیلا عنوان نہیں ہوتا تھا بلکہ عام دنیاوی و اخلاقی تعلیم (جس کے مجموعے کا نام دینی تعلیم ہے) ہی کا ایک لازمی جزو جنسی تعلیم بھی تھا جسے بچے بچیاں بلوغت کی عمر کو پہنچتے اپنے گھر میں ہی عام گھریلو تربیت کے دوران یا کسی باعتبار استاد/استانی سے سیکھتے تھے۔ ہمارے اسی روایتی نصاب کا ایک نمونہ ’’بہشتی زیور‘‘ نامی کتاب ہے جس پر، اسی ایک پہلو کے سبب، اور تو اور آج کے جدید تعلیم کے متاثر مولویوں کو بھی ناک بھوں چڑھاتے دیکھا سکتا ہے۔ ایک زمانے میں حسن عسکری صاحب (جو بعد میں مولانا اشرف علی تھانوی کے بہت قائل ہوئے) نے بھی بہشتی زیور کو اسلیے اٹھاکر گھر سے باہر پھنکوا دیا تھا کہ لڑکیاں اس سے جنسی لذت سیکھتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے پرانے نظامِ تربیت میں جنسی تعلیم کا پورا پورا اہتمام ہے۔
یہ جو سیکس ایجوکیشن والے آج پھر سے موقع پاکر بہت متحرک ہوگئے ہیں ان کی سیکس ایجوکیشن کا شعور لامطلوب حمل یا زیادہ سے زیادہ جنسی بیماریوں سے بچنے کیلیے غلاف کے استعمال کے طریقے سکھانے تک محدود ہے اور وہ بھی ایک ایسے آزادانہ ماحول میں جہاں دافعِ مرض و مانع حمل امور میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اسے آزمانے کے مواقع بھی وافر طور پہ دستیاب رہیں۔ جبکہ ہمارے روایتی نصابِ تعلیم میں جنس کو ہمیشہ اخلاقی حدود کا پابند مانا گیا ہے اور اسی لیے ماحول اور استاد کی اہلیت کو بھی سختی سے مدنظر رکھا گیا ہے۔ ہمارے مذہبی شعورمیں جنس ایک ’’مقدش شے‘‘ ہے۔ چونکہ ہر مقدس شے تقدیس کے پردے میں رکھی جاتی ہے اسلیے جنس کی تعلیم بھی مقدس ماحول چاہتی ہے۔اس کے برعکس جدید ماہرینِ تعلیم و جنسیات کے نزدیک جنس کا تقدس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اسمیں ہر طرح کی آزادی روا سمجھتے ہیں۔ وہ اسکی تعلیم کے لیے بھی کسی خاص اخلاقی ماحول و مخصوص مدرِس کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک اصل خرابی ماورائے مناکحت تعلق (Extar marital relations) میں نہیں بلکہ اسکے عواقب میں ہے۔ سیکس ایجوکیشن کے جدید شعور کا اصل ہدف گناہ سے بچنا نہیں بلکہ گناہ کے نتائج اور نشانات کو منظرعام پر آنے سے روکنا ہے۔ کیونکہ جدید شعور میں گناہ تو کوئی شے ہوتا ہی نہیں بلکہ احساسِ گناہ اصل خرابی ہے۔ اس کے نزدیک باہمی رضامندی سے آزادانہ جنسی تعلق قائم کرنا ایک صحتمند تفریح ہے۔ اس آزادانہ تعلق کو موجب گناہ سمجھنا ذہنی امراض پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اب گناہ کو ختم کرنے کے بجائے احساسِ گناہ سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جدید تحلیل نفسی (Psycho analysis) سوائے اسکے اور کچھ نہیں۔ کبھی آپ غور فرمائیے تو پتا چلے گا کہ مانع حمل اور دافع امراضِ جنسی کی کاوشوں کے جدید شعور کا ایک بہت بڑا سروکار احساسِ گناہ کو جنم دینے والے اسباب کو ختم کرنا ہی ہوتا ہے۔
آج گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے جو فلسفے بتائے جارہے ہیں اس کا مقصد بچوں کو غلط ہاتھوں سے محفوظ بنانا بھی یقیناً ہوگا مگر معاشرے میں سیکس ایجوکیشن عام کرنے کی اصل غایت جنس کے بارے میں کسی اخلاقی معنویت کو فروغ دینے کے بجائے من چاہی محفوظ جنسی لذت کے حصول کو آسان بنانا اور بالجبر کو بالرضا میں ڈھالنے کا راستہ ہموار کرکے جنس جیسے مقدس عنصر کو اجناس (commodity) بنادینا ہے۔
یاد رہے کہ جدید شعورِ جنس کا مسئلہ یک زوجیت اور تقدیسِ جنسی نہ کبھی تھا نہ ہوگا۔ اسے کثیر زوجیت سے بھی کوئی پرخاش نہیں اسے اصل اختلاف جنس کو تقدیسی حدود (پردہ و نکاح) کا پابند بنانے اور اسکے بے محابا تمتع پر پابندی سے ہے۔ اِس ذہن کے نزدیک تو جنس اب موبائل فون جتنی نجی شے بھی نہیں رہ گئی۔ رابرٹ موگابے کا مشہور جملہ ہے کہ ’’ہم ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس میں عاشق و محبوب ایک دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس تو چھو سکتے ہیں مگر موبائل فون نہیں کیونکہ وہ پرائیویٹ شے ہے۔‘‘
یہ نسل جدید سیکس ایجوکیشن ہی کی تیار کردہ ہے روایتی مذہی نظام تعلیم کی نہیں۔یہی وہ
زاویہ نظر و دائرہ عمل ہے جہاں روایتی جنسی تعلیم اور جدید سیکس ایجوکیشن کے تصورات کا بنیادی تعارض واقع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی جائز مسئلے کو بنیاد بناکر سیکس ایجوکیشن عام کرنے کی باتیں ہوتی ہیں تو روایتی مذہبی ذہن کو اس مطالبے سے بوئے فساد آتی ہے۔***