ہمارے ہاں اکثر اس بات کا شکوہ کیا جاتا ہے کہ مخلص اور باشعور قیادت کا فقدان ہوچکا ہے۔ اب نہ اقبال جیسے فکری رہنما پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ شاہ ولی اللہ جیسے مذہبی عالم، نہ قائد اعظم جیسے سیاسی لیڈر کی اب کوئی جگہ ہے اور نہ سرسید جیسے مصلح کے اٹھنے کا کوئی امکان۔ لیکن یہ نقطہ نظر اللہ تعالیٰ کے قانون کے قطعاً خلاف ہے۔
خدا نے جب سے انسان کو اس دنیا میں بسایا ہے تب سے اس کی انفرادی اور اجتماعی ضرورت کی ہر چیز کی فراہمی کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے۔انسانی ضروریات ہوا، پانی، خوراک ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ لوگ مختلف صلاحیتیں لے کر پیدا ہوں تاکہ اجتماعی زندگی وجود میں آسکے۔اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ محنت، سرمایہ، عقل اور علم کا بہترین استعمال کرنے والے لوگ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو قوم کی قیادت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔
ہماری قوم میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت اعلیٰ ترین درجے کے لیڈر پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج تک ہورہے ہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں لیڈر نہیں پیدا ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لیڈر تو موجود ہیں، ہم ان کی بات سننے ،ان کی رہنما ئی قبول کرنے اور ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔خاص کر ہمارا مڈل کلاس طبقہ جس نے مادی آسایشوں کو زندگی کا نصب العین بنالیا ہے، وہ اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔
ہم اپنے بچوں میں اجتماعی خیر و شر کا شعور پیدا کرنے کے بجائے فلموں اور میوزک کا ذوق پیدا کرتے ہیں۔ ہم انھیں اپنے مذہب اور تہذیب کا شعور دینے کے بجاے منہ بگاڑ کے انگریزی بولنا سکھانا پسند کرتے ہیں۔ہم کتاب خریدنے کے بجائے برگر خریدنا ، مطالعے کے بجائے ٹی وی پر تفریحی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ہم مخلص اور باکردارلوگوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے گھر اور کیریئرز کو مقصود زندگی بنانا پسند کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں شکوہ اپنے آپ سے ہونا چاہیے نہ کہ ملک کے بد سے بدتر ہوتے ہوئے حالات سے۔