اصلاح و دعوت
حسد اور اس كا علاج
نير تاباں
استاذ نعمان علی خان نے قصہ آدم میں شیطان کا کیریکٹر سکیچ بنایا۔ معلوم ہو کہ شیطان کیا کرتا ہے تا کہ یاد رہے کیا *نہیں* کرنا- یہ ایکٹیوٹی بچوں کے ساتھ قرآن کلاسز میں ہم نے بھی متعدد بار کروائی۔شیطان کے کیریکٹر سکیچ میں سب سے نمایاں چیز تکبر اور حسد ملیں گے۔ ابلیس جو ایک جن ہو کے بھی فرشتوں کی مجلس تک جا پہنچا تھا، حسد اور تکبر نے اسے demote کر کے شیطان بنا دیا۔یہی حال انسان کا بھی ہوتا ہے۔ اپنے ہی معیار سے کس قدر گر جاتا ہے جب وہ حسد کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتا ہے۔ ابلیس سے لے کر قابیل تک، یوسف ؑ کے بھائیوں سے لے کر یہود و نصاریٰ تک جس پر بھی غور کریں، دشمنی کی جڑ حسد سے ہی پھوٹتی ہے۔حسد انسان کو اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں رہنے دیتا۔ رزق چاہے اچھی جاب کی صورت ہو، مال، اولاد، یا پھر محبت، حاسد کو کھلتا ہی رہتا ہے کہ دوسرے کے پاس مجھ سے زیادہ/بہتر کیوں؟ اپنی نعمتوں پر اس کی نظر کم ہی رہتی ہے۔ یوں وہ اندر ہی اندر نفرت، بغض اور کینے کا شکار ہو جاتا ہے۔
کچھ گمان گناہ ہیں، اس لئے کسی کے خلاف حسد کی اول اول سوچ پر ہی خود کو روکنا چاہئے۔ کیونکہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب سوچ عمل میں ڈھلتی ہے۔ نفرت اور حسد میں سلگ کر انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے نقصان پہنچاتا ہے۔ کیسے دکھ کی بات ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کو جس کی عزت اللہ نے کعبتہ اللہ سے بڑھ کر رکھی ہے، ڈی فیم کرتا ہے۔ کیسی تکلیف کی بات ہے کہ ہمارے ہاتھ اور زبان کے شر سے ہمارے اپنے ہی لوگ محفوظ نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
کیسے کھا جاتا ہے حسد نیکیوں کو؟ یوں کہ حاسد جب حسد کا چشمہ لگا کر دیکھتا ہے تو بدگمانی وہ وہ کچھ دکھاتی ہے جس کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس بدگمانی کو سچ ثابت کرنے کی خاطر بہتان گھڑے جاتے ہیں۔ پر کا کوا بنانے کی خاطر غیبت سیشنز چلا ئے جاتے ہیں۔ جو وقت خیر کے کاموں پر صرف کیا جا سکتا تھا، وہ دوسرے کی زندگی میں زہر گھولنے پر لگایا جاتا ہے۔
حسد کرنے والے کو لگتا ہے کہ وہ دوسرے کو نقصان پہنچا رہا ہے، جب کہ پہلا نقصان خود اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے۔ ایک تو یہی نیکیاں ضائع ہونے کا نقصان۔ مزید یہ کہ وہ زہر جو اس نے دوسرے کو ڈسنے کے لئے سنبھال رکھا ہوتا ہے، وہ اس کی اپنی ذات کے اندر یوں سرایت کر جاتا ہے کہ چنگا بھلا انسان ٹاکسک ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حسد سے بچیں کیسے؟
سب سے پہلی چیز دعا ہے۔ جس سے حسد محسوس ہو، اُس کے لیے دل سے بھلائی کی دعا مانگیں۔ یہ نفس کے خلاف ہے، لیکن بہت مؤثر ہے۔اللہ سے کہیں: یا اللہ! اسے اور بھی برکت دے، اور مجھے بھی اپنی شان کے مطابق عطا فرما، اور مجھے اس عطا میں راضی رکھ۔
اور یہ کہ موازنے میں نہ پڑیں۔ خود کو اللہ کی تقسیم پر راضی رکھیں۔ یاد رکھیں کہ “اللہ جسے چاہے دیتا ہے اور جس سے چاہے روک لیتا ہے۔” (القرآن)اپنی کوئی محرومی ہے تو ایکنالج کریں، اس پر دکھی ہوں، لیکن دوسرے کے حصے کے رزق پر ما شا اللہ کہیں دل سے۔ سننے میں شاید عجیب لگے لیکن آپ بیک وقت اپنے لئے دکھی اور دوسرے کے لئے خوش ہو سکتے ہیں۔ اور gratitude journal بنائیں۔ اپنی بے شمار نعمتوں پر نگاہ رکھیں۔ انہیں لکھیں۔ دیکھیں۔ شکر گزار ہوں۔اور یاد رکھیں کہ کسی کے پاس جو بھی فراوانی ہے، وہ بہرحال عارضی ہے اور ہماری جو بھی محرومی ہے، اسے بھی دوام نہیں ۔ کچھ دن کی زندگی ہے اسے جلتے کڑھتے نہ گزاریں ۔