میں ’مرسی کلنگ‘ پر سٹوری کے لیے گھر سے نکلا تھا کہ مغربی اتر پردیش کے میرٹھ شہر میں میری ملاقات آئیوی سنگھ اور ان کی منھ بولی بیٹی بھومیکا سے ہوئی۔آئیوی اپنے ہی گھر میں ایک چھوٹا سا سکول چلاتی ہیں۔ بچوں کے چہکنے کی آواز دوپہر تک تو گھر میں گونجتی رہتی ہے، پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔
آنند سنگھ کی کہانی
اس گھر میں ایک ایسا شخص بھی رہتا ہے جس کی غیرمعمولی کہانی مرسی کلنگ پر پہلے سے ہی پیچیدہ بحث کو اور الجھا دیتی ہے۔
اس خوبصورت شخص کا نام آنند سنگھ ہے۔ جوانی کی تصویریں دیکھیں تو کسی فلم سٹار سے کم نہیں۔ لیکن یہ 25 سال پہلے کی بات ہے۔وہ بھارتی بحریہ میں ملازم تھے۔ آئیوی سے شادی کے صرف چند ماہ بعد چھٹیوں کے لیے گھر لوٹ رہے تھے کہ ان کی موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہو گئی۔ دماغ میں چوٹ لگی، اور ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔اب وہ نہ بول سکتے ہیں، نہ خود کھا سکتے ہیں، نہ چل پھر سکتے ہیں اور نہ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی صحت یابی کا کوئی امکان ہے۔ 25 سال سے وہ بستر پر پڑے ہیں، ناک میں ایک ٹیوب لگی ہوئی ہے، کھانے کے لیے وہ اس ٹیوب کا اور کھلانے کے لیے آئیوی کا سہارا لیتے ہیں۔
آئیوی سنگھ کی کہانی
‘میرے والدین ہمیشہ یہ ہی سکھاتے تھے کہ جس سے شادی ہو رہی ہے اس کے غم اور اس کی تکلیف میں شریک رہنا’ان 25 برسوں میں ان کی ہر ضرورت آئیوی سنگھ نے ہی پوری کی ہے۔ عمر تقریباً 48 سال۔ شادی کے وقت آئیوی نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا کہ اس کی زندگی بھی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔‘ہم صرف چھ سات مہینے ہی ساتھ رہے، وہ بھی لگاتار نہیں کیونکہ آنند کی نوکری ہی کچھ ایسی تھی اور پھر یہ حادثہ ہوگیا۔۔۔تب سے میری زندگی آنند کی دیکھ بھال میں ہی گزری ہے۔’
جس کمرے میں آنند اپنی زندگی گزار رہے ہیں، وہ کسی ہسپتال کے کمرے سے کم نہیں ہے۔ ایک الماری دوائیوں سے بھری ہوئی ہے، اس میں ضرورت کا تمام سامان موجود ہے، انجکشن کی سرنج سے لیکر ‘نیبولائزر’ کی ٹیوب تک۔ آئیوی خود ایک تربیت یافتہ نرس سے کم نہیں ہیں۔میں جھجکتے ہوئے ان سے وہ دو سوال پوچھ ہی لیتا ہوں جو میرے دل میں تو ہیں لیکن زبان پر آسانی سے نہیں آتے: کیا آپ نے آنند کو چھوڑ کر کبھی دوسری شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا؟ اور آپ نے اپنی زندگی تو آنند کو زندہ رکھنے میں گزار دی لیکن وہ کیاحالات ہوں گے جن میں آپ بھی ‘مرسی کلنگ’ یا بے ایذا موت کی حمایت کر سکتی ہیں؟
‘اگر کوئی انسان کوما میں ہویعنی پوری طرح بے ہوش، اور اس کی فیملی کے پاس اتنا پیسہ بھی نہ ہو کہ اس کی دیکھ بھال کر سکے تو پھر یہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں۔۔۔ اور ہاں میں نے دوبارہ شادی کے بارے میں سوچا تھا لیکن میری ایک شرط تھی کہ میری زندگی میں جو بھی دوسرا شخص آئے اسے آنند کو بھی قبول کرنا ہوگا!’
آئیوی سنگھ کی زندگی میں کوئی دوسرا شخص تو نہیں آیا:لیکن آئیوی کہتی ہیں کہ ‘بیمار کوئی جان بوجھ کر تو ہوتا نہیں، شاید یہ ہی میری تقدیر تھی، میرے والدین ہمیشہ یہ ہی سکھاتے تھے کہ جس سے شادی ہو رہی ہے اس کے غم اور اس کی تکلیف میں شریک رہنا۔’ لیکن دس برس پہلے انھوں نے ایک بچی کو گود لینے کا فیصلہ کیا۔
بھومیکا کی کہانی
دس برس پہلے آئیوی سنگھ نے بھومیکا کو گود لینے کا فیصلہ کیا تھا۔بھومیکا ایک یتیم خانے میں پل رہی تھی: ‘مجھے بیٹی ہی چاہیے تھی، میں اسے گھر لے آئی۔ اب بھومیکا کی عمر دس گیارہ سال ہے۔ سکول سے لوٹتے ہی وہ آنند سنگھ کے ساتھ کھیل میں لگ جاتی ہے۔ منھ کھولو، منھ بند۔۔۔بولو اے، بی، سی۔۔۔کیا سب چیزیں ایک ہی طرح بولو گے۔۔۔!’مجھے آنند کی بے جان آنکھوں میں تھوڑی چمک نظر آتی ہے۔ وہ گلے سے کچھ آواز تو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شاید اس کا مطلب آئیوی اور بھومیکا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بھومیکا بھی اب پوری پھرتی کے ساتھ وہ سارے کام کرتی ہے جو 25 برسوں سے آئیوی کرتی آئی ہیں۔ اس بچی نے اپنی زندگی کا راستہ ابھی سے طے کر رکھاہے، بڑے ہو کر وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔آئیوی اور ننھی بھومیکا نے آنند کو زندہ رکھا ہے: ‘انھیں کچھ دنوں کے لیے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تو گھر بالکل سونا ہوگیا۔۔۔ لیکن میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جو محبت اور جو دیکھ بھال آنند کو ملی ہے، وہ دوسرے کتنے لوگوں کو مل پاتی ہوگی؟ کتنے لوگ اپنی زندگی اس طرح قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں گے اور اگر مریض کے ٹھیک ہونے کا کوئی امکان نہ ہو تو کیا انھیں یہ قربانی دینی بھی چاہیے؟’
یہ ہی بحث آج کل ہندوستان میں چل رہی ہے۔ کیا زندگی کے حق میں موت کا حق بھی مضمر ہے؟ کن حالات میں انسان کو اپنی زندگی ختم کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے؟ زندگی کا مالک کون ہے اور یہ مشکل فیصلہ کرنے کا مجاز کون؟
یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ زندگی کب زندہ رہنے لائق نہیں رہتی، اس پیچیدہ سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔(بی بی سی ۲۷ اگست۲۰۱۴)
(اس پیجیدہ سوال کا جواب صرف سچا آسمانی مذہب ہی دے سکتا ہے )