وہ درازقد کے وجیہ و شکیل آدمی تھے۔ اللہ نے انھیں غیرمعمولی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں۔ اُن کی قابلیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے امریکہ سے انگلش میں پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا اور وہیں مختلف یونیورسٹیوں سے منسلک ہوگئے تھے۔ پھر وہ کئی سال تک انگلینڈ کی معروف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے اور آخر میں سعودی عرب کی ریاض یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے تھے لیکن گھریلو حوالے سے ڈاکٹر خان کو کبھی بھی سکون میسر نہ آیا۔ اُن کی شادی اعلیٰ تعلیم یافتہ امیرخاندان میں ہوئی۔ بیگم اُن کی ظاہری لحاظ سے بڑی خوبیوں کی مالک تھی اور ڈاکٹر خان اس حوالے سے خوش بھی بہت تھے۔
اللہ نے انھیں دو بیٹے بھی عطا کیے۔ کم و بیش بیس سال تک میاں بیوی میں مفاہمت اور یگانگت کی فضا بھی قائم رہی، لیکن پھر بدقسمتی سے دونوں میں بگاڑ پیدا ہوگیا اور غلط فہمیاں بڑھتی ہی چلی گئیں حتیٰ کہ پچاس سال کی عمر میں اپنی بیگم کو طلاق دے دی۔
اس وقت بڑے بیٹے کی عمر تقریباً پینتیس سال تھی لیکن بدقسمتی سے وہ نفسیاتی مریض تھا اور اس کی شادی نہیں ہوسکی تھی۔ چھوٹے کی عمر تیس سال تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی ایک امیرخاندان میں شادی کی اور شادی کے ساتھ ہی بیٹے کو اچھی ملازمت مل گئی۔ باپ بیٹا دونوں خوش تھے۔
ڈاکٹر خان کے ساتھ ایک اور بدنصیبی یہ ہوئی کہ وسائل رکھنے کے باوجود وہ اب تک اپنا مکان نہیں بنا سکے تھے اور کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ چھوٹے بیٹے کی شادی ہوئی اور اُسے ملازمت مل گئی تو اس نے اپنی ماں سے میل ملاقات بحال کرلیا اور باپ کو اعتماد میں لیے بغیر ایک روز اُسے گھر میں لے آیا۔ اس موقع پر اُس نے ایک بڑا ہی دردناک غیرانسانی ڈرامہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب چند روز کے لیے کسی دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ بیٹے نے اُن کی غیرموجودگی میں ان کا سامان چیک کرایا اور جب وہ ایک روز بعد واپس گھر آئے تو بیٹے نے اُن کا راستہ روک لیا۔ ڈیڈ! اب آپ اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہاں اب میں رہوں گا، میری بیگم رہے گی اور میری ماں رہے گی۔ آپ کا سامان پیک ہوا پڑا ہے۔ واپس جایئے، مکان کا انتظام کیجیے اور ٹرک لاکر سامان لے جایئے۔
یہ صورت حال ایسی تھی کہ ڈاکٹر خان چکرا کر رہ گئے۔ انھیں زمین آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہوئے لیکن پھر وہ سنبھلے اور سر کو تھام کر اپنی کار میں بیٹھ گئے اور کئی گھنٹوں کی جستجو کے بعد ایک مکان کرائے پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن اس حادثے کے بعد وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں اُن کا بائی پاس آپریشن ہوا اور اب وہ شوگر سے بھی دوچار ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نفیساتی مریض، بڑے بیٹے کے ساتھ ایک مکان میں بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی اُن کے لیے وبال بن گئی ہے اور یہ مکافات عمل ہے امریکہ اور انگلینڈ میں اُن کے ‘‘آزادانہ’’ طرزِ حیات کا۔
٭٭٭