میرے محل میں 60 افراد ملازم تھے یہ میرا ذاتی سٹاف تھا یہ لوگ میرے اشاروں کے مُنتظر رہتے لیکن کُہنہ سال خاتون نے ٹھنڈی سانس بھری ٹِشو پیپر سے آنکھیں پونچھیں اور گُلو گیر آواز میں بولی اب میرے پاس صرف دو ملازم ہیں۔ ایک عورت میرے لئے کھانا بناتی ہے اور دوسرا ڈرائیور ہے۔ زندگی انتہائی مُشکل ہے ہاتھ تنگ رہتا ہے بعض اوقات دوستوں سے بھی رقم مانگنا پڑتی ہے یہ ایران کے سابق شاہ رضا پہلوی کی ملکہ فرح کے خیالات ہیں ۔ فرح دیبا نے پچھلے ہفتے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے ڈیبورا سولومن کو انٹرویو دیا۔ فرح پہلوی سن 1979 میں ایرانی انقلاب کے وقت ایران کے شاہ رضا کے ساتھ امریکہ فرار ہو گئی تھی۔ شروع شروع میں وہ شاہ کے ساتھ ماری ماری پھرتی رہی یہ دونوں گرتے پڑتے کسی مُلک میں داخل ہوتے وہاں سے انہیں چند دنوں میں نکل جانے کا حُکم ملتا۔وہ کسی دُوسرے دوست کی چوکھٹ پر آ گرتے وہ بھی انہیں جلد ہی چلتا کر دیتا ۔ ان کی بادشاہت چھن چُکی تھی۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑا پیسہ ضبط ہو چُکا تھا۔ دُشمن مُلک ان کا پیچھا کر رہے تھے اور امریکہ نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ ایک کسمپُرسی اور خود ترسی تھی جس میں شاہ نے قاہرہ میں 1980 میں دم توڑ دیا۔ اسے اُسی مقام کے صحن میں چُپ چاپ دفن کر دیا گیا جس کے بعد فرح آزاد ہو گئی۔ وہ مصر سے امریکہ آ گئی۔ اور پچھلے کئی برسوں سے امریکہ کی جلا وطنی کی زندگی گُذار رہی ہے۔ اُ س نے یہ کئی برس اُن زیورات کے بل بوتے پر گُزار دئیے جو وہ تہران سے ساتھ لائی تھی۔ یہ ایک ایسی خاتون کی درد بھری کہانی ہے جو بیس برس تک تیل کی دولت سے مالا مال ایک جدید اور مالدار مُلک کی خاتونِ اوّل رہی۔ ایک ایسے بادشاہ کی بیوی تھی جس کے ایک اشارے سے دُنیا ادھر کی اُدھر ہو جاتی تھی۔ جس کے خاوند نے ایک روز ایرانی شہنشاہیت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منانے کا فیصلہ کر لیا ماہرین نے تاریخ کی کتابیں کھنگالی تو پتہ چلا کہ ایرانی شہنشاہیت کو ابھی فقط 1435 سال ہوئے ہیں شاہ کو اس صورتحال سے مُطلع کی گیا تو اس نے کیلنڈر کو ایک ہزار پینتیس برس آگے کرنے کا حُکم دے دیا۔ دلچسپ بات ملاحظہ کیجئیے کہ کیلنڈر کو واقعی آگے کر دیا گیا۔ شاہ نے ایک روز اپنے وزیر دربار امیر عباس ہویدا سے وقت پوچھا اُس نے جواب دیا چھ بجے ہیں شاہ نے مجلس شوریٰ کے صدر مہندس ریاضی سے پوچھا اُس نے بھی عرض کیا چھ بجے ہیں۔ شاہ نے اپنی گھڑی اُتاری اور بولا یہ بد بخت پانچ بتا رہی ہے شاہ ٹائم کو بدلنے کے لئے ناب کو چُٹکی میں دبایا اور وزیر درباد امیر عباس ہویدا چلّایا قربانت شون یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کے یہ غلام برداشت نہیں کر سکتے کہ حُضور کو گھڑی دُرست کرنے کی زحمت برداشت کرنا پڑے۔ آپ اس کو یہیں رہنے دیں ہم پینتیس ملین عوام اپنی اپنی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں جسکے ایک وزیر اعظم منوچہر اقبال نے بھری پارلیمنٹ میں کہا کہ میں شہنشاہ کا نوکر نہیں چاکر ہوںیعنی گھوڑوں کی خدمت کرنے والا -جو لوگوں کو اپنے پیش لفظ اور دستخطوں والا قران مجید پیش کیا کرتا تھا جس نے ایک آرڈر کیا اور ایران میں موجود چوالیس ہزار امریکیوں کو سفارت کاروں کا درجہ مل گیا۔ جس نے سرکاری سطح پر دو مردوں کی آپس میں شادی کرائی اور دعوت ولیمہ میں تمام فوجی جرنیلوں بیورو کریٹس اور وُزرا نے شرکت کی۔ جس نے ایک حُکم جاری کیا اور ایران میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگ گئی اور جو دربار میں آتا تھا تو قصیدہ گو کہتے تھے جو کچھ آپ نے عوام کے لئے کیا اتنا کچھ عوام کے لئے دیگر شہنشاہوں نے اڑھائی ہزار سالوں میں نہیں کیا۔ اور اللہ تعالیٰ آپ کو 120 سال کی عمر عطا کرے۔ لیکن یہ شہنشاہ اکہتر سال کی عمر قاہرہ کے ایک معمولی گھر میں اس طرح فوت ہوا کہ اس کے سرہانے کوئی طبیب تھا نہ ہی سورۃ یٰسن پڑھنے والا کوئی قاری- اس ویرانے میں فقط فرح دیبا کی سسکیاں اور شاہ کی شہنشاہیت کی بوسیدہ یادیں ۔ اس بے مُراد بادشاہ کو جنازہ تک نصیب نہ ہوا۔ صرف دو چار بندے تھے جنہوں نے مکان کے صحن میں اسے دفن کر دیا۔ اور دعا کر کے گھروں کو لوٹ گئے۔ آج شہنشاہ کی نعش بچانے کے لئے اس مکان کے باہر مسلح گارڈ کھڑے رہتے ہیں جبکہ اس کے اندر اندھیرے مزار پر کوئی چراغ جلتا ہے اور نہ کوئی فاتحہ پڑھتا ہے اور رہی ایران کی آخری ملکہ تو کئی برس سے زیور بیچ بیچ کر گزارہ کر رہی ہے اپنا ٹائلٹ خود دھوتی ہے
مارکیٹ سے اپنا سودا خود لاتی ہے خادمہ چھُٹی پر چلی جائے تو اسے اپنا کھانا بھی خود ہی بنانا پڑتا ہے، شام آتی ہے تو فرح دیبا پر یاسیت کے لمبے دورے پڑتے ہیں۔ وہ بے تحاشا شراب پیتی ہیں اور دیواروں کو خادم سمجھ کر حکم جاری کرتی رہتی ہے ۔ لیکن افسوس جب اقتدار ختم ہوتا ہے تو دیواریں بھی اپنا سایہ واپس نگل لیتی ہیں ۔ کُرّہ ارض پر تاریخ اقوام عالم میں محمد رضا شاہ پہلوی جیسے بادشاہ اور فرح دیبا جیسی کتنی ملکائیں گُزری ہیں۔ کتنے لوگ تھے جنہیں اپنے اقتدار اپنے اختیار پر مان تھا جو سورج پر بجھ جانے اور ہواؤں کو ٹھہر جانے کا حُکم دیتے تھے جو خود کو مقدر ساز سمجھتے تھے اور جو لوگوں کو سانسیں بھی گن گن کر دیتے تھے لیکن پھر کیا ہوا یہ تمام ملکائیں اور بادشاہ کشکول بن کر گلی گلی پھرے اور ایک ایک سانس اور ایک ایک لُقمے کو ترستے ہوئے اس عارضی جہان سے رُخصت ہو گئے۔ لیکن یہ انسان ہی کا کمال ہے کہ پرانے بادشاہوں کی لاشوں پر کھڑا ہو کر تاج پہنتا ہے اور پھر گُمان کرتا ہے کہ اس کا اقتدار قیامت تک جاری رہے گا۔ میں ان چھوٹے چھوٹے بادشاہوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ تاریخ کی گھڑی ذرا سی کھول کر دیکھیں جس دنیا پر شاہ ایران کا اقتدار کا قائم نہ رہا اُس صفحہ ہستی پر آپ کا اختیار کتنی دیر رہے گا؟ آخر خُشک پتوں پر جمی ریت کتنی دیر تک قائم رہتی ہے آخر صحرا میں گرے اولوں کی زندگی کتنی ہوتی ہے؟