میرا تعلق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔ میری ماں کی عمر تیرہ برس تھی جب میری نانی کا انتقال ہوا- میری نانی کی وفات کے بعد میرے نانا نے میری ماں کی پرورش کا بیڑا اٹھایا مگر انہیں جلد ہی یقین ہوگیا کہ وہ یا تو میری ماں کو کما کر کھلا سکتے ہیں یا پھر ان کے محافظ بن کر گھر بیٹھ سکتے ہیں، لہذا جب میری ماں سولہ برس کی عمر کو پہنچی تو میری ماں کا نکاح میرے نانا نے اپنے بھتیجے (میری ماں کے چچازاد) سے یہ سوچتے ہوئے کردیا کہ گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ہے میری بیٹی کو اچھی طرح سمجھتا ہے میرا بھتیجا بھی ہے اس لیے خوش رکھے گا-مگر یہ میرے نانا کی خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔ میرے نانا میری ماں کی شادی کے بعد ڈیڑھ برس زندہ رہے، ان ڈیڑھ برسوں میں میری ماں تین بار روٹھ کر اپنے باپ کی دہلیز پر آئی، ہر بار میرے نانا نے اپنے بھائی (میرے دادا) کی منت سماجت کر کے میری ماں کو واپس بھجوادیا -
ڈیڑھ برس بعد میرے نانا کا انتقال ہوا تو میری ماں بالکل لاوارث ہوگئی، میرے ددھیال والوں کو کھلی چھوٹ مل گئی، اب میرے والد محترم کے ساتھ ساتھ میری دادی اور دونوں پھوپھیاں بھی میری ماں کو مارنے پیٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں- یہاں تک کہ ایک بار میرے والد صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا تھا اور میری ماں طبعیت کی خرابی کی وجہ سے ان کے کپڑے استری کر کے نہ رکھ پائی تو اس بات پر انہوں نے میری ماں کو کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے مار مار کر ان کے کندھے کی ہڈی توڑ دی- کندھے کی ہڈی توڑنے کے بعد کسی ڈاکٹر تک کو دکھانے کی زحمت نہ کی گئی بلکہ الٹا میری ماں درد سے کراہتی تو اسے اور پیٹا جاتا اور بہانے خور جیسے القابات سے نوازا جاتا، یہاں تک کہ مسلسل حرکت میں رہنے کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہڈی نے انگلیوں اور بازو کو خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو بھی کٹ کردیا-جب خون سپلائی کرنے والی نالیاں کٹ ہوگئیں تو خون کی سپلائی آہستہ آہستہ انگلیوں تک پہنچنا بند ہوگئی اور بازو بے جان ہونا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ بازو بے جان ہو کر سوکھ گیا اور ساتھ ہی لٹک کر رہ گیا۔ جب میرے ددھیال والوں کو یقین ہوگیا کہ میری ماں بالکل مفلوج ہو چکی ہے تو انہوں نے میری ماں پر بدکرداری کا الزام لگا کر اسے طلاق دلوا کر گھر سے نکلوا دیا۔ جب میری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکالا گیا اس وقت میں اپنی ماں کے پیٹ میں سات ماہ کا ہوچکا تھا دو ماہ تک میری ماں کو گاؤں کی دائی نے اپنے گھر پناہ دیے رکھی- دو ماہ بعد جب میری پیدائش ہوئی تو میرے ددھیال والوں کو خطرہ ہوگیا کہ کہیں میں ان کی جائیداد نہ ہتھیالوں، اس لیے انہوں نے میری ماں کو دائی کے گھر بلکہ گاؤں سے بھی نکلوادیا۔ گاؤں سے نکالے جانے کے بعد میری ماں کے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، اس لیے میری ماں مجھے کپڑے کی ایک گانٹھ میں لپیٹ کر کبھی دانتوں کی مدد سے کبھی کندھے پر لٹکا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر پہنچی اور پہلی رات میری ماں نے مجھے لے کر ایک گوشت والے پھٹے کے نیچے گزاری۔ وہ ساری رات مجھے گود میں رکھ کر جاگتی رہی کہ کوئی آوارہ کتا مجھے چبا نہ ڈالے-
وقت گزرتا ہے، پہلے پہل میری ماں فروٹ والی ریڑھیوں کے آس پاس پڑا گندا فروٹ اٹھا کر اپنا پیٹ بھرتی، پھر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے ذریعے اس خوراک کو دودھ میں بدل کر میرے لیے خوراک کا بندوبست کرتی اور میرا پیٹ بھرتی۔ جب میری ماں کو بازار میں رہتے کچھ عرصہ گزرتا ہے تو مقامی دوکان دار میری ماں پر اعتبار کرنے لگتے ہیں، یوں انہیں دوکانوں میں صفائی کا کام مل جاتا ہے
دوکانوں میں مجھے اٹھا کر جھولی نما کپڑے میں ڈال کر اپنے پیچھے لٹکانے کے بعد صرف ایک ہاتھ سے صفائی کرنا بہت مشکل ہوجاتا، اس لیے میری ماں کچھ پیسے جمع کرکے برش پالش اور ہتھوڑی کیل دھاگہ اور سوئے خریدنے کے بعد جوتے گانٹھنے کا کام شروع کردیتی ہے۔ میری ماں مجھے گود میں لٹا کر ایک ہاتھ اور منہ کی مدد سے جوتے سلائی کرتی ہے۔ کچھ خدا ترس لوگ میری ماں کو اجرت سے زیادہ پیسے دے جاتے جبکہ کچھ اوباش نوجوان جان بوجھ کر سیوریج کی نالی میں جوتا گندا کرکے میری ماں کو پالش کرنے کے لیے دیتے ہیں اور جب اس جوتے منہ اور کپڑے کی مدد سے میری ماں صاف کرتی ہے تو میری ماں کی بے بسی پر ہنستے -
خیر وقت آگے بڑھتا ہے، میں سکول جانے کی عمر کو پہنچتا ہوں تو میری ماں مقامی امام مسجد اور چند معززین کے ذریعے میرے والد صاحب سے اس وعدے پر شناختی کارڈ کی کاپی لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر کبھی ددھیال کی جائیداد میں سے حصہ طلب نہیں کرے گا۔ شناختی کارڈ کی کاپی مل جانے پر میری ماں مجھے سکول داخل کراتی ہے۔ میرے استاد محترم سید ظفر صاحب کو جب میرے حالات کا پتہ چلتا ہے تو مجھے اور میری ماں کو بازار سے اٹھاکر اپنے گھر لاتے ہیں، ہمیں ایک الگ کمرہ دے دیتے ہیں اور ہمارا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں- بدلے میں میری ماں سید ظفر شاہ کے انکار کے باوجود ان کے گھر کے کام کاج کا ذمہ اٹھا لیتی ہے۔ میں پڑھتا رہتا ہوں یہاں تک کہ استاد محترم میرے لیے آرمی میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ سلیکشن کے لیے اپلائی کرتے ہیں، میں سلیکٹ ہوجاتا ہوں اور میرا شمار ٹاپ ٹین کیڈٹس میں ہوتا ہے- میں کورس مکمل کرتا ہوں اور میری شادی استاد محترم کی بیٹی سے کردی جاتی ہے-
جب میں بطور کیپٹن انٹیلی جنس کے ایک مشن پر ہوتا ہوں تو ہارٹ اٹیک سے میرے استاد محترم یعنی سسر سید ظفر صاحب انتقال کرجاتے ہیں-میں ان کے جنازے میں شامل نہیں ہوپاتا اور مشن مکمل کرنے کے بعد میں پورا ہفتہ پورا پورا دن ان کی قبر پر بیٹھ کر ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکنے پر معذرت کرتا رہتا ہوں- جب دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوتا ہے تو واپس ڈیوٹی جائن کرتا ہوں۔ میں اپنے پورے بیج میں واحد اور منفرد آفیسر تھا جو پہلے خود جاسوس بن کر دشمن کا سراغ لگاتا اور پھر اپنی ٹیم تیار کرکے دشمن کا قلع قمع کرتا۔ میں بلوچستان میں ایک مشن پر تھا جب مجھے پتہ چلا کہ میری ماں کو فالج کا اٹیک ہوا ہے، میں نے اپنے سینئرز بیج میٹس یہاں تک کہ اپنی شریک حیات کے منع کرنے کے باوجود فوج سے استعفا دے دیا اور اپنی ماں کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کرنل لطیف اور برگیڈیر امتیاز نے مجھے کہا تھا کہ اس فیصلے پر تم پچھتاؤ گے- میری بیگم نے مجھے قسم دی تھی کہ وہ میری ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی میں اپنے عہدے پر قائم رہوں مگر میرا دل نہیں مانا -
میرے دل میں خلش رہتی تھی کہ میری ماں جو کچھ مجھ سے کہہ سکتی ہے وہ میری بیوی سے نہیں کہہ سکتی، لہذا میں نے استعفا دے دیا اور خود اپنی ماں کی خدمت کرنے لگا۔ میری ماں جب تک زندہ رہی میں نے شاید ہی کوئی رات گھر سے باہر گزاری ہو، نہیں تو میں چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ماں کے ساتھ گزارتا۔ میں نے چھوٹا سا گاڑیوں کا شو روم بنایا جس پر ملازم بیٹھتا تھا، میں سارا دن ماں کے ساتھ گزارتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے ماں کی خدمت کے صدقے اتنی برکت دی کہ میرے پاس آج بیرون ملک ناروے میں سات شو رومز ہیں، پاکستان میں میری اپنی انڈسٹری ہے۔ آج میری ماں فوت ہوچکی ہے، میرے بچے جوان ہوچکے ہیں، میری بیٹی امریکہ میں زیر تعلیم ہے، دونوں بیٹوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ناروے میں بزنس سنبھال رکھا ہے، میری اولاد منتظر رہتی ہے کہ کب ان کے والدین کوئی حکم دیں اور وہ بجا لائیں- کچھ عرصہ قبل میں اپنی بیوی کے ہمراہ امریکہ میں اپنی بیٹی کو ملنے گیا تو بیٹی کے کہنے پر ہم اولڈ ہوم چلے گئے، وہاں پر مقیم ایک پاکستانی، جسے شکل دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا کہ وہ برگیڈیئر امتیاز ہے، کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ پاکستان میں اس کا رعب، دبدبہ اس کی شان و شوکت سب کچھ امریکہ میں ختم ہوچکا، وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا، میرے لاکھ یاد دلانے پر بھی وہ مجھے نہیں پہچان پایا، انتظامیہ سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کا بیٹا اسے یہاں چھوڑ گیا ہے اور اس کی موت پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی نصیحت کر گیا ہے-
اولڈ ہوم سے واپسی پر میں تھکا ہوا اپنی رہائش پر پہنچا تو میری بیٹی اور بیوی نے مجھے دبانا اور میرا مساج کرنا شروع کردیا، میں کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیے بغیر پاؤں کی مالش کرتی بیٹی کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ واقعی ماں باپ سے حسن سلوک ایک ایسا عمل ہے، جسے آج آپ لکھیں گے کل آپ کی اولاد آپ کو پڑھ کر سنائے گی اور برگیڈیر امتیاز کی حالت نے میری اس سوچ پر مہر ثبت کردی تھی-