سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
جواب : میں راجستھان کے چوروضلع کے ایک راجپوت خاندان میں۲۰؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو پیدا ہوئی،ہمارے پتاجی ہائی اسکول میں پرنسپل تھے،ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک اسکول میں ہوئی،بعد میں چورو میں ایک ڈگری کالج سے میں نے بی اے کیا۔ہنومان گڑھ کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں۶؍ جون ۱۹۹۰ء کو ہماری شادی ہوئی۔ میرے شوہر مدھیہ پردیش میں رتلام میں نائب تحصیل دار تھے،وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی رہے ہیں اور ان کو اسی بنیاد پر نوکری ملی تھی، دو سال میں اپنی سسرال ہنومان گڑھ میں رہی،بعد میں ہم رتلام ضلع کی ایک تحصیل میں جہاں میرے شوہرکی ملازمت تھی وہیں رہنے لگے۔ ٹرانسفر کی وجہ سے اجین اور بعد میں مندسور میں چھ سال رہے ، ا س د و ر ا ن میرے یہاں دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے ، ۲۰۰۰ء میں میرے شوہر کا پرموشن ہوا اور وہ تحصیل دار بن کر بھوپال کی ایک تحصیل میں چلے گئے، گھر پریوار سب کچھ اچھا تھا،ہم دونوں میں بہت محبت تھی،اچانک نہ جانے کیا ہوا ہمارے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی اور اگر میں یہ کہوں کہ ہدایت کی ہوا لگ گئی اسماء بہن ! میرا حال عجیب ہے ،میری زندگی کا بگاڑ میرے سنورنے کا ذریعہ بن گیا۔
سوال : ہاں ہاں! وہی میں تو سننا چاہتی ہوں،اللہ نے آپ کی اسلام کی طرف کیسے راہ نمائی کی،ذرا تفصیل سے سنائیے؟
جواب : میرے شوہر کے دفترمیں ایک برہمن لڑکی کلرک تھی، بہت خوب صورت اور ایکٹیو(فعال)بلکہ اگر میں کہوں کہ اووَر ایکٹیو(Over active) تو یہ بات بھی سچ ہوگی۔اس لڑکی کی ہرادا میں ،اس کی شکل میں،اس کی آواز میں،اس کے انداز میں غرض ہر چیز میں بلا کی کشش تھی۔ اسماء بہن،میرے شوہر کی خطا نہیں ،بلکہ وہ لڑکی ویسی تھی کہ پتھر کی مورتی بھی اس کے سامنے پگھل جاتی۔میرے شوہر اپنے کو بہت بچانے کی کوشش کرتے رہے اورسنبھلنے کی کوشش کرتے رہے،مگر اللہ نے مرد وعورت کے رشتہ میں جذبہ رکھا ہے وہ بچ نہ سکے اور اس لڑکی سے ان کو تعلق ہوگیا۔اب ہر وقت بس اس کی محبت میں گھلتے رہتے تھے۔ اس کا مجھے سوفیصد یقین ہے کہ جب تک انھوں نے شادی نہیں کی ان میں جسمانی تعلقات نہیں ہوئے،مگر ظاہر ہے کہ ایک جسم میں دو دل تو ہوتے نہیں اس سے محبت کے ساتھ ان کا مجھ سے تعلق کم ہو نا شروع ہوگیا۔وہ شروع میں تو بہت کوشش کرتے رہے کہ مجھے کچھ پتہ نہ لگے مگر بات چھپ نہ سکی اور مجھے بھی پتہ لگ گیا اور دفتر میں بھی لوگوں کے علم میں آگیا،مجھ سے بھلا کیسے برداشت ہو سکتا تھا انتشار رہنے لگا،بات بگڑتی گئی اور انھوں نے پروگرام بنایا کہ مجھے چھوڑ کر اس سے شادی کرلیں۔اس کے لئے انھوں نے مجھے ہنومان گڑھ چھوڑا،مئی ۲۰۰۰ء میں بچوں کی چھٹیاں تھیں۔ وہ دہلی گئے مجھے یہ بتایا کہ مجھے ٹریننگ میں جاناہے ،دہلی میں آشا شرما کو بلالیا،آشا شرما نے ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہنے سے منع کیا کہ پہلے ہم شادی کریں اس کے بعد ایک کمرے میں رہ سکتے ہیں۔انھو ں نے دوکمرے شروع میں ہوٹل میں لئے،اس کے بعد وکیلوں سے مشورہ کیا،ایک وکیل نے مشورہ دیا کہ قانونی گرفت سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ دونوں مسلمان ہوکر شادی کرلیں۔یہ رائے ان کو پسند آئی میرے شوہر نے آشا کو بھی اس کے لئے تیار کیا،شروع میں ایک ہفتہ تک تو وہ اسلام قبول کرنے سے منع کرتی رہی،مگر بعد میں بہت دباؤ دینے پر راضی ہوگئی،وہ دونوں جامع مسجد دہلی گئے وہاں کے امام بخاری صاحب نے ان کو مسلمان کرنے سے منع کر دیا۔کئی مسجدوں میں میرے شوہر گئے مگر کوئی مسلمان کرنے اور کلمہ پڑھوانے کے لئے تیار نہ ہوا۔کسی وکیل نے انھیں بتایا کہ پرانی دہلی میں سرکاری رجسٹرڈ قاضی ہوتے ہیں ، وہ نکاح پڑھاتے ہیں،میرے شوہر نے ان کا پتہ معلوم کیا اورپرانی دہلی کے قاضی صاحب کے پاس گئے، انھوں نے کہا پہلے آپ دونوں مسلمان ہو کرمسلمان ہو نے کا بیان حلفی سرکاری وکیل سے بنوا کر لاؤ۔میرے شوہر نے کہا آپ ہمیں مسلمان بنالو،انھوں نے مسلمان کرنے سے انکار کردیااور آپ کے والد حضرت مولانا کلیم صاحب کے پاس جانے کو کہا، وہ دونوں اگلے روز پھلت گئے تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب دہلی گئے ہوئے ہیں،ایک مولاناصاحب نے ان دونوں کو کلمہ پڑھوادیا اور بتایا کہ مسلمان ہونے کے لئے مولانا صاحب کا ہونا ضروری نہیں ہے،آپ میرٹھ یا دہلی سے کسی سرکاری وکیل (نوٹری) سے اپنے کاغذات بنوالیں۔میرٹھ ایک گپتا جی کا پتہ بھی بتا دیا انھوں نے میرٹھ جاکر بیان حلفی بنوایااس کے بعد قاضی صاحب نے اپنی فیس لے کر ان دونوں کا نکاح پڑھوا دیا اور نکاح کو عدالت سے رجسٹرڈ کرانے کو بھی کہا۔آشا نے ہمارے شوہر سے کہا،ہم جب مسلمان ہو گئے ہیں تو پھر ہمیں اسلام کو پڑھنا بھی چاہئے ،انھوں نے اردو بازار سے ہندی اور انگریزی میں اسلام پر کتابیں خریدیں اور ہندی قرآن مجید بھی لیا۔ان کو کسی نے مولانا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا،اوکھلا میں ایک مسجد میں تلاش اور کوشش سے ان کی ملاقات بھی ہوگئی ۔ مولانانے ان کو اپنی کتاب ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ دی اور سمجھا یا کہ بلا شبہ اپنے خاندان ،اپنے پھول سے بچوں اور ایسی نیک بیوی کو چھوڑنا خود کیسی عجیب چیز ہے،مگر اگر آپ سچے دل سے اسلام قبول کریں تواس الجھی ہوئی زندگی میں اللہ کے قبضے میں سب کچھ ہے،وہ اچھی زندگی عطا کریں گے،مولانا صاحب نے یہ بھی کہا کہ آپ کواپنی پہلی بیوی اور بچوں بلکہ سب خاندان والوں پر دعوت کا کام کرناچاہئے،کم از کم دعا تو ہدایت کی ابھی سے شروع کر دینی چاہئے ۔ میرے شوہر بتاتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کی آیت پڑھ کر یہ بات بتائی کہ جو بھی مرد ہو یا عورت اچھے کام کرے گا شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو تو اللہ تعالی اس کو اچھی اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائیں گے۔
سوال : ہاں قرآن مجید کی آیت :مَنْ عَمِلَ صَا لِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْےِےَنَّہ’ حَےَاۃً طِےِّبَۃً اسکا ترجمہ یہ ہی ہے۔آگے بتائیے؟
جواب : پہلے ذرااس آیت کا ترجمہ کیجئے۔
سوال : جو بھی مرد ہو یا عورت نیک عمل کرے گا شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو ہم اس کو ضرور پاکیزہ زندگی عطا کرتے ہیں۔
جواب : ہاں یہی بالکل یہی آیت ہے،میرے شوہر کہتے ہیں، اس آیت نے میری زندگی کو روشن کیا ہے،پوری آیت ان کو یاد ہے،سچی بات یہ ہے فَلَنُحْےِےَنَّہ’ حَےَاۃً طِےِّبَۃً کیسی سچی بات کہی ہے۔
سوال : ہاں تو آگے سنائیے کہ آپ کو ایمان کیسے ملا،یہ تو آشا کے اسلام کا ذکر آپ کررہی ہیں؟
جواب : ہاں بہن! اسی سے جڑا ہے میرا اسلام بھی ۔ہوا یہ کہ میرے شوہر کو تو شروع میں اسلام کو پڑھنے کاموقع نہ ملا،مگر آشا کو پڑھنے کا بہت شوق تھا،جیسے جیسے اسلام کو وہ پڑھتی گئی اسلام اس کے اندر اترتا گیا،بچوں کی چھٹیاں ختم ہو گئیں میرے شوہر کی بھی چھٹیاں ختم ہوئیں تو وہ بھوپال پہنچے،مگر مجھے ہنو مان گڑھ سے نہیں بلایا،مجھ سے رابطہ بھی بہت کم کیا،مجھے فکر ہوئی تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھوپال بھیجا۔اتفاق سے آشا رات کو گھر تھی،اس کا نیا اسلامی نام عائشہ تھا،میرے بھائی نے معلوم کیاکہ یہ لڑکی آپ کے گھر رات میں کون ہے،انھوں نے کہا دفتر میں کام کرتی ہے دفتری کام کے لئے بلایا ہے۔ میرا بھائی ان سے بہت لڑا، تیسرے روز مجھے اس نے فون کرکے بلایا،میں اپنے پتاجی کے ساتھ بھوپال پہنچی،کئی روز تک جھگڑا چلتا رہا، آخر میں انھوں نے وہ کاغذات قبول اسلام کے نکال کر میرے سامنے رکھ دئیے۔ میرے لئے اس سے افسوس اور صدمہ کی کیا بات تھی۔ میرے والد نے وکیلوں سے مشورہ کیا اور ایف آئی آر کرائی اور عدالت میں کئی روز گئے،پولیس آئی ان کو گرفتار کرکے لے گئی،کچھ روز کے بعدضمانت تو ہو گئی مگر دفتر سے ان کو معطل کردیاگیا۔میرے گھر والے میری محبت میں میرے شوہر کے دشمن ہوگئے ،جگہ جگہ سے ان پر مقدمے چلوائے، زندگی ان کے لئے مشکل سے مشکل ہوگئی،آشا اس دوران اسلام کو پڑھتی رہی اور وہ بہت مذہبی مسلمان بن گئی۔ وہ بھی سسپنڈ ہو گئی،گھر رہ کر اس نے قرآن مجید پڑھ لیااور کچھ مسلمان عورتوں سے رابطہ کیا،وہ اجتماع میں جانے لگی۔ پردہ کرنے لگی،برقع منگوالیا،میرے اور میرے گھر والوں کی طرف سے جب حد درجہ کی مخالفتیں ہوئیں اورمیرے سسرال والے بھی میرے ساتھ تھے،توعائشہ اور میرے شوہر نے مشورہ سے طئے کیا کہ ہمیں دہلی جاکر مولانا کلیم صاحب سے مشورہ کرنا چاہئے،وہ دہلی پہنچے ، مولانا صاحب سے عائشہ نے کہا حضرت الحمد للہ مجھے تو اسلام سمجھ میں آگیا ہے،میرے دل میں تو یہ آتا ہے کہ اگر ساری زندگی مجھے جیل اور مشکلات میں گزارنی پڑے اور میرا ایمان سلامت رہ جائے تو مرنے کی بعد کی زندگی میں جنت بہت سستی ملے گی،اس لئے میرے دل میں آتا ہے کہ ان کی پہلی بیوی نے ایک زندگی ان کے ساتھ گزاری ہے اور بہت محبت اور خدمت کے ساتھ گزاری ہے،اس بے چاری کی کیا خطا ہے،یہ اگر اس کے ساتھ جاکر رہنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، البتہ یہ دل چاہتا ہے کہ ان کا ایمان بچا رہے ،یہ ان کے ساتھ جا کر رہیں اور ان کو مسلمان کرنے کی کوشش کریں،اگر وہ مسلمان ہوجائیں تو ان سے نکاح کرلیں،مجھے چاہیں طلاق دیدیں یا رکھیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کچھ وقت جماعت میں لگا لیں تاکہ وہاں جاکر مرتد نہ ہوں۔مولانا صاحب نے عائشہ کی رائے سے اتفاق کیا،اوربہت شاباشی دی ، پھر میرے شوہر کو اس پر راضی کیا اور کہا آپ عائشہ کی بات مان لیجئے،آپ چالیس روز جماعت میں لگا آئیں، آپ کی زندگی کے سارے مسائل مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ضرور حل ہو جائیں گے ۔وہ تیار ہو گئے اور مولانا صاحب نے نظام الدین سے ان کو جماعت میں بھیج دیا ، گجرات میں ان کا وقت لگا، حیدرآباد کی جماعت کے ساتھ وقت بہت اچھا لگا،ان کو بہت اچھے خواب دکھائی دئیے اور الحمد للہ اسلام ان کے اندر اتر گیا۔ جماعت سے واپس آئے تو وہ عائشہ کے یہاں گئے،عائشہ نے انھیں ہنومان گڑھ جاکر بات کرنے کو کہا،مگر ان کی ہمت نہ ہوئی ۔عائشہ خود ایک اچھی داعیہ بن گئی تھی،اس کے بچپن کی کئی سہیلیاں اس کی کوشش سے مسلمان ہو چکی تھیں،عائشہ نے مجھے فون کیا کہ آپ مسعود صاحب (میرے شوہر کا اسلامی نام مسعودہے) سے کب تک لڑائی اور مقدمہ بازی کرتی رہیں گی، آپ ایک بار دس منٹ کی میری بات سن لیجئے، بس ایک روز کے لئے بھوپال آجائیے،میں ان سے الگ ہو نے کو تیار ہوں۔ میں نے اس کوشروع میں تو بہت گالیاں سنائیں،مگر اس اللہ کی بندی نے ہمت نہ ہاری ،باربارفون کرتی رہی اور جب میں کسی طرح تیار نہ ہوئی تو اس نے مجھ سے یہ کہا کہ اچھا پھر ہم اپنے اللہ سے کہہ کر بلوائیں گے عائشہ بتاتی تھی اس کے بعد اس نے دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور اللہ کے سامنے فریاد کی: میرے اللہ! جب میں آپ پر ایمان لائی ہوں اور آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو آپ اس کے دل کو نرم کر دیجئے اور میرے مولیٰ اس کی ہدایت کا فیصلہ فرماکر اس کو یہاں بھیج دیجئے،اس کے بعد تہجد میں دعا کرتی رہی، اس اللہ والی کا اللہ کے ساتھ اسماء بہن بہت ناز کا تعلق ہو گیا تھا،اس کی دعائیں میرے گلے کاپھندہ بن گئیں،تین دن کے بعد میرے دل میں ایم پی جانے کا تقاضـا پیدا ہوا،میں اپنے تینوں بچوں کو چھوڑ کراپنے بھائی کے ساتھ وہاں پہنچی ۔میرے شوہر کی تو مجھ سے ملنے کی ہمت نہ ہوئی،عائشہ میرے پاس آئی اور مجھے اسلام قبول کرنے کو کہااور مجھے سمجھایا کہ ان کے ساتھ یہیں رہنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ آپ بھی مسلمان ہو جاؤ اور مسلمان ہو کر آپ کا نکاح دوبارہ ان سے ہوگا اگر آپ ان کے ساتھ مسلمان ہو کر رہو تو میں الگ ہو نے کو تیار ہوں،وہ روکر میرے پاؤں پکڑتی اور خوشامد کرتی رہی،مرنے کے بعد کے حالات اور جہنم کی بات کرتی رہی، اس کی بات میرے دل میں گھستی چلی گئی یہاں تک کہ میرے دل میں آیاکہ میں مسلمان ہو جاؤں،میں نے مسلمان ہو نے کو کہہ دیا۔ وہ مجھ سے چمٹ کر خوب روئی اور میرے شوہر کو فون کرکے بلالیا،ایک عورت کو فون کرکے ان کے شوہر حافظ صاحب کو بلایا، انھوں نے دو لوگوں کو مزید بلاکر مہر فاطمی پر میرا نکاح ان سے پڑھوادیا۔وہ اپنے کپڑے لے کر میرا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ چند روزفاطمہ آپا جن کے یہاں اجتماع ہوتا تھا،ان کے یہاں رہی اور پھر ایک چھوٹا مکان کرائے پرلے لیا۔ایک ہفتہ تک وہ تھوڑے وقت کے لئے میرے یہاں آتی اور مجھے مبارک باد دیتی،میری بلائیں لیتی اور کہتی،زینب تم کتنی خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تم پر کیسا رحم کیا کہ تمھیں ایمان دیا اب اس ایمان کی قدرجب ہوگی جب تم اس کو پڑھو گی،وہ ایک ایسی لڑکی تھی جواب شاید جنت میں رہتی تھی،بس اس کا جسم دنیا میں تھا،مگر اس کا دل ودماغ اور سوچ سب جنت وآخرت میں رہتی تھی،وہ اس دنیا کو بالکل ایک دھوکہ کاگھر، ایک سفر جانتی تھی،اس کی باتوں میں ایسی سچائی اور محبت اور خلوص ہوتا کہ مجھے وہ دنیا میں اپنی سب سے بڑی خیرخواہ دکھائی دینے لگی ۔ایک ہفتہ کے بعد ایک روز مجھ سے کہاکہ اب میں اس گھر میں نہیں آؤں گی،اب آپ کچھ وقت کے لئے میرے کمرے پر آیا کریں میں ان کے کمرے جانے لگی ۔اپنے شوہر سے سارے مقدمے ہم نے واپس لے لئے،میں دفتر کے وقت میں کئی گھنٹے اس کے پاس گزارتی، اس نے مجھے قرآن مجیدپڑھایا اور اردو شروع کرائی، ایک روز صبح گیارہ بجے میں (زینب )اس (عائشہ )کے پاس گئی، اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا،جمعہ کا دن تھا اس نے کہا،ایک خوشی کی بات سناؤں، اب اللہ سے ملنے کے لئے اور جنت میں جانے کے لئے مجھے انتظار نہیں کرنا پڑے گا،رات میں نے خواب دیکھا، ہمارے حضور تشریف لائے تھے اور مجھ سے فرمایا:عائشہ یہ دنیا تو قیدخانہ ہے،تم کب تک یہاں رہو گی؟پیر کے دن ہم تمھیں جنت کے لئے لینے آئیں گے۔ یہ کہہ کر بہت ہنسی،بس تین روز اورہیں زینب ، بس پھروہیں ملیں گے، بہت اطمینان سے وہاں مزے میں ساتھ رہیں گے،مجھے بہت عجیب سا لگا، اگلے روز میں وہاں گئی تو وہ کل کی طرح ہشاش بشاش تھی،مجھے پڑھایااور مجھ سے کہا کہ اللہ نے ہمیں ایمان دیا ہے تو اب ہمیں دوسرے لوگوں کو ایمان کی دعوت دے کر دوزخ کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے،اتوار کے روز میں وہاں پہنچی تو میں نے دیکھا وہ چادر اوڑھے ہوئے ہے،میں نے کہا عائشہ آپ کو کیا ہوا؟انھوں نے بتایا کہ مجھے صبح سے بخار آرہا ہے، میں اس کو بہت زور دے کر ڈاکٹر کے یہاں لے گئی دوا دلوائی اور کہا:کہوتو میں رک جاؤں،یاپھر آپ ہمارے یہاں ہی چلیں اکیلے بخار میں رہنا ٹھیک نہیں،وہ بولی مومن اکیلا کہاں ہوتا ہے اور یہ شعر پڑھا
تم مرے پاس ہو تے ہوگویا جب دوسرا کوئی نہیں ہوتا
جواب : ہاں ہاں! جیسے بھی ہو، میں چلی آئی،میں نے خواب دیکھا کہ میں اس کے پاس گھر میں ہوں،اچانک ایک بہت حسین خوب صورت نورانی شکل کے حضرت تشریف لائے ، حضرت مولاناکلیم صاحب بھی اسی گھر میں ہیں،مجھ سے کہا یہ ہمارے رسولﷺ ہیں،عائشہ کو لینے کے لئے تشریف لائے ہیں ،اس کے بعد وہ عائشہ کا ہاتھ پکڑکر لے گئے،میری آنکھ کھلی تو مجھ پر خواب کی خوشی ہونے کے بجائے کہ پہلی مرتبہ پیارے نبیﷺ کی زیارت ہوئی تھی عجیب صدمہ سا ہوا،رات کے تین بج رہے تھے میں نے اٹھ کر تہجد کی نمازپڑھی اور بہت روئی،صبح سویرے میں عائشہ کے گھر پہنچی،بخار اس کو بہت زیادہ تھا،میں نے پانی کی پٹیاں اس کے سر وغیرہ پر رکھیں اس سے اس کو راحت ہوئی،مجھ سے کہا زینب! تمھاری زندگی کو میں نے اجیرن کیا، مجھے معاف کرنا خدا کے لئے دل سے معاف کردینا، مگر اس مشکل کے بعدیہ ایمان جو آپ کو ملا ہے پھر بھی بہت سستا سودا ہے، بس میری آپ سے ایک آخری التجا ہے کہ تینوں بچوں کو عالم اور داعی بنانا،یہ دین کاکام کریں گے تو تمھارے مرنے کے بعدتمھارے لئے ثواب کا کارخانہ لگا رہے گا۔میں نے کچھ کھا نے کے لئے کہا توانھوں نے کہاکہ دودھ ذرا سا پیوں گی،میرے نبی نے فرمایا کہ دودھ اچھا رزق ہے ۔پینے اور کھانے دونوں کا کام کرتا ہے،میں نے دودھ دیا تو گرم تھا، بولی ذرا سا ٹھنڈاکردو،زیادہ گرم کھانے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے،دودھ ٹھنڈا کرکے دیا،دودھ پیا کمزوری بڑھتی گئی، سرمیں درد کی شکایت کی،میں نے گود میں سر رکھ کر دبانا شروع کیا،عصرکے بعداچانک کہنے لگی،لو میرے نبی تولینے آگئے، زور زور سے درود پڑھنے لگی اٹھنے کی کوشش کی مگر ہلنے کی ہمت نہ ہوئی اچانک کلمہ شہادت پڑھا،دو ہچکیاں آئیں اور انتقال ہوگیا ۔
سوال : پھر ان کے کفن دفن کاکیا انتظام ہوا؟
جواب : نہ جانے کس طرح فاطمہ آپا گئیں،بس انھوں نے سب لوگوں کو خبر کردی، نہ جانے کیسی خوشبو اس کے جنازہ سے پھوٹ رہی تھی، گھر تو گھر محلہ خوش بو سے معطر ہو گیا،بڑی تعداد میں لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔
سوال : آپ کے شوہر کاکیاہوا؟کیا انھوں نے اسے طلاق دے دی تھی؟
جواب : اصل میں عائشہ میرے شوہر سے اصرار کرتی تھی کہ زینب کی خوشی کے لئے مجھے طلاق دے دو، مگر انھوں نے طلاق نہیں دی تھی،ان کے انتقال کا ان پر بہت اثرپڑا،ان کی زندگی بالکل خاموش ہوگئی۔
سوال : اور آپ کوکیسا لگا؟
جواب : یہ بالکل عجیب و غریب اتفاق ہے ،سچی بات یہ ہے کہ ایک عورت کے لئے سوکن کا وجود سب سے بڑا کانٹا ہو تا ہے،مگر میرے اللہ جانتے ہیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ عائشہ کے انتقال کا مجھے غم زیادہ ہوا یا میرے شوہر کو،بس میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ اگرکوئی مجھ سے سو قسمیں دے کر یہ سوال کرے کہ دنیا میں پوری زندگی میں مجھے سب سے زیادہ محبوب کون ہے تو میں بغیر سوچے سمجھے یہ کہوں گی میری سب سے محبوب اور خیرخواہ شخصیت اللہ اور اس کے رسول کے بعد عائشہ مرحومہ ہے،وہ زمین پر ایک زندہ ولی تھی، اسما بہن! سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے شوہر پر اُن حالات میں جس قدر روتی تھی، اس سے سو گنا زیادہ مجھے عائشہ کے انتقال کے صدمہ نے رلایا۔
سوال : آپ نے اپنے بچوں کی تعلیم کیا کیا؟
جواب : میں نے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا،میرے دونوں بیٹوں کانام حسن اور حسین ہے،ان دونوں کوایک بڑے مدرسے میں داخل کیا،الحمد للہ حسن کے ۲۶؍ پارے حفظ ہوگئے ہیں ، حسین کے ۴؍ پارے ہوئے ہیں اور فاطمہ بیٹی بھی الحمد للہ حفظ کررہی ہے اس کے ۱۶؍ پارے حفظ ہو گئے ہیں،میری خواہش ہے وہ داعی بنیں اور عالم دین بن کر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی طرح دعوت کاکام کریں۔
سوال : آپ کے شوہر کا کیا حال ہے؟
جواب : ان کو عائشہ کے انتقال کا بڑا صدمہ ہے،ہمارے پاس رہنے لگے ہیں،بار بار کہتے ہیں اب دنیا سے دل بھر گیا ہے بس اللہ تعالی ایمان پر خاتمہ کرادے،لیکن جب زیادہ پریشان ہوتے ہیں تو میں مولانا صاحب کے پاس ان کوبھیج دیتی ہوں وہ کچھ دعوت پر ابھارتے ہیں اب بھی ان کو لے کر آئی ہوں،الحمد للہ اس مرتبہ انھوں نے ہشاش بشاش رہنے کا وعدہ کیا ہے۔
سوال : آپ کے شوہر ابی سے ملنے آتے رہتے ہیں؟
جواب : وہ ابی سے بیعت ہیں،عائشہ بھی ان سے بیعت تھی، اور میں اور میرے چھوٹے بچے بھی حضرت سے بیعت ہیں، میں نے جب بیعت کے لئے کہا تھا تو حضرت نے بہت منع کیا، انھوں نے کہابیعت تو ضرور ہو نا چاہئے مگر کسی اللہ والے اور کامل شیخ سے بیعت ہونا چاہئے۔ جسم کی بیماری میں جب آدمی اچھے سے اچھے طبیب کو تلاش کرتا ہے تو روح کی بیماری میں تو اور بھی اچھے سے اچھے شیخ کامل کوتلاش کرنا چاہئے، حضرت نے فرمایا کہ جو خود آخری درجہ میں بیمار ہو وہ کیا کسی کا علاج کرسکتا ہے۔ میں تو اپنے شیخ کے حکم کی تعمیل میں توبہ کرالیتا ہوں کہ شاید سچے طالب کی برکت سے اللہ تعالی میرے گناہ معاف فرمادیں،میرے شوہر نے کہا حضرت ہمیں آپ کی برکت سے اللہ تعالی نے کفر وشرک کی بیماری سے نکال لیاآپ کے علاوہ ہمیں کون طبیب ملے گا، بہت اصرار کرنے پر حضرت نے ہم سب کو بیعت کرلیا۔
سوال : بہت بہت شکریہ زینب آپا،واقعی آپ کی زندگی ایک عجیب زندگی ہے۔
جواب : اسماء بہن ! میری زندگی میں اور بھی عجیب عجیب واقعات ہیں جن کو اگر میں بتادوں تو ایک لمبی کتاب بن جائے گی مگر اس وقت ہماری گاڑی کا وقت قریب ہے،ابھی باہر سے بار بار تقاضا آر ہاہے، پھر کسی وقت آکر ساری کہانی سناؤں گی۔
سوال : ضرور زینب آپا،اب کی مرتبہ آپ چندروز کے لئے آئیے پھر ہم کچھ عورتوں کو اکٹھا کریں گے اس وقت آپ سنائیے گا
جواب : اسماء یہ نہیں ہو سکتا،بس تمہیں سنا سکتی ہوں،عورتوں کے سامنے میں کوئی مولوی نہیں ہوں،مجھے تو بہت رعب ہوجاتا ہے۔
سوال : اچھا ٹھیک ہے، اللہ حافظ ! ا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ’
جواب : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ’ (مستفاداز ماہ نامہ ارمغان، مارچ ۲۰۰۹ء)