میں اُسے پچھلے آٹھ سال سے جانتاہوں۔اس کے تین بیٹے ہیں ، چھوٹے بیٹے کی عمر چار سال ہے ۔ ایک دن اُس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ ایک پلاٹ چھوٹے بیٹے کے نام کر دے ۔میں نے کہا ، جیسے تمہاری مرضی ۔ اس نے کہا کہ تم اپنی رائے بتاؤ ۔ میں نے کہا کہ میں نے رائے بتا دی ،جیسے جی چاہتا ہے کرو، اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ اس لیے یہ کا م کر نا چاہتا ہے کہ عام طور پر والدین کے اس دنیا سے جانے کے بعد چھوٹے بچے ہی خسارے میں رہتے ہیں کیونکہ بڑے تو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ، اس میں جواز تلاش کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ اگر تمہارے پاس ہے تو ضروراس کے نام کر دو۔ اس نے کہا کہ نہیں ، تم بتاؤ کہ تم نے بچوں کے لیے کیا کیاہے ؟ میں نے کہا کہ میں نے کیا کرنا ہے ؟ میرے پاس ہے ہی کچھ نہیں تو کرنا کیا ہے ۔ ایک مکان ہے وہ میرے مرنے کے بعد انہیں کے پاس جانا ہے اگرچہ میری خواہش ہے کہ یہ بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے۔ اس نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟بس ایک ہی مکان ہے ؟ میں نے کہا ، یقین کر و ایسے ہی ہے ۔ میرے ذمے اولادکی پرورش اور تعلیم و تربیت ہے وہ میں کر رہا ہوں ۔ باقی رہے مکان اورپلاٹ ، تو جس اللہ نے مجھ جیسے بے سرو مایہ کو سب کچھ دے دیا ہے وہ ان کو بھی دے دے گا۔ یہ سن کر وہ بے یقینی کا تاثر لیے چپ ساہو گیا۔
اس کا تعلق پاکستان کے ایک بڑے شہر سے ہے ۔اور وہ دیار غیر میں پچھلے پانچ برسوں سے کام کر رہا ہے ۔ اور اس عرصے میں اُس نے پاکستان میں دو پلاٹ اور پانچ دکانیں بنا لی ہیں اور وہ مجھے نصیحت کر رہاتھا کہ دیکھو یہاں رہتے ہوئے پاکستان میں جتنے مکان ، دکانیں اور پلاٹ بنانے ہیں بنا لو پھر نہیں بن سکیں گے ۔یہ نصیحت کرنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ ، تم تو یہاں زیادہ عرصے سے رہ رہے ہو ، تو تم نے بہت سے مکان اور پلاٹ بنا لیے ہو ں گے ۔ میں نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ بنانے کے بعد بھی مرجانا ہے اور بنائے بغیر بھی مر جانا ہے ۔تو بہتر نہیں کہ بغیر بنائے مرو ، کہ حساب تو نہ دینا پڑے اس نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن تم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہارے بچوں کا کیا بنے گا۔ میں نے کہا ، سوچا ہے لیکن یہ سوچا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا کیا بنے گا یہ سن کر وہ عجیب سا تاثر لیے خاموش ہو گیا۔
وہ دل و جان سے تبلیغی جماعت کے مشن کا حامی ہے اور اس کے لیے دن رات ایک کیے رہتا ہے ۔ اس کی اہلیہ بھی اس کا پورا پورا ساتھ دیتی ہے ۔وہ بیرون ممالک کے کئی سفر کر چکی ہے اور خواتین میں خوب کام کر رہی ہے ۔ اس نے ایک دن میری اہلیہ کو بتایا کہ ہم نے فلاں پلاٹ فلاں بیٹے کے نام کر دیا ہے اور فلاں ،فلاں کے ۔ پھر اس نے راز داری سے پوچھا کہ آپ نے عبداللہ ، عمر کے نام کیا کچھ کیا ہے ؟ میری اہلیہ نے شرمندگی سے بتایا کہ بہن ہمارے پاس ہے ہی کچھ نہیں تو ہم نے کرنا کیا ہے ۔ وہ بڑی سی آہ بھر کر ایسے خاموش ہو گئی کہ جیسے یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ تم لوگ تو محروم ہی رہ گئے ۔
وہ گورنمنٹ سکول کا ٹیچر ہے اور ہر وقت اپنی بے بسی اور کم آمدنی کا رونا روتا رہتا ہے مگر ا س نے بھی دو پلاٹ بنا لیے ہیں اور اب تیسر ے کے چکر میں ہے ۔ میں نے پوچھا کہ تم اپنی زندگی سہولت سے کیوں نہیں گزارتے ۔ ان پلاٹوں سے تمہیں کیا ملے گا ۔ اس نے بڑے فخر سے بتایا کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کے کام آئیں گے ۔
یہ سب ،اور ایسے ہی بہت سے دیگرمناظر دیکھ کر اور سن کر اب مجھے یہ احساس ہونے لگ گیا ہے کہ یا تو میں بیوقوف ہوں اور یا پھر یہ سارے لوگ بیوقوف ہیں۔لیکن پھر خیا ل آتا ہے کہ اتنے سارے لوگ تو بیوقوف ہو نہیں سکتے یقینا میں ہی بیوقوف ہوں۔اس کا ذکر میں نے اپنے ایک پڑھے لکھے بھانجے سے کیا تو اس نے کہا ، نہیں ماموں جان ، اس طرح کے ‘‘بیوقوف’’ اور بھی پائے جاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں ان کے ایک پروفیسر تھے ۔ انہوں نے بچوں کو خوب پڑھایا لکھا یا اورجب وہ خود کمانے کے قابل ہو گئے تو انہوں نے اپنی ساری جایداد اللہ کی راہ میں خرچ کر دی یعنی ہسپتالوں ، مسجدوں، مدرسوں کے نام کر دی اور آخر میں جو مکان بچا اس کے بارے میں بھی وصیت کردی کہ جب تک زندہ ہوں اس کاکرایہ لیتا رہو ں گا ، اس کے بعد یہ بھی فلاں ادارے کو صدقہ کر دیا جائے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے بچے بھی اس عمل پر بہت خوش تھے کہ انہیں اللہ کریم نے خود بہت کچھ دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے بتایا کہ عمر بن عبدالعزیزؒکا جب انتقال ہونے لگا تو عزیز و اقارب نے کہا ، عمر تم نے اپنے بچوں پر بہت ظلم کیا۔ ان کے لیے کوئی مال و دولت چھوڑ کر نہیں جا رہے ۔یہ سن کر عمر اٹھ کر بیٹھ گئے او رکہا کہ میں نے اپنے بچوں پر کوئی ظلم نہیں کیا ۔ میں نے ان کو صالح بنانے کی محنت کی ہے اور اللہ کا وعدہ ہے و ہو یتولی الصالحینکہ وہ خود ہی صالحین کا مددگار اور دوست ہو گا۔کہا کہ میں ان کے لیے صالحیت کی دولت چھوڑ کر جا رہا ہو ں باقی اللہ کے ذمے ہے۔ اور پھر میرا بھانجا کہنے لگا کہ ماموں جان، زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ تاریخ نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز کے بیٹے اللہ کے راستے میں سو سو گھوڑے خیرات کیا کرتے تھے اور وہ جن کے لیے اموی حکمرانوں نے ڈھیروں درہم و دینار چھوڑے تھے ان میں سے بہت سوں کو تاریخ نے جامع مسجد دمشق کی سیڑھیوں پر بھیک مانگتے دیکھا۔ اور آخر میں اس نے کہا کہ ماموں جان، ویسے بھی اس دنیا میں بیوقوف یا دانا کہلائے جانے کی حیثیت ہی کیا ہے۔یہ لقب بھی ویسے ہی اک دھوکا ہیں جیسے یہ دنیا اک دھوکا ہے ، اصل بیوقوف اور دانا تو وہ ہو گا جسے آخرت میں بیوقوف یا دانا قرار دے دیا جائے۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا اور مجھے یوں لگا کہ شاید یہ ٹھیک ہی کہہ رہاہے کیونکہ غبار چھٹے تو پھر ہی پتا چلتا ہے کہ مسافر گھوڑے پہ سوار چلا آرہا ہے یا گدھے پر۔