سن 2007 کی بات ہے جب میں میں نے اس زمانے کا مشہور سوشل نیٹ ورک ارکٹ چھوڑ کر فیس بک جوائن کر لی۔ اس کا انٹر فیس ارکٹ سے بہت بہتر تھا اور یہ زیادہ مقبول ہو رہی تھی اس لئے نئے سوشل میڈیا کو جوائن کرنے کی خوشی بھی تھی۔ رفتہ رفتہ رشتہ داروں اور دوستوں نے فیس بک جوائن کرنا شروع کر دی اور خوب چہل پہل ہو گئی۔ سکول کے زمانے میں جس لڑکی سے لڑائی ہوئی تھی اسے بھی دوستوں میں شامل کر لیا اور جماعت پنجم کی اس کلاس فیلو کو بھی جو صرف ایک سال کے لئے ہماری جماعت میں آئی تھی۔ 2008 میں بلاگرز کے میٹ اپ اور سوشل میڈیا والوں کا میل جول شروع ہوا تو لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے بلاگرز بھی دوست کہلانے لگے۔ ہاں پرائیویسی کی سیٹنگز سب کے لئے علیحدہ رکھیں۔ ہر روز بہت وقت فیس بک پر صرف ہوتا اور گیمز بھی کھیلی جاتیں۔ رفتہ رفتہ فیس بک کا رنگ ڈھنگ بدلنے لگا، دوست و احباب کے نئے خیالات اور نئے چہرے سامنے آنے لگے۔ اگر دیکھا جائے تو اس مصروف دور میں تو قریبی رشتہ داروں سے ملاقات بھی خال خال ہوتی ہے۔ جب ہو تب بھی کافی وضع داری سے سوچ سمجھ کر الفاظ منہ سے نکالے جاتے ہیں مگر فیس بک نے تو گویا ادب اور لحاظ کے سارے پردے ہی اٹھا دیے۔ سب سے پہلا دھچکہ تو ایک ایسے رشتہ دار کے سیاسی تبصرے اور اس میں استعمال شدہ زبان پڑھ کر لگا جو عام زندگی میں بہت شائستہ، وضع دار اور خوش گفتار ہیں۔ پھر اسی طرح کے تبصروں کے نتیجے میں ایک بزرگ اور ان سے ایک بہت کم عمر رشتہ دار میں لڑائی دیکھی۔ یہ کم عمر رشتہ دار عام طور پر محفلوں میں ان بزرگ کے لئے اپنی نشست بھی خالی کر دیتے تھے مگر فیس بک پر سخت جذباتی ہو کر سب لحاظ اٹھا دیے اور ان کو روکنے ٹوکنے کے لئے ان کی والدہ بھی تو فیس بک پر نہیں تھیں نا۔ مجھے لگا کہ اصل زندگی کی ملاقات میں کبھی ایسا نہ ہوتا اور یہ نوبت نہ آتی۔
اوپر سے یہ دنیا جو گلوبل ولیج بن گئی ہے تو ہر بندہ عقل کل اور ملک اور مذہب کا ٹھیکیدار بن گیا ہے۔ سنہ دو ہزار سے پہلے لاہور میں بہت سیاح آتے تھے اور انارکلی کے پاس ہونے کی وجہ سے میری یونیورسٹی بھی آ جاتے تھے۔ ایسے میں ایک دفعہ ایک امریکی گورے سے بہت دلچسپ گفتگو ہوئی جو امریکہ میں میرے ہی مضمون یعنی فنون لطیفہ کا پروفیسر تھا۔ یونیورسٹی کی زندگی کا آغاز تھا، ذہن میں آزادی بھی تھی اور بے وقوفی بھی، اسے میں نے اپنا ای میل ایڈریس دیا اور کہا واپس جا کر ای میل کرنا۔ اس ملاقات میں پاکستان کی بڑی تعریفیں کی اس نے مگر امریکہ جا کر ایک ای میل بھیجی جس میں لکھا کہ پاکستان نہایت واہیات ملک تھا۔ میرا کیمرا بھی کسی نے چرا لیا اور لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھتے تھے ہر جگہ۔ مجھے بڑا غصہ آیا، سوچا پاکستان میں تو سب اچھا کہہ رہا تھا اب باہر جا کر اتنی برائیاں، امی کے سامنے بھڑاس نکالی تو بولیں کہ خط میں سچ لکھنا منہ پر کہنے سے آسان ہوتا ہے۔ خیر خط تو نہیں تھا، تھی تو ای میل میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ مگر اب اگر ایک امریکی گورا کسی کو آن لائن مل جائے اور ایک بھی منفی جملہ لکھ دے تو اس کا تعلیمی معیار اور ذہنی استعداد جانچے بغیر اس کی کسی بھی بات کے جواب میں اسے امریکہ کا سفیر تصور کر کے اس کی ماں بہن تک جا پہنچنا سب لوگ اپنا اخلاقی فرض سمجھیں گے اور مختلف مسالک کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ تو پوچھیں ہی مت۔
دوسری طرف ہمارے خاندان میں ایک شادی شدہ جوڑا ایسا ہے جو پچھلے بیس برسوں سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے اور صرف بزرگوں کے اصرار پر شادی شدہ زندگی اکٹھے گزارنے پر شکوہ کناں ہے۔ عمومی طور پر خاندانی محفلوں میں یہ جوڑا ایک دوسرے کی برائی کرنے میں ہی مصروف نظر آتا ہے مگر فیس بک پر تو ان کے پروفائلز سے لگا کہ ان جیسا آسودہ اور طوطا مینا جیسا رومانوی جوڑا شاید ہی ہوتا ہو ہر تصویر میں ایک دوسرے کو ٹیگ کرتے اور ہر عشق کا اظہار فیس بک سٹیٹس کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سالگرہ اور شادی کی سالگرہ پر ایک دوسرے کو دیے جانے والے تحفے کا اعلان بھی فیس بک پر ہوتا ہے۔ اب اللہ جانے حقیقت میں ان کا رشتہ کیسا ہے۔ وہ جو ہمیشہ ان کے منہ سے سنا ،یا وہ جو فیس بک پر دیکھا؟
بچپن میں چلتے ہو تو چین کو چلیے اور تارڑ صاحب کے سفرنامے مجھے بہت پسند تھے اور ان سفرناموں کی زبان اور بیان دل میں دنیا گھومنے کی ایک خواہش پیدا کر دیتے تھے۔ اس وقت چند خال خال رشتہ دار ہی سیر و تفریح کی غرض سے بیرون ملک جاتے دیکھے اور جاتے بھی تھے تو کبھی ان کی تصاویر دیکھنے کا موقع نہ ملا، مگر اب فیس بک کی بدولت ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سیاحت کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے۔ تمام صاحب حیثیت احباب ائر پورٹ کے لاؤنج سے ہوٹل کے غسل خانوں تک کی تصویریں شئیر کرتے ہیں۔ ایسے سٹیٹس پوسٹ کرتے ہیں کہ میرا نیا آئی فون پیرس کی ٹیکسی میں رہ گیا یا میں نے سپین جاکر بیوی کو ہیرے کی انگوٹھی تحفہ میں دی۔ سیاحت کی نسبت دنیا کو دکھانے اور مرعوب کرنے کا پہلو زہادہ غالب نظر آتا ہے۔
نئے کپڑے، نئے جوتے، نئی گاڑی، کھانا کہاں کھایا یہاں تک کہ نرسری میں کلاس ٹیسٹ میں بھی بچہ پورے نمبر لے لے تو آئن سٹائین ان میکنگ کے کیپشن کے ساتھ تصویر فیس بک پر لگا دی جاتی ہے۔ میری ایک دوست کی بچی ذہنی طور پر تھوڑی مختلف صلاحیتیں رکھتی ہے اور اسے دیگر بچوں کی طرح زندگی گزارنے میں تھوڑی دشواری پیش آتی ہے۔ میں اس کی ماں سے ہمیشہ احتیاط سے بات کرتی ہوں میں کہ کہیں اس کی دل آزاری نہ ہو مگر بھلا فیس بک پر کوئی پردہ یا رواداری رہ جاتی ہے؟ ہر شخص خود کو برتر سے برتر ثابت کرنے کے چکر میں ہے۔ شادی کی تقریب پر ایک خاتون کو میں نے دیکھا کہ پوری تقریب چھوڑ کر بلا مبالغہ سو سے زیادہ سیلفیاں لیں انہوں نے تاکہ فیس بک پر ڈال سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب میں خود فیس بک پر تھی تو ایک جوڑا دوبارہ پہن کر تصویر نہیں کھنچواتی تھی کہ اگر زیادہ اچھی آ گئی اور فیس بک پر لگانی پڑ گئی تو جوڑا تو نیا ہو کم از کم۔ اس وقت لگتا تھا کہ ہر اچھی تصویر فیس بک پر لگانا فرائض کا حصہ ہے۔ فیس بک پر سب قیمتی چیزیں، سیر و تفریح کے سامان اور دوست اور احباب کے نت نئے ریستورانوں میں چیک ان دیکھ کر مجھے لگنے لگا کہ شاید دنیا میں غربت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر انسان تو امیر ہے اور خوش ہے، تبھی اصل زندگی میں ایک انتہائی قریبی رشتہ دار سے ملنے کا اتفاق ہو اور معلوم ہوا کہ ان کی تین سالہ بیٹی کے پاس کھیلنے کے لئے ایک بھی کھلونا نہیں ہے اس وقت دل پر بڑا اثر ہوا اور جتنا بساط میں تھا ان کی مدد کے لئے کیا۔ فیس بک پر ایک تو اپنی برتری ثابت کی جاتی ہے اور اپنا بہترین پہلو سب کے سامنے لایا جاتا ہے اوپر سے یہ تجسس بھی ہوتا ہے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ سچ کہوں گی کہ تجسس کے مارے ایک دو پروفائل میں نے بھی جھانکے تھے۔
میرے میاں تھوڑے سے وہمی ہیں کچھ معاملوں میں، زور کچھ معاملوں پر ہے ورنہ تو بہت روشن خیال ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیس پک بری وائبز اور نظر بد دوسرے تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ شاید سچ ہی کہتے ہیں کیونکہ جو لوگ دل سے خوش ہونے والے ہیں وہ تو ساتھ ہی رہتے ہیں ہمارے اور میں خود بھلا کوئی خاص خوش ہوتی ہوں کسی کے لئے سوائے اپنے قریبی رشتوں کے۔
خیرقصہ مختصر تو پھر ہوا یوں کہ اوپر بیان کی گئی ساری باتوں کی روشنی میں مجھے فیس بک ایک مصنوعی، کھوکھلا اور اخلاق سے عاری ذریعہ اظہار یا سوشل پلیٹ فارم لگنے لگی۔ سو میں نے پہلے فیس بک کا استعمال کم کیا اور پھر 2013 میں بالکل چھوڑ دیا۔ سچ مانیں کہ زندگی میں بہت تبدیلی آئی۔ سب سے پہلے تو اپنی ہمسائی کو آنکھیں کھول کر دیکھا اور اسے جا کر ملی۔ تب یاد آیا کہ کسی انسان سے اصل ملاقات کیا ہوتی ہے۔ تصویریں اپنی یادیں بنانے کے لئے کھینچنا شروع کیں تو جوڑوں اور جوتوں پر ہونے والا خرچہ بھی گھٹ گیا۔ گھر بھی نظر آنا شروع ہوا اور اس کی صفائی میں بھی بہتری آئی۔ گردن کے پٹھے جو ہر وقت موبائل کے مسلسل استعمال سے کھنچے رہتے تھے، ان کے درد میں بھی کمی آئی۔ ایک مقابلہ بازی کی فضا سے نکل کر اپنے گھر کے سکون میں سانس لیا اور توجہ اپنے کام پر مرکوز کی۔ اب تو چار سال ہونے کو ہیں۔ نہ تو ایک دفعہ بند کرنے کے بعد فیس بک کھولی اور نہ ہی دوبارہ کھولنے کا ارادہ ہے۔
دنیا کے بدلتے رنگ ڈھنگ اور نفرت کی فضا میں بڑھاوا دیکھ کر مجھے لگتا ہے اس فتنہ و فساد میں فیس بک کا بڑا ہاتھ ہے۔ اب میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ فیس بک بین ہو جائے یا اس پر پابندی لگا دی جائے۔ میں تو صرف یہ سمجھتی ہوں کہ صدیوں کے تجربے کے بعد انسان نے آداب و اخلاق، ملنے ملانے کے اصول اور وضع داری کے قاعدے مقررکیے تھے۔ اب ایک نئے اظہار رائے کے پلیٹ فارم کو سمجھنے اور اس پر اصول وضع کرنے میں وقت تو لگے گا، تو بس مجھے یوں لگا کہ تبدیلی کے اس عمل کے دوران اپنا خون جلانے کی نسبت فیس بک
سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔
***