امی ابو! مجھے معاف کردینا۔ میں آپ کے کام نہیں آسکا، آپ کو خوشیاں نہیں دے سکا۔یہ ایسے بچے کے الفاظ تھے جو بہت حساس تھا، سمجھدار تھا۔نام تو معلوم نہیں، اس لیے احمر فرض کرلیتے ہیں۔احمر ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں بے اولادی کا وقفہ اُس کی آمد سے ٹوٹا تھا۔والدین کی خوشیوں کا کیا عالم ہوگا، وہ لوگ بخوبی جان سکتے ہیں جن کے ہاں بے اولادی کے بعد اولاد ہو۔نہ احمر سے پہلے اولاد تھی اور نہ اُس کے بعد مزید اولاد ہوئی۔خوشیوں کا یہ تسلسل زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ احمر کے بڑا ہونے پر یہ آشکار ہونا شروع ہوا کہ اُس کا جسم اُس کا بوجھ اُٹھانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ جسم جیسے جیسے بڑھتا گیا، یہ محرومی بھی بڑھتی گئی۔ساتھ ساتھ احمر کی سمجھداری اور حساسیت بھی بڑھتی گئی۔اُس کے والدین جب کبھی اُس کی محرومی پر پریشان ہوجاتے یا اُن کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تو وہ بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجایا کرتا۔ امی ابو! مجھے معاف کردینا۔ میں آپ کے کام نہیں آسکا، آپ کو خوشیاں نہیں دے سکا۔ جب احمر پندرہ برس کا ہوا تو اُس کا جسم بالکل جواب دینا شروع ہوگیا، طبیعت خراب رہنا شروع ہوگئی۔ ایک دن طبعیت کافی خراب تھی تو ابو نے ہسپتال جانے کا کہا۔احمر کہنے لگا: ابو! گیٹ کے باہر کافی مہمان آئے ہوئے ہیں۔جبکہ باہر کوئی بھی موجود نہ تھا۔ابو نے گیراج میں ہی احمر کو کیری ڈبہ میں بٹھایا۔ جیسے ہی گاڑی گیٹ سے باہر نکلی تو احمر بے ساختہ کہنے لگا:
ابو! میں نے کہا تھانا، گیٹ کے باہر کافی مہمان آئے ہوئے ہیں۔ یہ کہتے ہی احمر کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔احمر اُن مہمانوں کے ساتھ رخصت ہوچکا تھا جو صرف وہ دیکھ رہا تھا۔
یہ بالکل سچی کہانی ہے، صرف احمر کا نام فرضی ہے جیسا کہ شروع میں بتایا۔احمر ایک ایسی معذوری کا شکار تھا جو عمر کے ساتھ بڑھتی گئی لیکن وہ صابر رہا، شاکر رہا، ماں باپ کا فرمانبردار رہا، اُن کا احساس کرتا رہا، اُن کے آنسو پونچھتا رہا۔دوسری طرف اُس کے والدین بھی صابر تھے، شاکر تھے، احمر کی صورت پندرہ سالہ آزمائش کے بعد کندن بن گئے۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کی محرومیاں، معذوریاں احمر یا اُس کے والدین سے بہت کم ہیں لیکن ہر وقت شکوہ کناں رہتے ہیں، پریشان حال رہتے ہیں، صبر و شکر سے دور، بس شکایت ہی شکایت۔
دل میں بھی شکوے، چہرے پر بھی شکوے، الفاظ اور لہجہ میں بھی شکوے۔اپنی ذات سے بھی نالاں اور اپنے متعلقین سے بھی کِھچے کِھچے۔احمر کو جو کچھ ملنے والا تھا، وہ مہمانوں کی آمد والی بات سے واضح ہوگیا۔
یہی حقیقی راستہ ہے۔ہم جب تک شکوہ شکایت کی رسی تھامے رہیں گے، ہمارا دل بھی بے سکون اور پریشان رہے گا۔
زندگی مختصر ہے چاہے پندرہ سال ہو، ساٹھ سال ہو یا سو سال۔اِس کا طویل بھی قلیل ہے، اس کی قدر کیجیے اور اِس سے وہ کشید کرلیجیے جو مطلوب ہے۔