مٹی کے برتن میں زندہ دفن کی جانے والی بچی صحت یاب ہو گئی

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : جسے اللہ رکھے

شمارہ : اگست 2020

شمالی انڈیا میں زمین میں دفن کیے گئے مٹی کے برتن میں سے زندہ ملنے والی نومولود بچی کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی ہے۔اکتوبر کے وسط میں اسے خون میں زہریلے اور فاسد مادے کے سرایت کرنے اور خطرناک حد تک پلیٹلیٹس گرنے کے باعث انتہائی تشویش ناک حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔ماہر امراض اطفال اور اس نومولود بچی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر روی کھنہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب اس بچی کا وزن بڑھ گیا ہے اور وہ بہتر طور پر سانس لے رہی ہے جبکہ اس کے پلیٹلیٹس کی تعداد میں بھی بہتر آئی ہے۔ تاہم اب تک اس کے والدین کا سراغ نہیں لگایا گیا ہے اور لواحقین کے انتظار کی لازمی مدت کے بعد اسے گود لینے کے بارے انتظامات کیے جائیں گے۔ فی الحال ابھی وہ بچی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلع بریلی میں چلڈرن ویلفیئر حکام کی تحویل میں ہے۔یہ بچی حادثاتی طور پر اکتوبر میں ایک مقامی دیہاتی کو اس وقت ملی تھی جب وہ اپنی مردہ پیدا ہونے والی بیٹی کو دفن کر رہا تھا۔ہندو مذہب میں عام طور پر مردہ افراد کو جلایا جاتا ہے، لیکن کم سن اور نومولود بچوں کو اکثر دفن کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر کھنہ نے بتایا کہ ‘منگل کو جب ہم نے اسے ضلعی ہسپتال کے حکام کے حوالے کیا تو اس بچی کا وزن 2.57 کلوگرام تھا۔ وہ دودھ والی بوتل سے دودھ پی رہی ہے اور اب وہ بالکل صحت مند ہے۔’مقامی دیہاتی نے بتایا تھا کہ زمین کھودتے وقت تقریباً 3 فٹ زیر زمین اس کا بیلچہ مٹی کے ایک برتن سے ٹکرایا جس سے وہ ٹوٹ گیا اور اس نے ایک بچے کو روتے ہوئے سنا۔ جب اس نے برتن نکالا تو اس میں ایک زندہ بچی ملی تھی۔اس بچی کو پہلے مقامی سرکاری ہسپتال لے جایا گیا لیکن دو دن بعد اسے ڈاکٹر کھنہ کے بچوں کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جہاں علاج کی بہتر سہولیات موجود ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی کی پیدائش قبل از وقت تھی اور وہ ممکنہ طور پر 30 ہفتوں میں پیدا ہوئی تھی، اور جب اسے ہسپتال لایا گیا تو اس کا وزن محض 1.1 کلوگرام تھا۔ڈاکٹر کھنہ نے جمعرات کو بتایا کہ 'منگل کو جب ہم نے اسے ضلعی ہسپتال کے حکام کے حوالے کیا تو اس بچی کا وزن 2.57 کلوگرام تھا۔ وہ دودھ والی بوتل سے دودھ پی رہی ہے اور اب وہ بالکل صحت مند ہے۔’تاہم یہ علم نہیں ہے کہ بچی کتنی دیر سے زمین میں دفن تھی اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیسے زندہ رہنے میں کامیاب ہوئی۔ڈاکٹر کھنہ کا کہنا ہے کہ شاید اسے 'تین سے چار دن قبل زمین میں دفن کیا گیا تھا، وہ اپنے جسم میں موجود چربی پر زندہ رہی۔’بچے اپنے پیٹ، ران اور گال پر چربی لے کر پیدا ہوتے ہیں اور وہ کسی ہنگامی صورتحال میں کچھ دیر کے لیے اس پر زندہ رہ سکتے ہیں۔لیکن دیگر ماہرین نے اس سے بھی کم وقت کا اندازہ لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے صرف ‘دو سے تین گھنٹے’ تک دفن کیا جاسکتا تھا اور اگر اسے بچایا نہ گیا ہوتا تو شاید وہ ‘مزید ایک یا دو گھنٹے’ تک زندہ رہ سکتی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ برتن کے اندر پہلے سے موجود ہوا نے اسے آکسیجن مہیا کی ہو گی یا ہوسکتا ہے کہ کچھ آکسیجن نرم مٹی میں سے مل گئی ہو۔ جبکہ حقیقت میں برتن سخت مٹی سے نہیں بنایا گیا تھاجو اس کے زندہ رہنے میں مدد کرسکتا تھا۔اکتوبر میں پولیس نے 'نامعلوم افراد' کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا اور نومولود کے والدین کی تلاش شروع کر دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ اس کے والدین اس کی تدفین میں ملوث ہیں کیونکہ اس واقعہ کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے بعد بھی کوئی بھی اس کا دعویٰ کرنے کے لیے سامنے نہیں آیا۔حکام نے ممکنہ محرکات کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کی ہے۔تاہم انڈیا کا صنفی امتیاز دنیا میں بدترین ہے۔ خواتین کے ساتھ اکثر معاشرتی طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور خاص طور پر غریب طبقات میں لڑکیوں کو ایک معاشی بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اگرچہ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے بچوں کی جنس جاننے والے کلینکس کی مدد سے زیادہ تر ناپسندیدہ مادہ جنینوں کا اسقاط حمل کیا جاتا ہے۔لیکن بچیوں کی پیدائش کے بعد انھیں قتل کرنے کے واقعات بھی عام ہیں۔(بی بی سی ڈاٹ کام ۶ دسمبر ۲۰۱۹)
نومولود بچہ کھیت میں زندہ دفن ، کتے نے بچا لیا
شمالی تھائی لینڈ میں ایک کتے نے ایک نومولود بچے کی جان اس وقت بچا لی جب بچے کو مبینہ طور پر اس کی نوجوان ماں نے زندہ دفن کر دیا تھا۔اس بچے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی ۱۵سالہ ماں نے اپنے والدین سے حمل چھپانے کے لیے ایسا کیا۔بان نونگ خام گاؤں میں پنگ پونگ نامی کتا کھیت میں ایک مقام پر بھونک رہا تھا اور کھودنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کتے کے مالک نے کہا کہ اس وقت انھیں ایک بچے کی ٹانگ نظر آئی۔مقامی لوگ بچے کو فوراً ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے بچے کو چیک کرنے کے بعد نہلا کر اسے صحت مند قرار دیا ہے۔پنگ پونگ کے مالک اوسا نسائیخا نے بتایا کہ پنگ پونگ کی ایک ٹانگ کام نہیں کرتی کیونکہ ایک گاڑی اسے مار گئی تھی۔انھوں نے ایک مقامی اخبار کو بتایا ‘میں نے اسے اسی لیے رکھا کیونکہ یہ انتہائی وفادار اور تابعدار ہے۔ میں جب بھی اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال کے لیے جاتا ہوں تو یہ میری مدد کرتا ہے۔ اسے پورا گاؤں ہی پسند کرتا ہے۔’ بچے کی ماں پر اقدامِ قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہ ہے کہ فی الحال یہ پندرہ سالہ ماں اپنے والدین اور ایک ماہرِ نفسیات کے پاس ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ماں اپنے کیے پر رنج و غم کا اظہار کر رہی ہے۔ اس لڑکی کے والدین نے بچے کو پالنے کی حامی بھری ہے۔
٭٭٭

بشکریہ : (بی بی سی ڈاٹ کام ۱۸ مئی ۲۰۱۹)