لیڈر کا ایماندار ہونا سیاسی اور معاشرتی مسائل کا حل ہوتا تو علی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ایسی سازشوں اور انارکی کی تاریخ لیے ہوئے نہ ہوتا جو بالآخر انکی ایسی شہادت پر منتج ہوئی کہ خلیفہ وقت کی قبر تک پوشیدہ رکھی گئی کہ کہیں لوگ میت کی بے حرمتی نہ کریں۔دوسری طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلاف انسانیت کی تاریخ کا سنہرا ترین دور تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس فرق کی وجہ کیا تھی؟ وجہ بہت سادہ تھی، پہلے دو خلفا کے دور میں مسلمانوں میں بڑی تعداد میں وہ اصحاب موجود تھے جنکی تربیت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سے زیادہ دہائیوں میں بھرپور توجہ سے کی تھی۔جبکہ علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک ایرانی شامی اور عراقی بڑی تعداد میں نہ صرف مسلمان ہو چکے تھے بلکہ اپنی سابقہ ثقافتی اور قبائلی تربیت اور عادات و اطوار کے ہمراہ مسلم معاشرے میں اہم ریاستی پوزیشنز حاصل کر چکے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ اصحاب رضی اللہ عنہما کی اکثریت دوران جہاد شہید ہو چکی تھی،کچھ بہت بزرگ تھے اور کچھ دور دراز کے علاقوں میں مصروف تبلیغ تھے۔ یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کے آخر سے ہی ریاست میں وہ نو مسلم افراد بااثر ہو چکے تھے جو اپنی قبائلی عصبیتیں اور اسلام سے ٹکراتی نارمز اور ویلیوز ساتھ لے کر اسلامی معاشرے کا حصہ بنے تھے جبکہ وہ تربیتی نظام بھی نسلی سیاست کی نظر ہو چکاتھا جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ ایسے ماحول میں علی رضی اللہ عنہ ہ کوریاست کی باگ دوڑ ملی تو وہ باب العلم ہونے کے باوجود کر بھی کیا سکتے تھے۔
خلافتِ راشدہ کے زوال کی کئی دہائیوں بعد ایک اُموی خلیفہ کے دور میں پھر افراد کی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ پر فوکس بڑھا تو اس شروعات کا معاشرے پر اثر ایک بار پھر دو مزید خلفاء کے دور تک نظر آیا۔ سُنّتِ رسولﷺ کا یہ بنیادی نُکتہ یعنی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ اتنا ہی اہم ہے۔
عثمانی خلافت کی جڑوں میں بھی ابنِ عربی اور اُنکے شاگردوں کی محنت کی کھاد شامل تھی۔ یہ صوفی تین نسلوں کی ایسی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ کر پائے کہ اللہ نے ایک ہزار سالہ ایسی حکمرانی عُثمانیوں کا مقدر بنا دی کہ جس میں مسلمانوں نے قرآن و سُنّت کی تبلیغ سمیت سائنس، فلسفے، ریاضی، منطق، ادویات، فائن آرٹس اور انتظامی صلاحیتیں بڑھانے والے علوم سمیت ہر علمِ نافع میں ملکہ تو حاصل کیا ہی ،مسلمانوں کا اثر اتنا پھیلا کہ اُسکے بعد سے مُسلم معاشرے پر ایک ساتھ سورج غروب نہیں ہوتا۔
تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ پر توجہ کم اور سیاست اور اقتدار پر توجہ بڑھی تو عُثمانی خلافت کا بھی خلافتِ راشدہ کی طرح زوال شروع ہُوا لیکن اب کی بار اسلامی معاشرے میں اتنی ڈائیورسٹی پیدا ہو چکی تھی کہ اسلام کی ترقی کا دارومدار فقط ریاست پر نہ رہا تھا۔کم تعداد میں ادھر اُدھر بکھرے ہُوئے ہی سہی, اسلامی دنیا کو ایسے سکالرز میسر آتے رہے جو رضاکارانہ طور پر تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ کو اپنا فرض سمجھتے رہے۔
عُثمانی خلافت کے خاتمے کے وقت دُنیا میں عملاََ ایک مسلم ریاست موجود تھی اور اُسکے سو سال بعد آج دُنیا کے نقشے پر چھپن اسلامی ریاستیں موجود ہیں۔البتہ بدقسمتی سے تُرکی اور ملائشیا کے علاوہ دیگر چوّن اسلامی ممالک میں تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ کو ابھی تک انسٹیچیوشنلائز نہیں کیا جا سکا ہے۔لمحے بھر کو پاکستان کی مثال لے لیجیے، دوسری جنگِ عظیم کے بعد تین دہائیوں سے انگریز سے آزادی کی قانونی جدوجہد کرتے جناح کو یہ موقع تو میسر آ گیا کہ کمزور ہو چکے غاصب انگریز سے ہندوستان چھوڑنے اور اسے دو آزاد ملکوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ منوایا جا سکے، وہ پاکستان آزاد کروانے میں کامیاب بھی رہے ،لیکن وہ اپنے جیسی کپیسٹی اور تربیت کا حامل ایک بھی اپنی ٹیم میں نہیں رکھتے تھے۔اُنکی کم و بیش ساری ٹیم اُن سرداروں اور وڈیروں پر مشتمل تھی جو اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں پیٹرن کلائنٹ ریلیشن شپ کے بینیفیشیریز تھے،لہذا قائداعظم کی وفات کے بعد مُلک پھر اُنہی حالات کا شکار ہو گیا جنکے باعث انگریز سے آزادی کی تڑپ جاگی تھی۔سیاستدانوں اور فوج میں سیاسی آنکھ مچولی ایسی شروع ہُوئی کہ نہ سیاستدان اس کھیل سے اُکتاتے ہیں نہ فوج۔ایسے میں یہاں کئی ایسے لیڈرز اور سکالرز پیدا ہُوئے جو سیاست میں داخلے سے پہلے اگر سُنّتِ نبویﷺ کا بنیادی اصول سمجھتے ہُوئے پہلے ایک ٹیم کی کپیسٹی بلڈنگ اور تربیت کو مقصدِ حیات بنا لیتے تو مُلک ترقی کی شاہراہ پر چڑھ جاتا۔یہی نکتہ سیاست میں عملی قدم رکھتے عظیم عالم مودودی بھی نہ سمجھ سکے کہ حکومت کے ذریعے تبدیلی لانی ہو تو پہلے اپنے جیسے لوگوں کی ایک ٹیم تیار کرنی ہوگی جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئیس سال کی شبانہ روز محنت سے ایسے ہیرے تیار کیے تھے کہ بیس سال میں دو براعظم اللہ اکبر کی صداؤں سے گونجنے لگے۔مولانا مودودی میں یہ صلاحیت موجود تھی لیکن تیاری کے بغیر بنائی گئی اُنکی سیاسی جماعت نے انکی علمی شناخت کو بھی اسی جماعت کے بعد میں آنے والے غیرتربیت یافتہ اور متشدد ذمہ داروں کی شناخت سے جوڑ دیا حالانکہ یہ لوگ کردار، خدمت اور کپیسٹی کے پیمانوں پر مودودی کے وارث تھے ہی نہیں۔یہی نکتہ عمران خان صاحب نہ سمجھ پائے، یہ مذھبی نہیں تھے جناح کی ریسینٹ مثال سے ہی سمجھ لیتے۔عمران خان صاحب کے نعرہ تبدیلی میں میرا عدم یقین خان صاحب کی وجہ سے نہیں،ان کھر، گورمانی، لغاری ، لشاری ، مزاری، ٹوانے اور ایسے سینکڑوں دیگر وڈیروں کی وجہ سے تھا جو چار نسلوں سے ہر سول اور فوجی حکومت میں رہنے کے بعد اب خان صاحب کے ہم رکاب تبدیلی کے علمبردار بنے تھے۔نئے پاکستان کے ہر خواب کے ساتھ کیا ہُوا اور کیا ہونے والا ہے یہ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ایک تو مجھے ہی دکھ ہوگا دوسرے یہ کہ آپ جانتے ہیں اگلے پانچ سال بعد زندگی آپکے لیے پہلے سے مشکل ہوگی یا آسان۔میں تو یہ بتا سکتا ہُوں کہ آپکی اگلی نسل کو اپنے سے بہتر بنانے اور اسلام کی حقیقی خدمت کے لیے آج آپ کیا کر سکتے ہیں۔دیکھیے نیا پٹنے کے بعد اگلا پاکستان شریفوں کا بنے، زرداریوں کا بنے یا خاکیوں کا،یہ مان لیجیے کہ حکمرانوں کی ٹیم اُنہی سرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے پوتے پڑپوتے بنیں گے جو پہلے قائداعظم کے پاکستان کے علمبردار بنے تھے اور جنہیں آپ نے حال ہی میں آخری لمحات میں خان صاحب کے نئے پاکستان کا علمبردار پایا ہے۔اب آپکو کرنا یہ ہے کہ اپنے اپنے گھر اور خاندان کو اپنا ملک سمجھ لیں۔جو صاحب استطاعت ہیں وہ ہمسایوں اور دوستوں کو اپنے ملک میں شامل کر لیں اور ریاست کو اسکے حال پر چھوڑ کر انفرادی طور پر سُنّتِ نبویﷺ کی تصویر بن جائیں۔
جو چھوٹا سا ملک آ پ نے چنا ہو اسکے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تیئیس سال اپنے نبیﷺ کی طرح دن رات ایک کر دیں،
انکی تعلیم کے لیے دو دو نوکریاں کریں،انکے ایمان عقائد اور کپیسٹی کے لیے یُوں سمجھ لیجیے کہ آپ اُسی گھاٹی میں بایئکاٹ کا شکار ہیں جِس میں آپکے نبیﷺ کے بھی ماہ و سال گزرے تھے۔آپ میں سے چند سو افراد یہ کر پائے تو آپکی چاردیواری پر مشتمل ملکوں سے نکلے ہیرے اگلی دہائیوں کے سابقون ہونگے۔وقت انہیں اکٹھا بھی کر دے گا۔انہی ہیروں سے نکلتا نور اسلام کی نصرت کرے گا بس آپ کو پہلے مرحلے میں اپنے گھر کی چاردیوری کو پاکستان سمجھنا ہے۔چاہیں تو اسے مدینہ سمجھ لیں ایک ہی بات ہے۔