چند لمحات کے لیے میری درخواست پر اُس دور میں ٹائم ٹریول کیجئے کہ جب حضرت محمدﷺ کے وصال کو صرف 80 سال گزرے تھے۔ ایک بھی صحابی زندہ نہیں ہے البتہ وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے صحابہ کو دیکھا تھا۔ اس وقت نہ ابو حنیفہ پیدا ہوئے تھے نہ امام مالک نہ امام جعفر صادق اور نہ فقہ لکھنے والا کوئی اورامام پیدا ہوا تھا۔ آپ ایک ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں کہ حدیث کی ایک بھی کتاب موجود نہیں ہے۔ اور امام بخاری اور مسلم سمیت دیگر محدثین پیدا ہونے میں ابھی سو،سواسو سال سے زیادہ عرصہ ہے۔ یہ تو بڑی مشکل صورتحال ہے اب آپ کو سُنت کیسے پتہ چلے گی؟ فرائض کیسے پتہ چلیں گے؟ لوگ آخر کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے اماموں میں سے کوئی پیدا ہی نہیں ہواجن کے کئے ہوئے کام کے بعد ہم آج شیعہ اور سُنی، حنبلی اور شافعی وغیرہ بنے۔دیوبند اور بریلی مدرسہ تو ابھی سوا ہزار سال بعد بنے گا لہذا آپ دیوبندی بریلوی بھی نہیں بن سکتے، وہابی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ وھابی فرقے کی شروعات میں ابھی سوا ہزار سال کا عرصہ ہے، اہلِ حدیث تو تب بنیں جب حدیث کی کوئی کتاب ہو۔جس دور میں آپ پُہنچ گئے ہیں اُس وقت لوگ حدیث نبویﷺ کو لکھنے کا تصوّر بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت مُحمدﷺ نے صاف صاف کہا تھا کہ اگر کسی نے مجھ سے سُن کر قُرآن کے علاوہ کُچھ لکھ لیا ہے تو وہ مٹا دے۔ اور لوگوں کو اپنے بزرگوں سے سُنی ہوئی یہ باتیں یاد ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عُمرؓ اپنے اپنے ادوار میں لوگوں کی اپنے نبی ﷺ کی مُحبت میں لکھی جانے والی احادیث کو اکٹھا کر کے آگ لگوا چُکے ہیں۔ اُنھیں جلیلُ القدر صحابہ کی یہ نصیحت یاد ہے کہ نبیﷺ نے قُرآن اور اپنی سُنت کے علاوہ کُچھ نہیں چھوڑا لہٰذا آپ اہل حدیث تو ہو ہی نہیں سکتے۔ صحابہ میں سے کوئی زندہ نہیں۔ بڑی مشکل میں ہیں ہم اب کہاں جائیں۔اتنے میں مسجد میں اذان کی آواز آتی ہے، آپ مسجد پہنچتے ہیں تو کیسے نماز پڑھیں گے، ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر؟
آپ یقیناً ویسے ہی نماز پڑھیں گے جیسے وہاں کی مسجد میں لوگ پڑھ رہے ہوں گے۔ یعنی سُنت مسلمانوں میں رائج ہے۔ فرائض کا پتہ ویسے ہی قرآن سے چل رہا ہے اور قرآن تو تب بھی وہی تھا جو آج ہے۔ یعنی اُس دور کے مُسلمان قُرآن اور مُعاشرے میں رائج سُنّت کے سہارے ہم سے کہیں بہتر مُسلمان تھے۔
احادیث قُرآن کے نزول کے ساتھ ساتھ اُس کی تشریح کو سُنّت کی شکل میں ابتدائی اسلامی مُعاشرے میں رائج کرنے کے لیے تھیں اور ہر سُنّت قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ہی اسلامی مُعاشرے میں رائج ہو چُکی تھی۔ قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ہی سُنّت کی بھی تکمیل ہو چُکی تھی۔ یعنی احادیث اپنی ضرورت پُوری کر چُکی تھیں۔ تبھی ابوبکرؓ اور عُمرؓ نے احادیث کے ذخیروں کو آگ لگوائی تاکہ قُرآن و سُنّت ہی آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کا ماخذ ہو۔ تبھی آخری حج کے موقع پر حضرت مُحمدﷺ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہی صحابہؓ سے کہا کہ جو یہاں موجود نہیں اُن تک دین پہنچائیں جسے ایک آیت بھی سمجھ آئی ہو وہی باقیوں کو پہنچائے
اسی لیے صحابہ وہاں سی نکلے اور آدھی سے زیادہ دُنیا میں پھیل گئے۔
جن صحابہ نے نبیﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا تھا ویسے ہی لوگوں کوسکھایا جنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر یا رفع یدین کرتے دیکھا تھا اُنہوں نے آگے ویسے ہی سکھایا۔ کوفے کی طرف جو صحابہ گئے وہ آپﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا دیکھتے رہے تھے لہٰذا عراق کے سب مُسلمانوں کی اگلی نسلیں اُسی سُنت پر عمل کرنے لگیں افریقہ اور کُچھ دیگر علاقوں میں جو صحابہؓ پہنچے اُنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی سُنت سکھائی لہٰذا آج تک افریقہ کے کروڑوں مُسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے اور عین سُنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہیں۔رفع یدین کرنا بھی سُنّت ہے نہ کرنا بھی عین سُنّت۔ نماز تو ایک مثال ہے۔ ہر مُلک کے مُسلمانوں نے مُختلف مُعاملات اور عبادات میں الگ الگ صحابہ سے الگ الگ سُنّت سیکھی لہٰذا سبھی تھوڑے تھوڑے مُختلف ہونے کے باوجود سُنّت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اللہ نے صحابہؓ کے ذریعے ہر وہ طریقہ عبادت کسی نہ کسی مُلک میں رائج کروا دیا جو نبیﷺ نے کبھی نہ کبھی اختیار کیا تھا۔ اُس وقت کے مُسلمان جب حج کے لیے مُختلف ملکوں سے اکٹھے ہوتے تو ان اختلافات کو بھی مُحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ عراق والے کہتے کہ ہاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ زیادہ مودّبانہ ہے مدینہ والوں کی دلیل ہوتی کہ حضوری کا احساس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے سے زیادہ آتا ہے یہ علمی مذاکرے چلتے رہتے لیکن کوئی اس اختلاف کی بُنیاد پر ایک دوسرے کو غلط نہ کہتا۔
اب اپنی آنکھیں دوبارہ کھولیں۔ ہم اس وقت 120ہجری یعنی حضرت محمدﷺ کے وصال کے 110سال بعد کے مدینہ میں موجود ہیں۔ مدینہ شہر میں امام مالک موجود ہیں اور مدینے میں ہی امام جعفر صادق بھی ہیں۔یہ دونوں امام اپنی اپنی فقہ ترتیب دے رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی
ہو ئی تعداد کے لیے نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں رہنمائی ہوسکے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ یہ امت کو فرقوں میں بانٹیں۔ یہ ایک دوسرے کی بے پناہ عزت کرتے ہیں۔عین اسی وقت عراق کے شہر کوفے میں امام ابو حنیفہ بھی فقہ لکھ رہے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کا دور تو ہے نہیں اور نہ ہی اخبارات یا رسالے چھپتے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کے لئے مہینوں لگ سکتے ہیں لہذا مختلف امام اپنے اپنے لوگوں کی آسانی کے لئے مختلف ملکوں میں فقہ لکھ رہے ہیں۔ امام شافعی اب سے کچھ سال بعد غزہ فلسطین میں اپنی فقہ لکھیں گے اور امام احمد بن حنبل بغداد میں یہی کام کریں گے۔
آپ کو یہ حال سن کر شاک لگ سکتا ہے کہ باقی سب امام دور دراز ملکوں میں ہیں۔ اور نبی کے شہر میں پیدا ہونے اور اور مسجدِ نبوی میں اپنی زندگی کی سب نمازیں پڑھنے والے امام دو ہی ہیں یعنی مالک اور جعفر صادق، اور دونوں ہی اپنی اپنی فقہ میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی وفات کے سو سال بعد ہی مسجدِ نبوی میں نماز کا طریقہ بدل گیا تھا جو ان دونوں اماموں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو اسلامی طریقہ بتایا۔ نہ صرف یہ بلکہ طلاق کے لیے بھی یہ الگ الگ مواقع پردی گئی طلاق کو ہی صحیح سمجھتے ہیں ان دونوں کے نزدیک ایک موقع پر بیس دفعہ دی گئی طلاق بھی ایک ہی شُمار ہو گی۔ ایسے ہی مدینہ کے یہ دونوں امام اکثر مُعاملات میں عقلی دلیلں دیتے ہیں کہ عقل کے استعمال کا حُکم قُرآن میں سات سو چھپن بار ہے اور مدینے میں ابھی مُحمدﷺ کے قائم کردہ اثرات باقی تھے۔
ایسے میں آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک عظیم طالب علم کوفے سے علمِ دین سیکھنے مدینہ آتا ہے، جی ہاں یہ نعمان بن ثابت ہے جسے آپ ابو حنیفہ کہتے ہیں، یہ امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کرتا ہے اور جلد ہی اسکی شہرت پورے مکے مدینے میں پھیل جاتی ہے۔ امام مالک جب بھی اسے ملتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ امام بھی اپنی فقہ لکھ رہا ہے اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے اور رفع یدین نہ کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے جس پر نہ امام مالک اعتراض کرتے ہیں اور نہ امام جعفر صادق بلکہ امام مالک اب بھی جیسے ہی امام ابو حنیفہ کو دیکھتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کے شاگرد پوچھتے ہیں آپ تو کسی کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوتے پھر انکے لئے کیوں کھڑے ہوتے ہیں تو امام مالک کہتے ہیں اسلام کے ایسے عالم اور عاشقِ رسول ﷺ کا احترام مجھ پر واجب ہے۔
واضح رہے کہ امام مالک نے ایک حج کے علاوہ کبھی مدینے سے باہر کا سفر نہیں کیا کہ کہیں محمدﷺ کے شہر سے باہر موت نہ آجائے۔ہر نماز مسجدِ نبوی میں ادا کی کبھی جوتے نہیں پہنے کہ میں کہیں ایسی جگہ جوتا نہ رکھ دوں جہاں محمدﷺ ننگے پاؤں گزرے ہوں۔ کبھی سواری پر نہ بیٹھے کہ کہیں میں کسی ایسی جگہ سوار ہو کر نہ گزر جاؤں جہاں سے محمدﷺ پیدل گزرے ہوں۔ لیکن وہی امام مالک جو رفع یدین اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں ایک ایسے عالم کا احترام کرتے ہیں جو رفع یدین نہ کرنے اور ہاتھ باند ھ کر نماز کا طریقہ بتاتا ہے اور وہ ابو حنیفہ امام جعفر کی شاگردی اختیار کئے ہوئے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور جنہیں اب شیعہ امام سمجھا جاتا ہے۔
غزہ سے ایک اور امام یعنی امام شافعی مدینہ آتے ہیں وہ خود ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اپنی فقہ میں لکھ چکے ہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ روئے زمین پر امام مالک سے بڑا حدیث اور فقہ کا کوئی عالم موجود نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ دیکھ کر آپ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے کہ آپکے دور میں تو رفع یدین، ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اور ایسی ہی دیگر باتوں پر بیسیوں فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور یہ آئمہ کرام ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ اگر کوئی امام کسی دوسرے امام کے علاقے میں جائے تو دوسری فقہ کے لوگ انہیں جماعت کروانے کو کہیں تو وہ اپنے طریقے سے نہیں اسی امام کے طریقے سے نماز پڑھاتا ہے جس امام کی وہ مسجد میں ہے یہ دیکھتے ہی آپکو پتہ چل جائے گا کہ شرپسند آپکو مسلمان سے حیوان بنا رہے تھے۔ بھائیوں کو شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی وغیرہ بنا کر لڑواتے تھے۔ آپکو اپنے دور کے مُلا سے نفرت اور ان آئمہ سے محبت محسوس ہو گی اور آپ مختلف طریقوں سے نماز روزہ اور دیگر عبادات کرنے والے لوگوں کو اختلاف کے باوجود محبت کی نظر سے دیکھ کر اپنے جیسا مسلمان سمجھیں گے۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ فرقوں میں بٹ جانا شرک ہے تو شاید آپکو یقین نہ آئے کیونکہ آپکو کبھی ان آیات کے بارے میں تو نہیں بتایا گیا ہوگا جن میں اللہ کہتا ہے کہ ‘‘اسی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہوجاؤ، اُن مشرکوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور گروہ در گروہ ہوگئے۔ ہر گروہ اسی پر مگن ہے جو اس کے پاس ہے’’۔
کیا اس آیت کے اس کھلے حکم کے بعد بھی آپ دیوبندی، بریلوی، شیعہ، حنفی شافعی یا مالکی کہلوانا پسند کریں گے؟
آپ سب چاہتے ہین کہ قیامت کے دِن حضرت ﷺ آپکی شفاعت کریں لیکن میں آپکو بتاتا چلوں کہ اللہ سورہ انعام کی آیت150میں اپنے نبی کو کیا حکم دے رہے ہیں۔‘‘بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں تقسیم کیا آپﷺ کا کسی چیز میں اس سے کوئی تعلق نہیں’’
کیا یہ آیت جان کر بھی آپ شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ بننا پسند کریں گے یا مسلمان ہونا چاہیں گے؟
جب اسلام آیا تو لوگ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے آپس میں نفرتیں تھیں لیکن اللہ کی رسی یعنی قرآن نے انہیں بھائی بنا دیا، سُنتِ نبوی نے انکے دِل جوڑ دئیے لیکن مسلمان
پھر سے فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن اور جہنم سے قریب تر ہوگئے۔ اللہ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں ‘‘اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جانا’’
کیا آپ اب بھی وہابی، اہلِ حدیث یا اہلِ قرآن جیسے کسی فرقے سے منسوب ہونا پسند کریں گے یامسلمان ہونا چاہتے ہیں؟
کیوں نہ ہم صحابہ کے دور کے مسلمان بن جائیں جو قرآن کو اسلامی علم کا بنیادی ماخذ مانتے تھے۔ان کے سامنے جب کوئی حدیث پیش کی جاتی تو وہ یہ دیکھتے کہ کہیں وہ حدیث قرآن سے تو نہیں ٹکراتی، اگر ایسا ہوتا تو وہ فوراً کہہ دیتے نبیﷺ ایسا نہیں کہہ سکتے، یہ قرآن کے خلاف ہے۔ راوی سے سننے میں غلطی ہوئی ہو گی۔ اگر حدیث قرآن کے خلاف نہ ہو تو اسے سر آنکھوں پر رکھتے۔
کیوں نہ ہم سب اماموں کو اپنا لیں۔ سب کی عزت کریں اور جس امام کی بھی فقہ سے جو حکم آسانیاں پیدا کرے وہ لے لیں لیکن خود کو کسی بھی امام سے منسوب نہ کریں اور بس بغیر کسی فرقہ کے پہلے دور کے مُسلمان بن جائیں۔ کیوں نہ ہم عقل سے کام لینا شروع کر دیں کہ قُرآن عقل کے استعمال کا سینکڑوں بار حکم دیتا ہے۔
میں آپ کو فرقوں سے نکل کر مُحمدﷺ کے دین اور صحابہ اور تمام آئمّہ کے اسلام میں آنے کی دعوت دیتا ہوں۔٭٭٭