ابھی حال ہی میں عمار خان ناصر کی کتاب '' فقہ الحدیث میں احناف کا اصولی منہج '' پڑھی ہے۔ کتاب کے عنوان سے ا لجھن ہوتی ہے کہ اسے سادہ انداز میں ایسے کیوں نہ لکھا گیا کہ حدیث کے بارے میں احناف کا نقطہ نظر یا ایسا ہی کچھ اور۔ بہرحال، کتاب نہایت وقیع، علمی اور شان دار ہے۔ حدیث کے بارے میں حنفی نقطہ نظر کو بخوبی واضح کرتی ہے۔ چند اہم مباحث اُن کے لیے جنہیں ان موضوعات سے دلچسپی ہے۔
قرآن میں ہے کہ آپ اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ وحی ہے جو بیان فرماتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کیا سب کے سب وحی کے مرہون منت تھے یا اس میں آپ کے اجتہاد کو بھی دخل تھا۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ آپ کے ارشادات وحی کے ساتھ ساتھ آپ کے اپنے اجتہاد پر مبنی تھے اور اس اجتہاد میں بعض اوقات صحابہ کا مشورہ بھی شامل ہوتا تھا جیسا کہ اذان کا معاملہ ہے، یا جنگوں میں آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔
قرآن و سنت کے آپس میں تعلق کے بارے میں حنفیہ کہتے ہیں کہ حدیث و سنت قرآن کی تشریح ہے لیکن کسی حدیث سے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے اگر قرآن کی آیت میں اس کی گنجائش ہو، حدیث متواتر ہو یا علماء میں اسے قبولیت حاصل ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو خبر واحد سے قرآن کی آیت میں تخصیص نہیں ہو سکتی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں شریعت کی تعلیم دی لیکن کچھ معاملات عام روزمرہ زندگی سے متعلق ہیں۔ان امور عادیہ میں بھی کیا سنت کی پیروی لازمی ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ امور عادیہ میں سنت کی پیروی لازمی نہیں۔ اسی سلسے میں طب نبوی کی بحث ہے۔ شاہ ولی اللہ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو طب یا ایسے ہی دیگر امور کی تعلیم کے لیے نہیں بلکہ اس لیے مبعوث کیا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو شرائع و احکام سکھائیں۔ احادیث میں طب سے متعلق جو باتیں منقول ہیں اُن کا تعلق امور عادیہ سے ہے اور آپ نے اہل عرب میں عمومی تجربہ و مشاہدہ پر مبنی جو علم مروج تھا، اسی کے کچھ اجزا کو ان احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ طب نبوی کے نام پر آج کل جو کاروبار پھیلا ہوا ہے اس کا اس سنت سے کوئی تعلق نہیں جس کی پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ نبی اللہ علیہ و سلم نے علاج کے جو طریقے بتائے وہ اُس زمانے کے عرب کی طبی معلومات کے حوالے سے تھے، آج کے زمانے میں ہمیں آج کے جدید طبی علم پر ہی انحصار کرنا چاہیے
احناف کے ہاں حدیث کی تشریح اس کی انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ کے پورے نظام کے ساتھ کی جاتی ہے اور کلام کا اصل مقصود متعین کیا جاتا ہے۔ اسی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جن احکام کی بنیاد کسی علت پر ہے تو اس میں حکم کا مقصد اصل میں اُس علت کی ظاہری شکل کی پیروی کرنا ہے۔ اگر علت ختم ہو جائے تو اس کی ظاہری شکل کی پیروی کرنا بھی ختم ہو جاتا ہے۔
قرآن، سنت متواترہ اور اخبار احاد سے جو احکام ملے ہیں، احناف ان کی درجہ بندی کے قائل ہیں۔ جو امور صرف اخبار احاد سے ثابت ہوتے ہوں اور متعلقہ نصوص میں ان پر عمل کرنے کی تاکید بھی پائی جاتی ہو، اُن کا درجہ فرض سے ایک درجہ کم واجب کا ہے۔ تاہم جن احکام کا مدار صرف اخبار احاد پر ہے اور متعلقہ نصوص میں ان پر تاکید نہیں ہے تو ان پر عمل ساری امت پر نہ فرض ہے نہ ہی واجب۔ لوگ انہیں اختیار بھی کر سکتے ہیں اور چھوڑ بھی سکتے ہیں۔
ایک اہم بحث متعارض روایات، خصوصاً وہ روایات جو نماز سے متعلق ہیں، کے بارے میں ہے۔ مثال کے طور پر نماز کے لیے اقامت کے کلمات کو ایک دفعہ کہنا ہے یا دو دفعہ، فجر اندھیرے میں ہویا ذرا دیر میں، قیام میں ہاتھ سینے پر یا ناف کے نیچے باندھنا، رفع یدین کرنا یا نہیں کرنا، آمین بلند آواز سے کہنا یا آہستہ، سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے یا بعد اور اسی نوعیت کے بے شمار مسائل۔ احناف میں اس بارے میں دو رحجانات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں ایک کو ترجیح حاصل ہے اور اس کے مقابل دوسری منسوخ ہے۔ دوسرا یہ کہ دونوں کی اجازت دی گئی ہے اور اختلاف تنوع و وسعت کا ہے۔حنفیہ بالعموم ترجیح کا طریقہ اختیار کرتے ہیں لیکن کہیں دونوں کو صحیح کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو عام طور پر ترجیح دی گئی ہے لیکن شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ باندھنا یا ناف کے نیچے، دونوں درست ہیں۔ اسی طرح آمین کہنے کے معاملے میں حنفی فقہاء ان روایات کو ترجیح دیتے ہیں جو آہستہ آمین کہنے کے بارے میں ہیں۔ تاہم بعض لوگوں نے دونوں کو جائز کہا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا کہنا ہے کہ دونوں صحیح ہیں۔ بلند آواز سے جائز ہے اور آہستہ مسنون۔ جنہوں نے آمین بالجہر کو نا پسند کیا ہے اُن کی بات نا مناسب ہے۔ یہی معاملہ رفع یدین کا ہے حنفیہ کا کہنا ہے کہ یہ منسوخ ہے اور ترجیح رفع یدین نہ کرنے کو حاصل ہے۔ شاہ ولی اللہ نے دونوں کو جائز کہا ہے اور رفع یدین کرنے کو افضل کہا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی دونوں کے تواتر کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ جو اسے متروک سمجھتے ہیں وہ غلط ہیں۔
یہ چند ایک مباحث تھے جن کا اختصار سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا انداز نہایت عالمانہ ہے۔ بہت محنت کی گئی ہے، علماء کے پڑھنے کی ہے۔ آج کل کے حنفی جو اپنی علمی روایت کو بھول چکے ہیں، انہیں تو خاص طور پر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کچھ پہلو توجہ طلب ہیں۔ یہ کتاب اصل میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے اس لیے اس کا انداز، اسلوب اور بیان کچھ خشک سا ہو گیا ہے۔ کچھ ایسے عنوانات، جو میرے خیال میں، عام دلچسپی کے ہو سکتے تھے اور جن کی وضاحت کی ضرورت ہے، وہ اس میں نہیں ہیں۔ مثال کے طور امام ابو حنیفہ کی سوانح کا کچھ تو ذکر ہوتا۔ اس پر بھی بات ہونی چاہیے تھی کہ ان کے استنباط کا طریقہ اور حدیث کے بارے میں عمومی طرز عمل کیا تھا؟ ایک تفصیل ہم جیسے عامیوں کے لیے اس مضمون کی ضروری تھی کہ متقدمین حنفی فقہاء اور متاخرین حنفی علماء کون کون سے ہیں اور اگر ان میں کوئی فرق ہے تو وہ کیا ہے؟ اس کتاب میں مراجع سے استفادہ کا کوئی اصول طے کیا گیا ہے، اگر ایسا کوئی اصول ہے تو وہ کیا ہے؟
کتاب کے عنوانات کی ترتیب سے امام شافعی کا'' الرسالہ'' ذہن میں آ جاتا ہے۔موجودہ دور کے بعض مباحث، جن کا بہت چرچا ہے، اس میں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر حدیث و سنت میں فرق کی بحث۔ یہ تو بیان ہوا ہے کہ حنفیہ عموم بلویٰ میں خبر واحد کو اہمیت نہیں دیتے لیکن سنت و حدیث کے نقل ہونے میں فرق وغیرہ پہلوؤں کو الگ سے بیان نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی ایک اہم معاملہ تقلید کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حنفی علماء محض تقلید کی بنا پر صحیح حدیث کے خلاف
عمل کرتے ہیں۔ کتاب میں الگ سے اس پر کوئی بحث نہیں، جو ہے وہ منتشر و ناتمام ہے۔کتاب میں کہیں کہِیں احناف کا شوافع سے تقابل کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مالکیہ کا ذکر نہیں ہے۔ نماز کے طریقے میں اہل حدیث اور حنفی طریقے کی بحث ہے،وہیں امام مالک کے نقطہ نظر پر بھی کچھ روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔
یہ چند ایک پہلو ہیں، جو مجھے تشنہ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن بہرحال اس علمی کاوش پر عمار خان ناصر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
٭٭٭