بیٹےکےنام

مصنف : ابن جوزی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2018

علامہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ کا بیٹے کی رہنمائی کے لیے اپنی مثال پیش کرنا
"لخت جگر! زندگی کی سانسیں بہت تھوڑی اور قبر کی مدت طویل ہے۔ نیکی کی برکتیں اسی کے حصے میں آتی ہیں، جس نے اپنی خواہشوں پر قابو پا لیا۔ محروم وہی ہے جس نے دنیا کے لیے آخرت سے روگردانی کی۔ اصل کمال علم و عمل کو جمع کرنے میں ہے۔ جس کو یہ نعمتیں حاصل ہو گئیں، اس کا مرتبہ دین و دنیا میں بلند ہوا۔ قرآن مجید، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ، اصحاب کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے حق کی مبارک سیرتیں پیش نظر رکھو تاکہ درجات عالی نصیب ہوں۔
عزیزم! طالب علم کو تحصیل علم کے دوران ہمت و حوصلہ سے کام لینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں تحدیث بالنعمتہ کے طور پر اپنے کچھ حالات تمہیں سناتا ہوں۔ میں جب مدرسہ میں داخل کیا گیا اس وقت چھ سال کا تھا۔ میرے ہم سبق مجھ سے زیادہ عمر کے تھے ۔میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ نہ لیتا، نہ لہو و لعب میں اپنا وقت ضائع کرتا، کبھی اپنے فرائض اور متعلقہ کاموں سے غافل نہیں ہوا۔ جو کچھ استاد سے سنتا اسے یاد کر لیتا۔ میں ہر فن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مشائخ کے حلقوں میں جلد سے جلد پہنچنے کی امکانی سعی کرتا، تیز روی سے میری سانس پھولنے لگتی۔ میرے صبح و شام اسی طرح گزرتے کہ کھانے کا انتظام نہ ہوتا مگر پیدا کرنے والے کا احسان ہے کہ اس نے مجھے مخلوق کے احسان سے بچایا۔
برخوردار! فخر کے طور پر نہیں شکر کی راہ سے کہتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے کلام میں تاثیر بخشی کہ تقریباً دو سو ذمی میرے ہاتھ پر (بہ رضا و رغبت) مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں نے میری مجلس میں توجہ کی۔
میرے بیٹے! غفلت کی نیند سے جاگو، موت سر پر کھڑی ہے ان گھڑیوں پر جو رائیگاں گئیں نادم اور پشیمان ہو اور ہمہ تن تلافی مافات کے لیے سرگرم عمل ہو جاؤ۔
برے ساتھیوں سے بچو، کتابیں تمہاری حقیقی ساتھی ہیں جب تک ایک فن میں مہارت نہ ہو جائے، آگے نہ بڑھو۔ جو لوگ علم و عمل میں درجہ کمال کو پہنچے، ان کے حالات پر نظر رکھو اور کسی چیز میں ان سے کم رہنے پر قناعت نہ کرو۔ خوب سمجھ لو کہ علم ہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے وہ لوگ بھی بہت کچھ ہو جاتے ہیں، جو کچھ نہیں ہوتے۔
اے لخت جگر! دنیا حاصل کرنے کے لیے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا۔ جو شخص قناعت اختیار کر لیتا ہے وہ عزت پاتا ہے۔ ایک شخص بصرہ آیا اور پوچھا شہر کا سردار کون ہے؟ کسی نے کہا حسن بصری۔ اس نے کہا انہیں سرداری کیوں کر مل گئی؟ جواب ملا۔ حسن بصری لوگوں کی دنیا سے بے نیاز ہیں مگر لوگ ان کے علم کے محتاج ہیں۔
میرے والد اچھے کھاتے پیتے تھے، ہزاروں روپے چھوڑ کر انتقال فرمایا۔ میں جوان ہوا تو لوگوں نے مجھے گھر اور بیس دینار دئیے اور کہا یہ تمہارے مال کا ترکہ ہے۔ دیناروں کی میں نے کتابیں خرید لیں۔ گھر بیچ کر علم حاصل کیا، اب میرے پاس کچھ نہیں، خدا کا شکر ہے کہ سب کام ٹھیک ٹھیک انجام پاتے ہیں۔خوب یاد رکھو، جب تقویٰ حاصل ہوتا ہے تو نیکیاں ابھر آتی ہیں۔ متقی کوئی کام نمود و نمائش کے لیے نہیں کرتا اور نہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے دین کو نقصان پہنچے۔ جو شخص اللہ کے حدود کا لحاظ رکھتا ہے، اللہ اس کا لحاظ رکھتا ہے۔ سب سے بہتر خزانہ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو حرام چیزوں سے بچاؤ، زبان کو بدگوئی سے روکو، نفس کو قابو میں رکھو۔تمہیں چاہیے کہ بہت بلند رہو۔ کچھ لوگ صرف زاہد بن کر رہ گئے اور کچھ عالم بن کر۔ ایسے لوگ تھوڑے ہیں جنہوں نے علم و عمل دونوں میں درجہ کمال حاصل کیا۔ میں نے تابعین اور بعد کے لوگوں کے حالات خوب غور سے پڑھے۔ چار آدمی واقعی صاحب کمال نظر آئے۔ سعید بن مسیب، حسن بصری، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل۔ میں نے ان چاروں کے حالات پر الگ الگ مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ آدمی وہ بھی تھے اور ہم بھی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ہمتیں بلند تھیں، ہماری ہمتیں پست ہیں۔ سلف میں عالی ہمت لوگوں کی ایک بڑی جماعت گزری ہے۔ ان کے حالات پڑھنا چاہو تو صفوۃ الصفوۃ پڑھو۔ہمیشہ خیال رکھو کہ علم کے ساتھ عمل ضروری ہے۔ جو لوگ اہل دنیا کے پاس آتے رہتے ہیں، وہ عمل میں کوتاہی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ علم کی برکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ہمیشہ نفس کا محاسبہ کرتے رہو تم اپنے علم سے
جتنا نفع خود اٹھاؤ گے، اسی اعتبار سے سننے والے نفع اٹھائیں گے۔ اگر واعظ خود عمل نہیں کرتا تو دلوں پر اس کے وعظ کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔
تمہارے ذمے لوگوں کے حقوق ہیں مثلاً بیوی، اولاد، اعزہ ان سب کے حقوق پورے کرو۔ اپنے کو بیکار نہ رکھو، نفس کو اچھے اعمال کا عادی بناؤ اور قبر میں وہ سامان بھیجتے رہو کہ جب تم وہاں پہنچو تو درخت بنے۔ اگر کبھی غفلت طاری ہونے لگے تو قبرستان چلے جایا کرو اور موت کو یاد کر لیا کرو۔"
***