آج سے 6 مہینے پہلے، کوئی ہمیں یوں کہہ دیتا کہ:تم عنقریب دیکھو گے یہ چاند تک پہنچ جانے والے ملکوں کے مہذب لوگ دکانوں پر ٹوائلٹ پیپر لینے کے لیئے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن کر آپس میں لڑیں اور مریں گے،اور یورپ کے ملکوں کی طرف چہروں کو ڈھانپنے والے نقاب جیسے ماسک اور ہاتھوں کو اچھی طرح صاف کرنے والی کیمیاویات سے لدے پھندے سمندری جہاز جا رہے ہونگے۔اور دنیا کی سیاستوں کے رخ موڑ دینے والا طاقتور ترین امریکی صدر ٹرمپ خوف کے مارے اپنی سرحدیں بند کرتا پھر رہا ہوگا اور دنیا کے باقی ملکوں سے مدد کی اپیلیں کر رہا ہوگا۔
اپنے پیروں کی کھجلی کے لیئے دنیا کی ایک نکڑ سے اڑ کر دوسری نکڑ پر جا کر علاج کرا سکنے والا امیر کبیر شخص بھی اپنی موت جیسے سنجیدہ مرض کا علاج کرانے کے لیئے کہیں آنے جانے سے معذور ہوگا۔لاکھوں کروڑوں لوگ اپنے گھروں میں بند بیٹھے ہونگے اور کہیں آ جا نہیں سکیں گے۔حرم کا طواف روک دیا جائیگا۔مسجد نبوی شریف کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔ لوگ مسجدوں میں جمعے کی نماز تک نہیں پڑھ سکیں گے،قبرستانوں میں جنازے ہوں گے مگر پڑھنے والے اکا دکا ہوں گے۔ کھیلوں کے سارے مقابلے معطل ہو جائیں گے۔ساری محفلیں، پارٹیاں اور کانفرنسیں برخواست کر دی جائیں گی۔
انتہائی طبی نگہداشت کے کمرے اور مصنوعی سانس لینے کی مشینیں جنگی صلاحیتیوں اور ساز و سامان پر فوقیت پا جائیں گی۔
تو کیا ہم یہ سب کچھ مان جاتے؟
دیکھیے ہوتا یوں ہے کہ بعض اوقات تفصیلات سے مغلوب ہوجانے کی وجہ سے سے ہم پوری تصویر نہیں دیکھ پاتے، اور خبروں کی دہشت و گھبراہٹ ہمیں جو کچھ ہو رہا ہے کے معنی نہیں سمجھنے دیتی۔لیکن آج تو آئسولیشن کا زمانہ چل رہا ہے، اگر آج ان آیات کے معانی پر غور نہ کیا تو پھر شاید کبھی نہ ہو سکے:
جیسے:
اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامن رحمت کے سوا نہیں ہے (التوبۃ-118)
یا جیسے:
اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے (الإسراء-185)
یا جیسے:
اور انسان تو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے (النساء-28)
یا جیسے:
اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کے قلعے انہیں خدا سے بچالیں گے (الحشر2)
یا جیسے:
اور ہم تو نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لئے بھیجتے ہیں (الإسراء-59)
تو کیا پھر غور کرنا شروع کریں ان آیات پر؟