سوال : آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟
جواب : میرا نام الحمد للہ محمد انس ہے ، ۲۴مئی ۲۰۰۰ ء کو اللہ نے مجھے پھلت میں آپ کے والد صاحب کے ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت عطا فرمائی میرااصلی وطن کلکتہ ہے میرا پہلا نام ’ورن کمار چکراورتی ‘تھا ہم لوگ چکرورتی بر ہمن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے والد شری ارون کمار جی بڑے تاجر تھے ہم لوگوں کا کلکتہ کے ایک بڑے بازار میں چمڑے کی جیکٹ، پرس وغیرہ کا کاروبار تھا۔ میں سب سے بڑابھائی ہوں مجھ سے چھوٹے دو بھائی اور بہن ہیں ایک بہن اور ایک بھائی زیر تعلیم ہیں ۔ میں نے انگریزی میں ایم اے کیا ہے۔ میراارادہ انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنے کا تھا مگر میرے والد کی بیماری اور ان کے انتقال کی وجہ سے مجھے اپنی تعلیم چھوڑ نی پڑی اور دوکان پر بیٹھنا پڑا۔بعد میں مجھ سے چھوٹے بھائی بھی دوکان میں بیٹھنے لگے ۔ میری ایک بڑی بہن جو مجھ سے دوسال بڑی تھی شادی کے دوسال بعد انتقال کرگئیں، وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔
سوال : آپ اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں ذرا بتائیں ؟
جواب : ۱۹۹۷ ء میں میرے والد کے پیٹ میں درد ہوا کئی روز تک شدید تکلیف ہوئی بعد میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی آنت میں کینسر ہے۔ آپریشن ہوا کچھ وقت کے لئے فوری آرام ہوگیا مگر پھر تکلیف بڑھی اور ڈیڑھ سال سخت تکلیف کے بعد ۱۶ مارچ ۱۹۹۹ ء میں ان کا دیہانت(انتقال ) ہوگیا۔ ان کے کریا کرم میں بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے مجھے ہی آگ لگانی تھی آگ لگانے اور جلانے کا درشیہ (منظر) میرے لئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ اس کریا کرم اور اس میں پنڈتوں کے ڈھونگ سے اور ایسے غم کے موقع پر طرح طرح کے مطالبات سے مجھے ہندودھرم سے نفرت سی ہوگئی، مگر یہ نفرت ایسی نہیں تھی کہ میں کوئی بڑاقدم اٹھاتا۔ پانچ مہینے بعد میری بہن کو دماغی بخار ہوا اور وہ ایک مہینے بیمار پڑ کر انتقال کر گئی وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھی مجھے بھی اس سے حددرجہ محبت تھی۔ وہ چھ سات مہینے کی حاملہ تھی ان کی انتی سٹھی ( یعنی مرنے کے بعد کی آخری رسومات ) کے لئے ہم شمشان لے کر گئے وہاں کے پجاری پنڈت جی نے لاش کو دیکھ کر کہا کہ اس عورت کے پیٹ میں بچہ ہے ، اس کو تو جلایا نہیں جاسکتا اس کو تو گاڑنا (دفن) کرنا ہوگا اس بچہ کو اسکے پیٹ سے نکالو ۔ میں نے پنڈت جی سے کہا کہ اب مری ہوئی اس بہن کا پیٹ پھاڑا جائے گا؟ ہم سے یہ نہیں ہوگا، انہوں نے کہا تو پھر ہمارے شمشان میں یہ نہیں ہوسکتا ۔ ہم نے کہا کہ ہم خود جلالیں گے ، انہوں نے کہا کہ شمشان سے باہر کہیں اور اس کا کریا کرم کرلو میں نے رشتہ داروں سے اصرار کیا کہ کہیں دوسری جگہ لے چلتے ہیں مگر وہ نہ مانے کہ یہ دھارمک بندھن (مذہبی پابندیاں ) ہیں انکو ماننا چاہئے۔اتنے سارے لوگوں کے سامنے میری نہ چلی اور میرے سامنے میری بہن کو ننگا کر کے اس کا پیٹ چیرا گیا اور اس کا بچہ نکالا گیا ۔ میرا دل بہت ٹوٹ گیاا ور میں ہندودھرم کو تھوک کر کلکتہ سے آگیا اور گھر بار چھوڑ آیا۔ کچھ دن پٹنہ رہا وہاں ایک ڈاکٹر صاحب کے یہاں چھوٹے سے نرسنگ ہوم پر اسپتال میں ملازمت کرلی۔ ڈاکٹر صاحب مسلمان تھے چند روز بعد جب بے تکلفی ہوئی تو میں نے ان سے اپنی دکھی داستان سنائی، وہ بہت متاثر ہوئے اور مجھے اسلام قبول کرنے کا اور مجھے دہلی جانے کا مشورہ دیا۔ میں جامع مسجد گیا شاہی امام عبداللہ بخاری سے ملا ، انہوں نے کچھ مؤقر لوگوں کی تصدیق مانگی جو میرے پاس نہیں تھی۔ اسکے بعد میں ابوالفضل جماعت اسلامی کے دفتر گیا وہاں مولانا لوگوں نے مجھ سے بہت سوالات کیے پریشاں حالی اور ذہنی انتشار کی وجہ سے شاید میں انکو مطمئن نہیں کرسکا اور ان کو شک ہوا اسلئے وہ مجھے کلمہ پڑھوانے میں دیر کرتے رہے ۔ دوروز میں وہاں رہا، مجھے بھی چوروں اور مجرموں کی طرح تفتیش سے تکلیف ہوئی اور میں وہاں سے چلا آیا۔ تین ماہ تک میں کسی روزگار کی تلاش کے لئے اور قبول اسلام کے لئے بہت سے مولانا اور اماموں کے پاس گیا، مگر نہ جانے کیوں ہر آدمی ڈرتا رہا۔ میں نے پٹنہ واپسی کی سوچی اس لئے کہ نہ مجھے کوئی روز گارمل سکا اور نہ ہی چھتیس لوگوں کے پاس جانے کے باوجود مجھے کسی نے کلمہ پڑھوایا۔ میں نے چار روز مزدوری کی اور کرائے کے پیسوں کا انتظام کرکے پٹنہ واپسی کے ارادہ سے نئی دہلی اسٹیشن آ گیا۔ ٹرین آنے میں دیر تھی پلیٹ فارم پر میری ملاقات جوالا پور ہردوار کے ایک مولانا اسلم صاحب سے ہوئی ۔بات بات میں تعارف ہوا مولانا سمجھ کر میں نے ایک بار ان سے بھی اپنے اسلام قبول کرنے کے ارادہ کو ظاہر کیا اور اتنے لوگوں کے پاس جانے کے باوجود نا کامی پر اپنے دکھ کا اظہار کیا انھوں نے تعجب کیا کہ آپ کو کسی نے پھلت کا پتہ نہیں بتایا۔ میں نے کہا پھلت میں کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ آپ پھلت جائیں آپ کو کسی فکر کی ضرورت نہیں اور انہوں نے ساتھ چلنے کے لئے کہا اورکہا میں آپ کو پھلت مولانا کلیم صاحب سے ملا کر پھر جوالاپور چلاجاؤں گا۔ بیچارے میرا ٹکٹ لیکر خودواپس کرکے آئے اور میرا ٹکٹ خود خرید ااور کھتولی پہنچے دوسری سواری سے دن چھپنے کے بعدپھلت پہنچے مولانا کلیم صاحب باہر اپنی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ہمارے ساتھ جانے والے مولانا صاحب کو جانتے تھے ۔جاتے ہی مولانا سے میرا تعارف کرایا مولانا کلیم صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ آپ نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ؟ میں نے کہا کہ بہت سوچ سمجھ کر ، جب میں اتنے روز سے دھکے کھارہا ہوں اتنے لوگوں کے پاس جاچکا ہوں تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا۔ مولانا کھڑے ہوگئے مجھے گلے لگایا اور کہنے لگے آپ کھڑے کھڑے کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں تو کھڑے کھڑے پڑھ لیجئے ورنہ بیٹھ جائیے ۔ میں بیٹھ گیا فوراََ پڑھوایا بعد میں اس کا ترجمہ کہلوایا اور میرا نام معلوم کے کے میرا اسلامی نام محمد انس رکھ دیا۔ الحمدللہ
سوال : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے کیسامحسوس کیا ؟
جواب : آپ کے والد صاحب کے پیار سے گلے لگانے اور بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے پہلے مرحلہ میں مجھے کلمہ پڑھوانے سے میری ساری تھکن دور ہوگئی۔ اتنی جگہ دردر مارے مارے پھرنے کا غم بالکل دھل گیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میں تو مسلمان ہونے کے لئے پیدا کیا گیا تھا بلکہ جیسے جیسے میں اسلام کو سمجھتا اور مانتا گیا مجھے یہ محسوس ہوتا گیا کہ میں فطرتاََ مسلمان ہی پیدا ہوا تھا ۔ جو غلط ماحول میں رہنے کی وجہ سے میں کچھ روز ہندو رہا۔ ۲۴ مئی ۲۰۰۰ ء کو جس روز میں نے اسلام قبول کیا مولانا صاحب کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بعد میں مولانا صاحب نے لوگوں سے میرا تعارف کرایا ، مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ صبح سے آج وہاں ۹ لوگ اسلام قبول کرنے آچکے ہیں اور اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مجھ سے پہلے آٹھ اور میں خود نواں تھا ہم ۹ میں سے ایک آدمی کو بھی کسی مسلمان نے اسلام کی دعوت نہیں دی تھی ، کسی کو اسلام کی کسی چیز میں کشش محسوس ہوئی، کسی کو خود اسلام کو پڑھنے کا شوق ہوا اور اکثر کو اپنے مذہب کے اندھ وشواسوں اور اندھی رسموں سے ری ایکشن (انفعال) نے اسلام کی طرف آنے کو کہا ۔ مولانا صاحب نے بتایا کہ ان ۹ کے علاوہ صبح تڑکے فیروزپور کی ایک بہن کو مولانا صاحب نے فون پر کلمہ پڑھایا ان کا نام آشا تھا ، مولانا صاحب نے ان کا نام عائشہ رکھا۔
سوال : اس کے بعد آپکی تعلیم وتربیت کا کیا ہوا؟
جواب : جوالاپور والے مولانا صاحب رات کو چلے گئے، مولانا کلیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہاں آپ کا گھر ہے اطمینان سے رہئے ، انشاء اللہ کل آگے کے لئے مشورہ کرلیں گے۔ ۲۵مئی کو مولانا صاحب سے کچھ مہمان ملنے آئے، مولانا صاحب نے کل صبح فون پر جن بہن کو کلمہ پڑھوایا تھا انکا قصہ بتایا کہ وہ پھلت آکر کلمہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میرے دل میں آیا کہ موت زندگی کا کچھ پتہ نہیں، اسلئے فون پر ہی کلمہ پڑھنے کے لئے اصرار کیا وہ پھلت آکرکلمہ پڑھنے پر اصرارکرتی رہی مگر میں نے بہت اصرارکیاوہ مان گئی اور آج مالیر کوٹلہ سے ایک بہن کا فون آیا کہ وہ عائشہ بہن جن کو کلمہ پڑھوایا گیا تھا ان کا رات میں انتقال ہوگیا۔ خود مولانا صاحب پر اس کا بڑا اثر تھا مجھ پر بھی بڑا اثر ہوا میں نے مولانا صاحب کی کتاب آپ کی امانت آپ کی سیوا میں پڑھ لی تھی مجھ پر بجلی سے کوند گئی اگر اسلام قبول کرنے سے پہلے مرگیا ہوتا ہو میرا کیا ہوتا؟ اور ان سبھی لوگوں پر غصہ بھی آیا کہ ایک منٹ کے کلمہ پڑھوانے کے کام میں اتنا ڈرتے رہے ۔ میں نے مولانا صاحب سے اس کا اظہار بھی کیاا ور کہا کہ اگر اس دوران میری موت آجاتی تو میرا کیا ہوتا؟ مولانا صاحب نے مجھے تسلی دی کہ ٓاپ تو ارادہ اور پکے نیت سے چل رہے تھے تو آپ نے جب ارادہ کرلیا تھا اس وقت سے مسلمان ہوگئے تھے آپ کی موت اگر آتی تو ایمان پر آتی اور مجھے سمجھایا کہ زمانہ خراب ہے بہت سازشیں چل رہی ہیں لوگ دھوکہ دیتے ہیں اس لئے لوگ احتیاط کرتے ہیں۔ اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو آپ ان سے زیادہ احتیاط کرتے میں نے ان سے کہا کہ آپ نے فوراََ کلمہ کیوں پڑھوادیا تو کہنے لگے ہم تو دیہاتی گنوارلوگ ہیں، گاؤں کے لوگوں کو اتنا ہوش نہیں ہوتا کہ بہت دور کی سوچیں ہم تو سوچتے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائیگا آج تو ہم اپنا دل خوش کرلیں کہ ہمارا خونی رشتہ کا ایک بھائی ہمارے سامنے کفروشرک اور اس کے نتیجہ میں دوزخ کی آگ سے بچ کر اسلام اور جنت کے سائے میں آگیا ہے کل کو اللہ مالک ہے۔ سازش ہوگی یا جو ہوگادیکھا جائے گا۔
سوال : اس کے بعد کیاہوا۔
جواب : مولانا صاحب نے مجھے جماعت میں وقت لگانے کا مشورہ دیا، میں نے کہا آپ جو کہیں میں تیار ہوں ۔تیسرے روز مجھے مولاناصاحب دہلی لے گئے میرے ساتھ دو نو مسلم ساتھی اور بھی تھے مولانا صاحب کے بہنوئی ہم تینوں کو مرکز نظام الدین لے گئے اور ایک جماعت میں ہمارا نام لکھوایا جو اگلے روز صبح کو ۱۰ بجے فیروزآباد جانی تھی۔ صبح کو امیر صاحب نے ساتھیوں کو اکٹھا کیا ہمارے ساتھ سہارنپور کے گاؤں کے ایک ساتھی عبداللہ بھی تھے انہوں نے ایک ساتھی سے بتلادیا کہ ہم تینوں نو مسلم ہیں ۔ انہوں نے امیر صاحب سے بتادیا امیر صاحب ہمیں میوات کے ایک میاں جی جو جماعتوں کے بھیجنے کے ذمہ دار ہیں انکے پاس لے گئے انہوں نے ہم سے معلوم کیا کہ آپ نے قانونی کارروائی کرالی؟ ہم نے بتایا کہ ہم آکر کرائیں گے ، انہوں نے ہمیں جماعت میں جانے سے روک دیا کہ آپ واپس جائیں ہم تینوں ساتھیوں کو بہت تکلیف ہوئی ہم لوگوں نے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے۔ ہمارے تیسرے ساتھی ذرا غصہ والے تھے بلال بھائی جو آگرہ کے پاس فتح پورکے رہنے والے تھے وہ کہنے لگے کہ اپنے گھر چلو ، یوں کب تک دھکے کھاتے رہیں گے ؟ میں نے ان سے کہا کہ نہیں یہ شیطان ہمیں اسلام سے محروم کرنا چاہتا ہے ، ہمیں پھلت جانا چاہئے ہم لوگ پھلت پہنچے مولانا صاحب تین روز کے بعد سفر سے لوٹے۔ ہمیں پھلت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئے پوچھا آپ لوگ جماعت سے کیوں آگئے ؟ میں نے سارا واقعہ سنایا اور مجھے بہت روناآیا ، مولانا صاحب نے پھر مجھے گلے سے لگالیا اور ہم سے کہا کہ آپ نے یہ کیوں بتایا کہ ہم نو مسلم ہیں آپ نو مسلم کہاں ہیں ؟ پیارے نبی ﷺکی بات کو سچا جاننا ہی تو اسلام وایمان ہے ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا اسلامی فطرت پر یعنی مسلمان پیدا ہوتا ہے ، اس کے والدین اسکو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں ، تو آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں۔ ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتاہے تو آپ نو مسلم کہاں ہیں ؟ پیدائشی مسلمان نو مسلم کہا ں ہوتا ہے ؟ آپ کچھ روز کے لئے مرتد ہوگئے تھے، ہندوبن گئے تھے، آپ نے ہی غلطی کی کہ اپنے کو نو مسلم کہا ، آپ دیکھیں گے کہ ہر بچہ کسی بھی مذہب کا ہو اسکو دفنایا جاتا ہے جلایا نہیں جاتا اللہ نے انتظام کیا ہے کہ اس کے مسلمان ہونے کو وجہ سے اسکو دفنایا جاتا ہے آپ کی بہن کے پیٹ سے بھی بچہ کو نکلواکرجلنے سے بچایا گیا کہ نہیں؟
مولانا نے اس کے بعد مرکز کے لوگوں کی مجبوری سنائی اور کچھ واقعات سنائے کہ کچھ لوگوں نے سازش کرکے جھوٹااسلام ظاہر کیا اور پھر بعد میں پولیس کچہری ہوتی رہی، اسلئے وہ احتیاط کرنے لگے ، ان کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ ہم لوگ مطمئن ہوئے اور غیر آدمی کی طرف سے اس طرح صفائی اور ہر ایک کو بے قصوروار ٹھہرانے کی بات نے میرے دل میں بہت جگہ بنالی۔ رات کو میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ آپ کے ساتھ دو چار روز رہ کر میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر آپ سے کوئی شیطان کی بھی شکایت کرے گا تو آپ اسکو بھی بے قصور اور اس کی مجبوری ثابت کردیں گے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ میں نے زندگی میں تجربہ کیا کہ کسی بھی برے سے برے آدمی کی جگہ جب میں اپنے کو کھڑا کرتا ہوں کہ میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوتااور ایسے ماحول میں تربیت پاتا اور میری سوچ اور فکر اس طرح کی نہیں ہوتی تو دشمن سے دشمن آدمی کو بھی معذورپاتاہوں بلکہ مجھے تو اکثر خیال ہوتا ہے کہ میں اس سے زیادہ برا ہوتا ۔ مولانا صاحب نے کہا کہ یہ بات آپ کی تسلی یااپنی انکساری کی وجہ سے نہیں کررہا ہوں بلکہ بہت تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہاہوں ۔
سوال : اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ آپ جماعت میں نہیں گئے؟
جواب : اگلے روز بھائی عبدالرشید دوستم کے ساتھ ہم لوگ میرٹھ کچہری گئے تین لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر منشی سراج صاحب بھی پریشان ہوگئے کہنے لگے حضرت سے کہنا کہ ایک ساتھ اتنے لوگوں کو نہ بھیجا کریں۔ کل دو تین لوگ آئے تھے دو روز پہلے دو آئے تھے بہرحال انہوں نے قانونی کارروائی پوری کی۔ دوروز کے بعد پھر ہم مرکز پہنچ گئے جماعت میں نام لکھوالیا الگ الگ جماعتوں میں نام لکھ دیئے گئے ہم نے کسی کو نہیں بتایا کہ ہم نو مسلم ہیں ساراوقت بخیر وعافیت لگا۔ جماعت سے واپس آئے تو معلوم ہوا کہ بلال کو میاں جی نے پہچان لیا تم تو نو مسلم ہو دوچار روز پہلے آئے تھے اس نے کہا نہیں ہم تو پیدائشی مسلمان ہیں ۔ بہت دیر تک بحث ہوئی پھر انہوں نے کاغذات دکھائے اور وہ بھی جماعت میں گئے ۔ہماری جماعت کے امیر صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اردو بھی بہت اٹک اٹک کر پڑھتے تھے۔ انہوں نے ہمیں نماز یا دکرادی ایک نوجوان سے کچھ اردو بھی پڑھ لی مگر یہ میرے اپنے شوق کی وجہ سے ہوا، ہمارا جماعت میں وقت زیادہ اچھا نہیں گزرا ۔ مجھے جماعت میں اس کا احساس ہوا اور روز بروز تقاضا بڑھتا چلاگیاکہ ہم مسلمانوں کو دستر خوان اسلام پہ آنے والے مہمانوں کے لئے ایک تعلیم وتربیت کا نظام قائم کرنا چاہئے ۔اگر ان نئے مسلموں کی تعلیم وتربیت اور معاشرتی مسائل کے حل کا نظام بنالیا جائے تو خود بخود وہ اپنے خاندانوں کے لئے اسلام کی دعوت کا بہترین ذریعہ ہوں گے پھر ہمیں دعوت کے لئے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اسلام ایک روشنی ہے وہ خود اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے اس سلسلے میں کوئی تربیت کا نظام ہو اس کی بڑی ضرورت ہے جماعت میں بھجوانا اس کا مکمل حل نہیں البتہ کچھ فائدہ تو ہوہی جاتا ہے ۔
سوال : اب آپ کیا کررہے ہیں ؟آپ کی شادی ہوگئی ہے کہ نہیں ؟
جواب : میں آج کل پونہ میں رہ رہا ہوں بجنور ضلع کے ایک مولاناصاحب ایک بیکری کا کاروبار کرتے ہیں وہ مجھے مولانا کے حکم سے اپنے ساتھ لے گئے تھے مولانا نسیم ان کا نام ہے ان کی بیکری میں مینجر کی حیثیت سے کام کررہا ہوں۔ الحمدللہ میں نے قرآن بھی پڑھ لیا اور اردو بھی سیکھ لی ہے مولانا صاحب کہتے تھے کہ میری کوئی لڑ کی نہیں ہے ورنہ میں تمہاری شادی ان سے کردیتا۔ ہمارے بیکری کے قریب ایک لڑکی کلکتہ کی رہنے والی تھی کپڑے کے شوروم میں استقبالیہ ریسیپشن پر کام کرتی ہے ایک دو بار کپڑا خریدنے گیا۔ بنگالی ہونے کی وجہ خیریت معلوم کی اس کے ماں باپ کا انتقال ہوگیا تھا شادی شدہ بھائیوں میں وہ بالکل داسیوں کی طرح زندگی گزار رہی تھی میں نے مولانا نسیم صاحب سے ا س کو ملوایا اور اس کو دعوت دی وہ تیا ر ہوگئی۔ مولانا نسیم صاحب نے اس کو اپنی بیٹی بنا لیااور میری شادی اس سے کردی الحمدللہ وہ بہت اچھی مسلمان ہے ملازمت چھوڑدی ہے،مولانا نسیم صاحب کی اہلیہ سے اسلام کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ دو ماہ پہلے میرے ایک لڑکا پیداہوا ،اس کا نام میں نے ابوبکر رکھا میرا ارادہ ہے کہ اس کو عالم حافظ بنائیں گے میری اہلیہ بھی جن کا نام فاطمہ ہے اس کے لئے تیار ہے آپ دعاکردیجئے وہ اچھا داعی بنے۔
سوال : الحمدللہ آپ مطمئن ہیں گھر والوں کیلئے بھی آپ نے کچھ سوچا ؟
جواب : میرے چھوٹے بھائی جو کارو باری ہیں ان کی شادی ہوگئی ہے وہ آج بھی میرا احترام کرتے ہیں۔دو چھوٹے بھائی بہن میرے پاس آگئے ہیں۔ بھائی نے انٹر کا امتحان دیا ہے بہن نے گیارہویں کا امتحان دیا ہے الحمدللہ دونوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے مجھے امید ہے میرے باقی دونوں بھائی بھی اسلام قبول کرلیں گے وہ مجھ پر بہت اعتماد کرتے ہیں ۔میری والدہ نابینا ہوگئی ہیں وہ ذرامذہب کے سلسلے میں سخت ہیں مگر وہ مجھے بہت محبت کرتی ہیں ۔
سوال : بہت بہت شکریہ بات لمبی ہوگئی آپ سے تو بہت باتیں کرنی چاہئیں مگرخیر آئندہ پھر ایک ملاقات کریں گے دوبارہ آپ ادھر آئے تو میرے فون پر مجھے اطلاع کردیں، بتائیے کہ آپ ارمغان کے واسطے سے مسلمانوں سے یا قارئین ارمغان سے کچھ کہنا چاہیں گے ؟
جواب : میں تو اپنی ضرورت ہی پیش کرسکتا ہوں کہ دوسرے مذاہب سے ان اسلام کی طرف آنے والوں کی تربیت اور ان کے معاشرتی مسائل کا نظام بنانا دعوت کی اولین ضرورت ہے ۔اس کے لئے ہمارے بڑوں کو سوچنا چاہئے اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے بس ایک ٹیم کھڑی ہوجائے جو مدینے کی مواخاۃ سے سبق لے کربس یہ کام شروع کردے ۔اگر ایک مسلمان، ایک آدمی یا ایک گھرانے کی ذمہ داری لے لے کہ ان کی تربیت کرے گااورتھوڑی سی رہنمائی اس کے روز گارکے سلسلے میں کرے اور وقتی طور پر کسی کام میں لگا کر بس ضمانت لے لے تو یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے۔ بڑا سرما یہ اکٹھا کرکے اجتماعی نظام تو واقعی ذرا مشکل ہے مگریہ دوسرا طریقہ بہت آسان ہے ۔
بہت بہت شکریہ ۔ہمارے لئے دعا کریں ۔
ہمارے لئے بھی دعا کریں ۔
حفاظت جس سفینے کی انھیں منظور ہوتی ہے
کنارے پر انھیں خود لا کے طوفاں چھوڑ جاتے ہیں
بشکریہ : ماہنامہ ارمغان، مئی 2004