’شین‘ اور’ کاف ‘کالج کے زمانے کے دوست تھے ۔بعد میں دونوں کولیگ بھی بن گئے ۔ اس طرح ان کی دوستی کا رشتہ اوربھی پختہ ہوگیا۔پاور پلانٹ پہ ان دونو ں کی ایک جیسی ذمہ داریاں اور ایک ہی جیسی تنخواہ تھی۔کام کرتے کرتے دس برس بیت گئے تھے۔ ایک دن ’ش‘ نے ’ک‘ کو بتایا کہ وہ اپنے والدین کو عمرے کے لیے بھیج رہا ہے ۔ یہ بات سن کربظاہر تو ’ک‘ نے’ ش‘ کو مبارک باد ، دی لیکن اصل میں اس کا دل مسوس کر رہ گیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ دس برس میں وہ اس قابل بھی نہ ہو سکا کہ وہ اپنے والدین کو عمرہ ہی کروا دیتا۔شام کو اس نے نما ز ادا کی تو یہی سوچ اس پر حاوی تھی ۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گررہے تھے۔ اس نے اپنے رب سے کہا کہ مالک اگر تو مجھے بھی فراخی عطا فرماتا تو میرے والدین بھی عمرے کی سعادت سے بہرہ مند ہو جاتے ۔ دعا میں اس نے اپنے رب سے وعد ہ کیا کہ جوں ہی اس کے پاس اتنی رقم آئی تو سب سے پہلے وہ اپنے والدین کو عمرے کے لیے بھیجے گا۔رب کریم کو اس کی یہ ادا پسند آئی اورچند ہی ماہ بعد اسے ڈیرہ اسماعیل خان میں بہتر جاب مل گئی اس نے لاہور والی جاب سے استعفیٰ دیا اور ڈیرہ میں جاب جوائن کر لی۔ لاہور میں پرانی کمپنی سے اسے گریجوایٹی کی مد میں ایک لاکھ اسی ہزار ملے ۔ اور یہ رقم اتنی تھی کہ اس کے والدین بآسانی عمرہ ادا کر سکتے تھے ۔ لیکن اب شیطان نے اپنا کام شروع کر دیااور اسے مستقبل کالالچ دے کر سمجھایا کہ اتنی رقم کا پلاٹ خرید لو جو چند ہی سالوں میں دگنی قیمت کا ہو جائے گا۔اس نے شیطان سے کہا کہ اس نے تو اس رقم سے والدین کو عمرہ کے لیے بھیجنا ہے ۔ شیطان نے کہا ، ’’میں کون سا روکتا ہوں ،میں تو یہ کہتا ہوں کہ بس تھوڑ ا سا مؤخر کرلو، والدین کو پھر عمرے کے لیے بھیج دینا۔ پہلے پلاٹ خرید لو ، پھر چند سال بعد اس کو بیچ دینا۔ اس سے تمہیں اتنا منافع حاصل ہو جائے گا کہ تم والدین کو آسانی سے عمرے کے لیے بھی بھیج سکو گے اور تمہاری اصل رقم بھی محفوظ رہے گی‘‘۔شیطان نے اس پر اپنا سب سے قیمتی داؤ استعمال کیا تھا۔ یعنی جب شیطان کسی نیک اورباہمت انسان کو کسی نیکی سے ہٹانا چاہتا ہے تو اسے یہ نہیں کہتا کہ فلاں نیکی نہ کرو بلکہ اسے یہ کہتا ہے کہ پھر کر لینا، تھوڑا موخر کر لو۔ اور پھر موخر کرتے کرتے بالآخر وہ نیکی کو بھول جاتا ہے۔ایک بار پھر اللہ نے اس کی مدد کی اور ایک فرشتہ بھیجا، جس نے اس کے دل میں ڈالا کہ شیطان کے بہکاوے میں نہ آنا ۔ اللہ سے کیا اپنا وعدہ پور اکرو ،پھر دیکھو اللہ کیسے تمہارا ساتھ دیتا ہے ۔خیر اور شر کی اس کشمکش میںآخر کا رخیر کا رنگ غالب آیا۔ اور اس نے باقی سب کا م موخر کرکے وہ رقم ایک ایجنٹ کے حوالے کر دی اور اپنے والدین کوعمرے کی تیاری کی نوید سنا دی۔الحمد للہ اس کی یہ کوشش کامیاب رہی اورپھر ایک دن آیاکہ جب وہ ۲۱ دن بعد اپنے والدین کو عمرے کے سفر سے واپسی پر ایر پورٹ پہ رسیو کر رہا تھا ۔وہ بھی اپنا وعدہ پورا کرنے پہ خوش تھا اور اس کے والدین بھی انتہائی خوش کہ ان کو یہ مبار ک سفر نصیب ہوا۔
اس کی تمام جمع پونچی ختم ہو چکی تھی لیکن وہ مطمئن تھا کہ اس کا اصل مقصد پورا ہوا اوروہ شیطان کے ہتھکنڈے سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔اِ دھر یہ امتحان میں کامیاب ہوا او ر اُدھر اللہ نے کائناتی نظام کو گرین سگنل دے دیا۔ اب یہ نظام اس کو انعام دینے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ ایک دن ’ک ‘کو پتہ چلا کہ ہالینڈ کی ایک کمپنی کو افریقہ میں انجینئر درکار ہیں۔ اس نے درخواست د ے دی۔ اور اسے پتہ بھی نہ چلا کہ اس کی سلیکشن بھی ہو گئی اور اسے وہاں جانے کابلاوا بھی آگیا۔وہ خوشی خوشی سینیگال سدھار گیا۔ پہلے ہی ماہ جو چند دن اس نے کام کیا تھا، ان دنوں کی تنخواہ جب اس کے ہاتھ میں تھمائی گئی تو وہ یہ دیکھ کر حیرا ن رہ گیاکہ وہ پورے ایک لاکھ اسی ہزار تھی ۔یہ وہی رقم تھی جو اس نے اپنے والدین کے عمرے کے لیے خرچ کی تھی۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ واقعی اللہ والدین کی خدمت کاصلہ ادھار نہیں رکھتا ۔یہ ایک ایسی نیکی ہے جس کا صلہ وہ اس دنیا میں بھی دیتا ہے اورآخرت میں تو بے حد و حساب دے گا۔
اللہ نے فوراً ہی اس کا اصل زر واپس کر دیا تھا اور بعد کے سالوں میں تو اللہ نے اس پر جو انعام کیا تو وہ پکار اٹھا کہ مالک یہ محض تیرا فضل وکرم ہے ورنہ میرے جیسے کتنے ہیں جو ہاتھوں میں اعلیٰ ڈگریا ں تھامے سڑکوں پہ دھکے کھا رہے ہیں جبکہ کتنے ہی ایسے ہیں جو میری جیسی تعلیم و تجربے کے ساتھ ہزاروں میں کما رہے ہیں جبکہ میں لاکھوں میں کما رہا ہوں۔اور اب تو اس کا یقین اس حد تک پختہ ہو گیا ہے کہ وہ دوسروں کو کہتا پھرتا ہے کہ لوگو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے کبھی دریغ نہ کرنا کیونکہ وہ مالک توایسا ہے جو انفاق کو اپنے ذمے قرض قراردیتا ہے اور اللہ سے بہتر کون ہے جو قرض کو احسن طریقے سے واپس کرے۔ من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا۔۔۔