فتح مکہ (8ھ) کے بعد جب قبائل عرب کو اندازہ ہو گیا کہ اب اسلام کی پیش قدمی کو روکنا ممکن نہیں ہے اور وہ چاہے جتنی کوشش کر لیں ، اہل اسلام کو شکست نہیں دے سکتے ،تو انہوں نے اپنے رویہ پر غور کیا۔ انہیں کوئی راہ نجات نظر نہیں آئی ،سوائے اس کے کہ سر تسلیم خم کر دیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں۔چناں چہ انہوں نے اپنے وفود رسول ﷺ کی خدمت میں بھیجے ، جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اطاعت کا عہد کیا۔مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ستر(70) سے زائد ایسے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔اسی وجہ سے اس زمانے کو عام الوفود کہا گیا ہے۔ان وفود میں ایک وفد قبیلہ ثقیف کا بھی تھا۔ قبیلہ ثقیف کا شمار عرب کے طاقتور اور جنگ جو قبائل میں ہوتا تھا۔یہ طائف میں آباد تھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہجرتِ مدینہ سے قبل اللہ کے رسول ﷺ دعوت کے نئے افق تلاش کرنے کی غرض سے طائف تشریف لے گئے تھے ،تو اسی قبیلے کے افراد نے آپ کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا تھا۔اور آپ کو شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی تھیں۔فتح مکہ کے بعد بہت سے قبائل نے اطاعت قبول کر لی ،لیکن ہوازن اور ثقیف کا دل نہ پسیجا اور وہ لوگ اپنی طاقت کے زعم میں رہے۔انہوں نے بہت بڑی جمعیت اکٹھا کی اور اوطاس (مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام )میں خیمہ زن ہوئے۔رسول ﷺ کو جب اس بات کی خبر ملی تو آپ نے ان کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور مسلم لشکر کے ساتھ ان کی طرف کوچ کیا۔اہل ہوازن و ثقیف نے فوجی دستوں کو وادی حنین میں تعینات کر دیا ،جنہوں نے وادی کے مختلف حصوں میں کمیں گاہی اور مورچے بنا لیے۔جوں ہی مسلمان وہاں پہنچے ان پر ہر طرف سے تیر برسنے لگے۔اچانک حملے سے مسلمانوں پر بد حواسی طاری ہو گئی ،شہ سوار چھٹ گئے۔فوج تتر بتر ہو گئی۔بد حواسی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو دوسرے کی خبر نہ تھی مگر بہت جلد مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ہوازن اور ثقیف کو شکست ہوئی بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔ شکست خوردہ فوج نے طائف میں جا کر پناہ لی اور قلعہ بند ہو گئی۔رسول ﷺ نے صحابہ کے ساتھ طائف کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر محاصرہ کرلیا۔ثقیف نے اپنے قلعوں سے مسلمانوں پر خوب تیر برسائے جس سے متعدد مسلمان شہید ہو گئے۔طائف کا محاصرہ تقریبا بیس روز تک جاری رہا مگر شہر فتح نہ ہو سکا۔با لاآخر رسول ﷺ نے محاصرہ اٹھا کر واپسی کا اعلان فرما دیا۔ اس موقع پر بعض صحابہ نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول قبیلہ ثقیف کے لیے بد دعا کر دیجیے۔آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے : اللہم اھد ثقیفا و ائت بھم ، اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو میرے پاس بھیج دے۔ بقول سید سلیمان ندوی :’’یہ دعائے نبوی کا اعجاز تھا کہ وہ قبیلہ جو تلوار کے زیر نہ ہو سکا تھا ،دفعتاً جلالِ نبوت نے اس کی گردن آستانہ اسلام پر جھکادی اور پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔‘‘
چند روز بعد قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ ایک وفد رسول ﷺ کی خدمت میں بھیجا جائے۔ سفارت نے مدینہ کا رخ کیا بستی کے قریب اس کی ملاقات حضرت مغیرہ بن شعبہ سے ہو گئی۔ان کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔وہ دوڑے کہ رسول ﷺ کو اس کی آمد کی خبر پہنچائیں۔راستے میں ان کی ملاقات ابوبکر صدیقؓ سے ہو گئی۔ان کو معلوم ہوا تو مغیرہ کو قسم دلائی کہ یہ خوشخبری مجھے پہنچانے دو۔اس وفد کی آمد پر رسول ﷺ نے بھی مسرت کا اظہار کیا۔وفد ثقیف کو مسجد نبوی میں ٹہرایا گیا، صحن مسجد میں خیمے نصب کیے تھے۔یہ لوگ نماز اور خطبہ کے وقت موجود رہتے تھے مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے اور قرآن سنتے تھے۔ یہ وفد چند دن ٹھرا۔اس عرصہ میں وقتاً فوقتاً رسول ﷺ کی خدمت میں حاضری دیتا ،اور آپ بھی ان کے پاس آتے جاتے رہے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے ۔ ابن سعد نے لکھا ہے :کہ آں حضرت ان لوگوں کے پاس ہر رات عشاء کے بعد تشریف لے جاتے تھے اور کھڑے کھڑے ان سے گفتگو فرماتے تھے۔زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپ تھکن محسوس کرتے تو پہلو بدل لیتے تھے ۔ اس وفد میں عثمان بن ابی العاس نامی ایک نوجوان بھی تھا۔ارکانِ وفد نبی کی خدمت میں جاتے تو اسے بچہ سمجھ کر خیمے میں چھوڑ جاتے۔خدمت نبوی میں حاضری سے محرومی اور تعلیمات اسلام سیکھنے کی تڑپ اسے بے چین کیے رہتی چنانچہ جب وہ لوگ واپس آکر دوپہر میں آرام کرتے تو عثمان آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔آپ سے قرآن سن کر یاد کرتا اور آپ سے دین کی معلومات حاصل کرتا۔کسی موقع پر اگر وہ آپ کو سوتا ہوا پاتا تو حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوتااور ان سے دین سیکھتا۔یہ کام وہ اپنے قبیلے والوں سے چھپ کر کرتا تھا۔اس کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر رسول کو بہت خوشی ہوئی۔ ارکان وفد کو اسلام کی بنیادی تعلیمات بتائی گئیں تو انہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل رسول ﷺ کے سامنے چند شرطیں رکھیں۔ اس سلسلے میں سربراہِ وفد کنانہ بن عبد یالیل سے یہ گفتگو ہوئی :
اس نے کہا : ہمیں کثرت کے سفر کرنا پڑتا ہے ،ہمارے لیے جنسی جذبہ پر قابو پانا مشکل ہے ،ہمیں اس کی اجازت دے دیجئیے۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :وہ تم پر حرام ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلاَ تَقرَبْوا الزِّنَی ِنَّہْ کَانَ فَاحِشۃًَ وَسَاء سَبِیلاً (الاسراء :32) (زناکے قریب نہ بھٹکو۔وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ ہے۔) (2) اس نے کہا :ہماری ساری تجارت سود پر مبنی ہے ہمیں سود لینے کی اجازت دے دیجئیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :تمہیں صرف اصل سرمایہ لینے کا حق ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے : یَا َیّْہَا الَّذِینَ آمَنْوا اتَّقْوا اللّہَ وَذَرْوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِن کْنتْم مّْؤمِنِینَ (البقرۃ:278) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔) (3) اس نے کہا : ہمارے علاقے میں شراب بڑے اہتمام سے کشید کی جاتی ہے اور وہ ہمارے لیے ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے ،اس کا اارشاد ہے : یَا َیّْہَا الَّذِینَ آمَنْوا انَّمَا الخَمرْ وَالمَیسِرْ وَالاَنصَابْ وَالاَزلاَمْ رِجس مِّن عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجتَنِبْوہْ لَعَلَّکْم تْفلِحْونَ۔ (سورۃ المائد:90) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے ،یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ،ان سے پرہیز کرو ،امید ہے کہ فلاح نصیب ہو گی ) (4) اس نے نماز سے رخصت چاہی تو آپﷺ نے فرمایا : ’’اس دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہ ہو۔‘‘
(5)اس نے درخواست کی کہ ان کے بت ’لات‘ کو جس کی وہ پوجا کرتے ہیں ،تین سال کے لیے چھوڑ دیا جائے اور ان کے معبد کو منہدم نہ کیا جائے آپ نے انکار کیا انہوں نے دو سال کے لیے چھوڑنے کی گزارش کی۔آپ نے اسے بھی قبول نہ کیا۔وہ اسی طرح تھوڑی تھوڑی مدت کم کرتارہا ،لیکن آپ نے انہیں کچھ بھی مہلت نہیں دی۔تب انہوں نے کہا:اچھا تو پھر آپ ہی اسے توڑ ڈالیں۔ہم اسے اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑ سکتے۔آپ ﷺاس پر رضامند ہو گئے اور فرمایا :میں کسی کو بھیج دوں گا جو یہ کام کر دیے گا۔ (6)اس نے درخواست کی کہ ان کو جہاد میں شریک ہونے کا پابند نہ کیا جائے۔آپ نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی۔ (7)اس نے درخواست کی کہ انہیں صدقاتِ واجبہ کی ادائی سے مستثنیٰ رکھا جائے۔آپ ﷺنے ان کی یہ درخواست بھی قبول کر لی۔
(8) اس نے درخواست کی کہ ان کے علاقہ کا عامل (گورنر)ان کے قبیلہ سے باہر کے کسی فرد کو نہ بنایا جائے۔آپ نے یہ درخواست بھی قبول کرلی۔ وفد نے واپسی کا ارداہ کیا تو اللہ کے رسول ﷺسے گزارش کی کہ کسی کو ہمارا امیر بنا دیجئے۔آپ ﷺنے وفد کے اس سب سے کم عمر رکن ،عثمان بن ابی العاص کو ان کا امیر نامزد فرمایا۔ بعد میں آں حضرت ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں حضرت مغیر بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان بن حرب کو بھیجا کہ وہ جاکر لات کے معبد کو منہدم کردیں۔
قبیلہ ثقیف کے قبول اسلام کے اس واقعہ میں ہمارے لیے عبرت و نصیحت کے متعدد پہلو ہیں :
(1) راہ دعوت میں شدائد کا ستقبال۔
داعی کو ہر لمحہ مستحضر رہنا چاہیے کہ دعوت کی راہ پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑے بسا اوقات ممکن ہے کہ جن لوگوں کے سامنے وہ دعوت پیش کرے وہ اسے رد کردیں۔اس کے درپے آزارہوں اور اسے اذیتیں پہنچائیں۔رسول کا اسو ہ بتاتا ہے کہ ان اذیتوں کو برداشت کرنا ہے۔سفر طائف کے موقع پر آپ کو قبیلہ ثقیف سے جو اذیتیں پہنچیں ان کی تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کلیجہ منھ کو آتا ہے۔خود آپﷺ نے اس واقعہ کو اپنی زندگی کا سب سے زیادہ الم ناک واقعہ قرار دیا ہے۔ام المومینن حضرت عائشہؓ نے ایک موقع پر آپ سے دریافت فرمایا :کہا آپ پر کوئی ایسا وقت بھی آیا ہے جو معرکہ احد سے زیادہ سخت ہو ؟ آپ نے فرمایا : ’’مجھے تمہاری قوم سے بارہا تکلیفیں پہنچیں ہیں ،ان میں سب سے زیادہ سخت وقت میرے لیے یوم العقبہ (طائف) کا تھا۔‘‘ اس طرح آپ نے اپنی امت کو تعلیم دی کہ راہ دعوت میں پیش آنے والی تکلیفوں پر صبر کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں۔
(2) داعی کے لیے مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ حالات کتنے بھی سخت ہوں اور مدعوعین کا رویہ کتنا بھی تلخ اور تکلیف دہ ہو ،داعی کو چاہئیے کہ کسی بھی صورت میں مایوسی کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دے۔اسے رجائیت پسند ہونا چاہیے۔امید رکھے کہ ان شاء اللہ حالات بد لیں گے ،دل نرم اور حق کی طرف مائل ہونگے اور اسلام کا بول بالا ہوگا۔سفرِ طائف کے موقع پر اہلِ ثقیف کے رویہ نے رسول ﷺ کو بہت ذیادہ غم زدہ کر دیا۔ان کی بد سلوکی کو دیکھ کر اللہ تعالی کو جلال آگیا ،پہاڑوں کے فرشتے نے حاضر ہو کر کہا :اے محمد! اللہ نے آپ کی دعوت پر آپ کی قوم کا جواب سن لیا ہے۔اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ جو چاہیں حکم دیں۔اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں طرف کی پہاڑیوں کو ملا کر پیس دوں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : ’’نہیں ،میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں گے۔ ‘‘ اس واقعہ کو دس سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ابن سعد نے لکھا ہے کہ ،حضرت مغیرہ بن شعبہ نے فرمایا:’’مجھے نہیں معلوم کہ عرب کا کوئی قبیلہ ،جو ایک باپ کی نسل سے ہو ،اس کا اسلام اتنا راسخ اور اس کے عقائد اتنے بے آمیز ہوں جتنے اس قبیلہ کے تھے۔‘‘ قبیلہ ثقیف کے اسلام قبول کرنے کی پختگی اور عقائد کی بے آمیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول ﷺ کی وفات کے بعد عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے تھے اور انہوںنے اسلامی ریاست سے بغاوت کر دی تھی۔لیکن اس موقع پر ثقیف کے تمام افراد نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور اسلام پر قائم رہے۔
(3) انتقامی جذبات سے گریز
داعی کو اپنی شخصیت کو انتقامی جذبات سے بلند رکھنا چاہئیے۔اسے مدعوعین کی طرف سے چاہے جتنی ،جسمانی یا روحانی تکلیفیں پہنچیں،لیکن اس کا دل صاف رہنا چاہیئے۔وہ ان کی ہدایات کا خواہاں اور اس کا حریص ہو۔پھر اگر اس کی کوششوں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ ہدایت پاجائیں تو اسے اس طرح مسرت کا اظہار کرنا چاہیئے،جیسے اسے کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہو۔ثقیف نے اسلام دشمنی میں کیا کیا نہیں کیا! ؟لیکن جب انہوں نے خدمت نبوی میں حاضری کا قصد کیا اور ان کے قبول اسلام کی کی کچھ امید بندھی تو حضرت مغیرہ بن شعبہ پھولے نہیں سمائے۔وہ آپ کو خبر دینے کے لیے دوڑنے لگے۔راستے میں ان سے حضرت ابو بکر صدیق کی ملاقات ہو گئی اور انہیں مغیرہ کے دوڑنے کا سبب معلوم ہوا تو کہنے لگے یہ تواتنی غیر معمولی اور انتہائی مسرت بخش خبر ہے کہ اسے رسول تک میں پہنچاؤنگا۔آپ کو اطلاع ملی تو آپ نے بھی مسرت کا اظہار فرمایا۔ایک لمحہ ٹہر کر ہم غور کریں کیا اس موقع پر آں حضرت محمد کے ذہن میں سفر طائف کا دل دوز منظر گھوم نہ گیا ہوگا !؟کیا آپ کے دل میں یہ بات نہ آئی ہوگی کہ یہی لوگ تھے جنہوں نے میری دعوت کو رد کر دیا تھا لیکن آپ نے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ مدینہ میں وفدثقیف کے قیام کے دوران آپ برابر انہیں شرف باریابی سے نوازتے رہے اور ان کے پاس برابر جاتے رہے اور انہیں دین کی باتیں بتاتے رہے۔آپ ان کے پاس خاصا وقت گزارتے۔ان سے محبت و مودت کی گفتگو کرتے۔ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور انہیں دین کا فہم عطا کرتے ،یہاں تک کہ اللہ نے ان کے دل نرم کر دیے اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (4) دعا دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔جب تمام سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو سب سے بڑا سہارا یہی باقی رہتا ہے۔