میں نے دنیا میں آنکھ کھولی تو مدینہ منورہ کو زندگی کا حصّہ پایا۔ میری پیدائش سے پہلے ہی اماں اور بابا کے عشق کا رُخ مدینہ منورہ کی طرف مڑ چکا تھا۔ دونوں میں اگر کوئی قدر مشترک تھی تو وہ یہ منزل تھی، جہاں ہر سال انہیں روضہِ پاک کے سامنے جا کھڑے ہونا ہوتا تھا اور اپنے وجود کے پورے عجز و انکسار کے ساتھ سلام پیش کرنا ہوتا تھا نبیؐ جی کے حضور۔
میں کچھ دن قبل جب مدینے میں تھی تو دل بے اختیار چاہا کہ اُن تمام یادوں کو جو اس شہر سے اور مسجد نبویؐ سے وابستہ ہیں الفاظ دے دوں۔ لکھنے بیٹھی تو خود ہی حیران رہ گئی کہ یہ بھی تھا یادوں کے خزانے تلے دبا ہوا! خود اپنے آپ پر رشک سا آگیا۔ لکھنے لگی تو پتہ چلا کہ اتنا بھی آساں نہیں اُن مناظر کو لکھنا۔ سو لکھتے لکھتے ادھورا چھوڑ دیا مگر جسے مکمل کرنا میری زندگی کی چند تمنّاؤں میں سے ایک ہے۔
آج اسی ادھورے مضمون کا ایک مختصر حصّہ یاد آگیا، وہی بہت کچھ ایڈٹ کر کے یہاں دہرا رہی ہوں۔
میری یاداشت میں 1960 کی دہائی کا زمانہ ہے ۔وہ ترکوں کی بنائی مسجدِ نبویؐ جو اصل مسجد نبویؐ کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی، ابھی سُرخ رنگ کی تھی، جس کی چھت سے لٹکتے بڑے بڑے سُرخ رنگ ترکی فانوس ترکوں کے جانے کے بعد بھی موجود تھے۔ بے شمار چھوٹے چھوٹے سُرخ رنگ شیشے کے پیالے ان فانوسوں کے ساتھ چھت سے لٹک رہے ہوتے تھے، جن میں شاید تب دیے جلائے جاتے ہوں گے جب ابھی بجلی کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا۔ ان فانوسوں میں سے اب صرف دو فانوس باقی ہیں جو زمین پر استادہ ہیں۔مرد اور عورتیں روضہ مبارک کے سامنے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر سلام پیش کیا کرتے تھے۔ کوئی حد بندی نہیں تھی۔ کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
روضہ مبارک کے چاروں اطرف ایک ایک باوردی سپاہی جالیوں سے ٹیک لگائے، روضہ مبارک کے ساتھ ساتھ بنے دہلیز نما چبوتروں پر بیٹھا عموماً اونگھ رہا ہوتا تھا۔ ادایگیِ فرض کے لیے کبھی کبھی آنکھ کھول کر چونکتا اور کسی نہ کسی کو ہش ہش کرتا اور دوبارہ اونگھ میں ڈوب جاتا۔ ہش ہش صرف جالیوں کو چومنے پر ہوتی تھی، وہ بھی کچھ اس طرح کہ چومنے والا اپنا شوق پورا کرتا تھا اور پہرے دار اپنا فرض پورا کرتا تھا۔مگر اصل با اختیار لوگ وہ دس بارہ خواجہ سرا تھے جو رومی کے درویشوں کے سے لباس میں اصحابِ الصفا کی جگہ پر بنے قدرے اونچے چبوترے پر قبلہ و روضہ مبارک کے رُخ صف بنائے بیٹھے ہوتے تھے۔ چپ اور سپاٹ چہروں کے ساتھ۔ ہاتھ کی انگلیوں کے بیچ پھنسی صندلی تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے ان کی انگلیوں کی گرفت میں گھوم رہے ہوتے تھے۔سفیدڈھیلے ڈھالے لمبے چُغے، ہاتھوں سے بھی نیچے کو لٹکتی ڈھیلی ڈھالی لمبی آستینیں۔ سروں پر رکھی سُرخ ترکی ٹوپیوں کے گرد سفید صافے بندھے ہوئے، اور کمر کے گرد سُرخ رنگ کی نفاست سے طے کی ہوئی شال لپٹی ہوئی، جس کا ایک تہ کیا ہوا پلو گھٹنوں تک لٹک رہا ہوتا تھا۔ ایک تہ کی ہوئی سفید یا سرخ شال ایک کندھے پر رکھی ہوتی۔
سب کے سب، لمبے قد، سیاہ رنگ حبشی نسل تھے۔ ایک جو ادھیڑ عمر تھا وہ ان کا ہیڈ تھا۔ مجھ سے اس کی بڑی بنتی تھی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے نانی کہہ کر بلاتا تھا۔ میرے ساتھ پکڑن پکڑائی کھیلتا، آتے جاتے مجھے چھیڑتا،‘‘یا نانی’’۔‘‘یا نانی ’’کہہ کر بلاتا۔ اکثر مسجدِ نبویؐ کی چھت کی جھاڑ پونچھ کے لیے پہیوں والے لمبے اسٹول پر بٹھا کر مجھے مسجد نبویؐ کے احاطے میں چکر لگواتا۔ ویسے تو پتہ نہیں مدینے کے لوگ انہیں کیا کہتے تھے پر اماں بابا سے میں نے خواجہ ہی سنا تھا اور یقیناً انہوں نے بھی مدینے والوں سے ہی یہ نام سنا ہوگا! مسجدِ نبویؐ میں بڑے اختیارات کے ساتھ چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ اصحاب الصفا والے چبوترے کے ساتھ بنا ایک کمرہ جو ابھی بھی ہے، جس کے چھوٹے سے لکڑی کے دروازے سے انہیں جھک کر اندر جانا پڑتا تھا، جو شاید صرف انہی کے استعمال کا تھا کیونکہ اس کی چابی اسی ہیڈ خواجہ کی کمر سے لٹک رہی ہوتی تھی۔ مسجدِ نبویؐ کی صفائی کا کام یہی کرتے تھے۔ روضہ اقدس کے اندر جاکر وہاں کی صفائی بھی یہی کرتے تھے۔ روضہ اقدس کے اندر کی صفائی کی خاک یہ شاید سنبھال کر رکھتے تھے جو ان سے مانگنے کے لیے لوگ نہایت خاموشی سے ان کی منت سماجت بھی کر رہے ہوتے، جو وہ انہیں بغیر کسی معاوضے کے کاغذ میں لپیٹ کر دے دیا کرتے تھے۔ اماں بابا کے پاس بھی وہ خاک ہوا کرتی تھی۔ سفیدی مائل مٹی کی باریک اور نفیس سی خاک۔مسجد نبویؐ میں اگر کہیں کوئی بچہ قالین یا زمین خراب کر دیتا تو انہیں اطلاع کر دی جاتی اور یہ بغیر ماتھے پر ایک بل ڈالے خاموش، تابعداری کے ساتھ سنہری رنگ تانبے کی لمبی گردن والی صراحی نما چلمچی اور صفائی کا دوسرا سامان لے آتے۔ باقاعدہ کلمہ پڑھ کر پاک کرتے اور چلے جاتے۔ نہ شکوہ، نہ ناراضگی۔
عشاکی نماز کے تقریباً ایک گھنٹے بعد یہ لوگوں کو نکالنا شروع کرتے۔ عورتوں والے حصے میں بھی صرف ان ہی کو آنے کی اجازت ہوتی تھی۔ حرم خالی کرواتے جاتے اور ساتھ ساتھ صفائی بھی شروع کر دیتے۔ لمبے بانس کے ایک سرے پر بندھے کھجور کے پتوں والے چھوٹے چھوٹے جھاڑو، جن سے وہ سُرخ دبیز قالینوں کو صاف کرتے جاتے تھے، اور ایک ایک کر کے مسجدِ نبویؐ کے دروازے بھی بند کرتے جاتے تھے۔ اماں اور بابا آخری نکلنے والے ہوا کرتے تھے، تب جب آخری دروازہ بھی آدھا بند ہو چکا ہوتا تھا۔ تب تک مسجد نبویؐ کی چھتوں اور فانوسوں کے صفائی والے اسٹول پر میں ہیڈ خواجہ کے ساتھ گھوم رہی ہوتی تھی۔ نکلتے وقت بابا مجھے اسٹول سے اتارتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے۔ جواب میں وہ صرف گردن ہلا دیتا۔ وہ سب کے سب بہت ہی کم مسکراتے اور بات کرتے تھے۔ہم نکل جاتے اور آخری دروازہ بھی بند ہو جاتا۔ اماں ذرا جذباتی قسم کی عاشقِ رسولﷺ تھیں اور ابا اس موضوع پر زباں بندی کے قائل تھے۔ اماں کو ان خواجہ سراؤں سے بڑی محبت تھی۔ بہت ہی احترام کی نظروں سے انہیں دیکھا کرتیں۔ اکثر مسجدِ نبویؐ سے نکلتے وقت ان کی قسمت پر رشک کا اظہار کیا کرتیں کہ کتنے نصیبوں والے ہیں یہ کہ مسجد نبویؐ میں اکیلے سوتے ہیں۔اگلی صبح تہجد کی اذان سے پہلے پہلے وہی خواجہ اندر سے ایک ایک کر کے سارے دروازے کھولا کرتے تھے۔ایسے بھی دیوانے ہوا کرتے تھے جو سب سے پہلے اندر جانے کے لیے وقت سے پہلے ہی دروازے پر جا کھڑے ہوتے تھے۔ ان کے اور خواجاؤں کے بیچ ایک خاموش سا رشتہ جُڑا ہوتا تھا۔ میری وجہ سے ہیڈ خواجہ سرا سے اماں کی بھی تھوڑی بہت بے تکلفی ہو گئی تھی۔ بہت ہی جذباتی ہو کر اشاروں میں چند الفاظ عربی کے جوڑ کر اس سے پوچھا بھی کرتیں کہ تم جب یہاں اکیلے سوتے ہو تو قدرت کے کچھ نظارے بھی دیکھتے ہو گے؟ مگر وہ بھی بابا کی طرح زباں بندی کا قائل تھا۔ اماں کو بھی نانی کہنے لگا تھا۔ عربی میں کہتا نانی اب نکلو یہاں سے۔ حرم خلاص صلاۃ خلاص۔ پر اماں بھی سال میں ایک بار اس کا یہ انٹرویو ضرور کرتیں۔
مجھے تب پتہ نہیں تھا کہ خواجہ سرا کیا چیز ہوتی ہے پر انہیں دیکھ کر میں سوچا کرتی کہ ان سب کی داڑھیاں کیوں نہیں ہیں! ان کے چہرے عورتوں کی طرح اتنے صاف کیوں ہیں!دوسرے درجے پر ان ہی جیسے وہ حبشی نوجوان خواجہ سرا بھی ہوتے تھے جو مسجد نبویؐ میں عورتوں اور مردوں کو پانی پلاتے تھے۔ مگر ان کا لباس بڑے خواجاؤں سے مختلف تھا۔ عام عربی جبّے پر سنہری رنگ کی تکونی ٹوپی کے گرد سفید صافہ باندھا ہوتا تھا۔ ایک تہ کی ہوئی شال کندھے پر اور اسی کندھے پر الف لیلوی طرز کی پتلی گردن والی سفید رنگ مٹی کی صراحی۔ دوسرے ہاتھ میں چاندی کی دو پیالیاں، جنہیں آپس میں ٹکراتے ہوئے مدھر سی ترنگ کے ساتھ گویا‘‘پانی حاضر ہے ’’کی اطلاع دیتے پھر رہے ہوتے تھے مسجد نبویؐ میں ہر طرف۔ مسجد نبویؐ کے زنانہ حصّے میں بھی پانی پلانے کے لیے آزادی سے چل رہے ہوتے تھے۔ اکثر صفیں بنائے بیٹھی عورتوں کے شانوں کے بیچ سے بمشکل راستہ بنا کر گزرنا پڑتا تھا انہیں، پر کوئی انہیں حقارت سے دھکیلتی نہ تھی۔ سامنے ہی مردانہ حصے میں بیٹھا کوئی مرد انہیں زنانہ حصے میں جانے سے روکتا نہ تھا۔ گو کہ یہ سب مردانہ لباس میں ہوتے تھے۔ ان کے انداز میں زنانہ پن قطعی نہیں ہوتا تھا۔
تب مغرب اور عشا کے اوقات میں مقامی عرب عوتیں اور مرد بڑی تعداد میں مسجدِ نبویؐ میں موجود ہوتے تھے۔ عورتیں ان سے پردہ بھی نہیں کرتی تھیں۔ زم زم کہہ کر انہیں بلایا جاتا۔ وہ بہت سی عورتوں کے شانوں کے بیچ سے گزرتے آواز دینے والی عورت تک پہنچتے اور نہایت ادب کے ساتھ پانی پیش کرتے۔
پھر وقت بدلا اور زمانے نے بھی سُرعت کے ساتھ ایک بڑی کروٹ بدلی اور دنیا کی تیز رفتاری اور ہنگامہ خیزی سے گھبرا کر جہاں بہت سے کردار خاموشی کے ساتھ دنیا کے اسٹیج سے اتر گئے یا پردے کے پیچھے چلے گئے، شاید روضہ اقدسؐ کے سامنے بیٹھے یہ بے نفس غلام بھی اصحابِ صفا کی مسند سے اتار دیے گئے ہوں گے کہ اب ان کی
ضرورت نہیں رہی ہوگی! مزید وقت گزرا ہوگا تو ایک ایک کر کے جنت البقیع میں جا سوئے ہوں گے!
مدینے میں اماں کی وہ سندھی سہیلی بھی میرے ذہن پر نقش ہے، جس کا نام تو مجھے اب یاد نہیں پر چہرہ ابھی تک یاد ہے۔ لمبا مردانہ قد، مردانہ نقوش۔ عربی طرز کا برقع (عبایا) اوڑھا کرتی تھی۔
جانے سندھ سے کیسے آئی اور کیسے مدینے میں بیٹھ گئی۔ صاحبِ حیثیت لوگ مدینے میں مسافر خانے اور غریب بیوہ اور لاوارث عورتوں کی مفت رہائش کے لیے عمارتیں بنوایا کرتے تھے۔ ان عمارتوں کو رباط کہا جاتا ہے۔ اماں کی وہ سہیلی بھی لاوارث عورتوں کی رباط کے ایک کمرے میں رہتی تھی۔ مدینے میں رہنے کے لیے ایسی بہت سی عورتوں کی طرح اس کے پاس بھی کوئی قانونی اجازت نامہ نہ تھا۔ ہم ہر سال رباط میں اس کی دعوت کھانے جاتے۔ قدیم طرز کی عمارت کا ایک چھوٹا سا کمرہ۔ ذرا سا سامان جو ایک کونے میں رکھا ہوتا۔ ایک چھوٹا سا بوسیدہ سا قالین اور بستر۔ اس قالین پر بیٹھ کر اس کے ساتھ میں، اماں اور بابا کھانا کھاتے۔
ایک دن اماں حج پر ساتھ آئی ہوئی میری پھوپھو کو بتا رہی تھیں کہ یہ ہیجڑا ہے۔ لفظ خواجہ سرا مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر لاہور میں ہمارے محلّے میں ذرا ذرا سی خوشی پر ہیجڑے پہنچ جایا کرتے تھے اور ہم بچّے ان کے تماشبین ہوا کرتے تھے، اس لیے لفظ ہیجڑا کسی نہ کسی معنی میں مجھے سمجھ آتا تھا۔ جو بات بچپن کے دل پر نقش ہو کر رہ گئی وہ یہ کہ ایک دن اماں بہت ہی جذباتی ہو کر میری پھوپھو کو اپنی اس سہیلی کی بتائی ہوئی بات بتا رہی تھیں کہ رباط کی کچھ عورتوں نے اس کے بارے میں کچھ کہا جس سے وہ بہت دکھی ہوگئی۔ کہنے لگی رات کو اکیلی کمرے میں بیٹھی من ہی من میں نبیؐ جی سے مخاطب ہو کر رو رہی تھی کہ آپ تو جانتے ہیں کہ مجھ میں کیا عیب ہے۔ میں تو اپنا عیب چھپانے کے لیے آپ کی پناہ میں آ کر بیٹھی ہوں۔ میری لاج رکھ لیجیے۔ کہنے لگی اچانک میرے کمرے میں اتنی روشنی ہو گئی کہ سامنے پڑی گندم کا ایک ایک دانہ مجھے الگ الگ نظر آ رہا تھا۔ بس ایک لمحہ تھا وہ پر مجھے لگا مجھے سب کچھ مل گیا۔ اماں پھوپھو کو یہ بتاتے ہوئے رو پڑیں۔ مجھے وہ عورت ہمیشہ باعزت طریقے سے اسی رباط میں رہتی
ہوئی یاد ہے۔ پھر سنا کہ وہ فوت ہو گئی اور جنت البقیع میں دفن کر دی گئی۔