سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اُن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔
اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا، ولیم والس ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔
گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لئے قید کی سزا سنا دی، یہ سزا 1633 میں سنائی گئی، گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642 میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، پادری جیت گئے سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔
جیورڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنایا گیا، برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تحقیق عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اُس کی تخلیق سے متصادم نہیں مگر اُس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لئے کہا گیا، برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا، 8 فروری 1600 کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو برونو نے تاریخی جملہ کہا ‘‘میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوں جتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔’’ برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، یونان کی اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا۔ ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اس کا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہئے تھا مگر آج ابیرڈین سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں، تاریخ میں ولیم والس امر ہو چکا ہے۔ گلیلیو پر کفر کے فتوے لگانے والی چرچ اپنے تمام فتوے واپس لے چکی ہے، رومن کیتھولک چرچ نے ساڑھے تین سو سال بعد تسلیم کیا کہ گلیلیو درست تھا اور اُس وقت کے پادری غلط۔ برونو کو زندہ جلانے والے بھی آج یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھا اور اسے اذیت ناک موت دینے والے تاریخ کے غلط دوراہے پر کھڑے تھے۔آج سے ایک سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا، تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی۔ آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے ۔کون حق کا ساتھی ہے اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے۔ کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے، کون دیانت دار ہے اور کون بے ایمان، کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق سچ کا راہی کہتا ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی سے ظلم اور ناانصافی کو اپنے آپ ختم ہو جانا چاہئے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اُس منزل سے کہیں دور بھٹک رہے ہیں۔آج سے سو برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا، مگر افسوس کہ اُس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔ سو آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں کیوں نہ خود کو ہم ایک بے رحم کسوٹی پر پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنہوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ تھما دیا تھا، کہیں ہم برونو کو زندہ جلانے والے پادریوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابن رشد کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے ۔کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرکے خود کو غلطی پر تسلیم کرنا بڑے ظرف کا کام ہے جس کی آج کل شدید کمی ہے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی باضمیر نے وہ وقت کیسے گزارا۔۔!