اٹھارہ سال سے وہ میری مریضہ تھی۔ ہر چند مہینوں کے بعد اس کا شوہر اسے لے کر آجاتا، اسے دیکھتے ہی مجھے سخت تکلیف ہوتی، اندر بہت اندر جیسے کچھ ٹوٹ پھوٹ جاتا، گلے میں خشکی سی ہوتی اور دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔ یہ سمجھتے، جانتے بوجھتے ہوئے کہ میں نے اپنی سی پوری کوشش کرلی تھی۔ جو کچھ ہوسکتاتھا، جو ممکن تھا، کسی طرح سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میں نے۔ اسے دیکھ کر اپنی ناکامی، اپنے فن کی ناکامی، سائنس کی ناکامی، طب کی دنیا میں ہوتی ہوئی ترقی کی ناکامی اور سرجری کے ذریعے کیے جانے والے بعض عجیب و غریب آپریشنوں کی کامیابی کے باوجود اپنی سرجری کی ناکامی کا شدید احساس ہوتا تھا مجھے۔
وہ نازک سا دبلا پتلا لمبے قد کا بڑا سادہ سا انسان تھا۔ بہت پہلے، سالوں پہلے وہ اپنی بیوی کو لے کر میرے پاس آیاتھا۔ڈاکٹر صاحب بڑی دور سے آپ کا نام سن کر آیا ہوں۔ میری بیوی کا علاج کرنا ہوگا آپ کو، بڑی امیدیں لے کر آیا ہوں، آپ کے پاس اسے صحیح کردیں، اچھا کردیں۔ اس کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی ہے مجھ سے۔ میں سب کچھ بیچ دوں گا اس کے لئے۔ جو کچھ بھی میرے پاس ہے، خادم بن جاؤں گا آپ کا۔ ساری زندگی احسان نہیں بھولوں گا۔ بس اسے صحیح کردیں آپ ،بڑی مہربانی ہوگی آپ کی۔
وہ نہ جانے کیا کیا بولتا چلا جارہا تھا کہ میں نے اسے اشارے سے روکا اور کہا کہ بیٹھ جاؤ بھائی، پہلے بیٹھ تو جاؤ پھر آپ کی بات سنوں گا۔وہ دونوں میرے سامنے پڑی ہوئی بینچ پر بیٹھ گئے تھے۔ کملائے ہوئے، بے کس بے بس چہرے۔ اُداس آنکھوں سے درد بہتا ہوا۔ مجھے آج تک ان دونوں کی وہ تصویر نہیں بھولی ہے۔
‘‘جی بی بی اپنا نام پتہ اور شکایت بتائیں’’، میں نے اس سے ہسٹری لینی شروع کی تھی۔
اس کا نام بانو تھا شوہر کا نام غلام حسین اور وہ نیوکراچی سے آئی تھی۔ اس کے چار بچے تھے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ چوتھے بیٹے کی پیدائش کے بعد یہ مسئلہ شروع ہوا تھا۔ بیٹا تو مرا ہوا پیدا ہوا۔ اس کی شکل بھی نہیں دیکھ سکی تھی وہ۔ صرف اس ننھے سے جسم کو محسوس کیا تھا اس نے۔سب بچے گھر میں ہوئے تھے، دائی خدیجہ کے ہاتھوں، اس نے آہستہ آہستہ بتانا شروع کیا۔ ‘‘اس حمل میں بھی چھ مہینے گزرنے کے بعد میں نے دائی خدیجہ کو گھر بلایا تھا۔ اس نے دیکھا پھر کہا شاید میرا حساب غلط ہے، بچہ چھ مہینے کا نہیں سات مہینے کا لگ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ شاید لڑکا ہوگا۔ سب کچھ ٹھیک تھا، ڈاکٹر صاحب سب کچھ ٹھیک، کوئی شکایت نہیں تھی مجھے۔ جیسے پہلے حمل ٹھہرے ویسا ہی حمل تھا وہ بھی۔ میں نے تو کم از کم یہی سوچا تھا اس وقت۔ پہلے بھی چار بچے گھر میں ہوچکے تھے، دائی خدیجہ کے ہاتھوں، یہ بھی ہوجائے گا۔ کون سی بڑی بات ہے۔’’
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی جیسے کچھ سوچ رہی ہو پھر سوچتے سوچتے ذرا رک کر آہستہ آہستہ پھر سے بولنا شروع کیا۔ ‘‘مگر ایسا ہوا نہیں۔ اس دفعہ کچھ گڑبڑ تھی، میرے حساب سے پہلے درد شروع ہوگئے میں نے توجہ نہیں دی کہ اس طرح کے درد تو ہوتے ہی ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب اس دفعہ درد بڑے خراب تھے، اتنے شدید تو کبھی بھی نہیں ہوئے تھے، ایسا لگتا جیسے کوئی چاقو سے میرے جسم کے اندر میرے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کاٹ رہا ہے۔’’دائی خدیجہ نے دیکھا۔ تسلی دی پھر کہا کہ چار پانچ گھنٹوں میں بچہ ہوجائے گا، فکر کی بات نہیں ہے۔ اصلی گھی کے دو گرم گرم چمچے مجھے پلائے اورکہا کہ ذرا انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر سب کچھ صحیح ہوجائے گا فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔انتظار بہت طویل ہوگیا، چار گھنٹے، آٹھ گھنٹوں میں اور آٹھ گھنٹے، سولہ گھنٹوں میں اور پھر صبح سے شام ہوگئی، مجھے لگتا تھا کہ اس دفعہ میری جان چلی جائے گی۔ اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے میں چلی جاؤں گی۔ عورتیں تو بچہ جننے میں مر ہی جاتی ہیں۔ میرے خالہ کی بڑی بیٹی مرگئی، میری ماں کی سب سے چھوٹی بہن بھی زچگی کے دوران مرگئی تھی، میں بھی اب نہیں بچ سکوں گی۔ درد کے آنسوؤں کے ساتھ یہ سوچ کر میں بری طرح سے رودی کہ میرے بچے اکیلے رہ جائیں گے۔دنیا میں پلیں گے میرے بغیر۔ کون دیکھے گا انہیں، کھانا دے گا، سردیوں میں سوئٹر پہنائے گا، کراچی کی گرمی میں لُو سے بچائے گا۔ کون انہیں اسکول بھیجے گا، کون رات کو سلائے گا، سردی میں ان کے ٹھٹھرے ہوئے جسم پر چادر ڈالے گا، بچائے گا ان ننھے جانوں کو سردی سے۔ ڈاکٹر ،سخت درد کے باوجود میں نے دل ہی دل میں دعا کی تھی کہ میرے اللہ، میرے مالک بچالے مجھ کو۔ میرے بچوں کے لئے بچالے مجھ کو۔ کیا کمی ہے تیرے پاس۔ ایک جان بچ جائے گی توکیا فرق پڑے گا۔ میں بچ گئی تھی، بڑی جدوجہد کے بعد دائی خدیجہ نے میرا پانچواں بچہ پیدا کرلیا، میری جان بچ گئی مگر وہ مرا ہوا پیدا ہوا تھا۔
مجھے تو اندازہ بھی نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا، میں تو اتنی نڈھال تھی کہ مجھے ہوش ہی نہیں رہا کہ کیا کیا کچھ ہوچکا تھا میرے ساتھ۔ مجھے اس وقت کا صرف اتنا ہی یاد ہے کہ دائی خدیجہ نے مجھ سے سرگوشیوں میں کہا کہ میرا مرا ہوا بچہ پیدا ہوا ہے، پھر میں سوگئی اور نہ جانے کب تک سوتی رہی تھی۔
زچگی کے بعد کے چھ سات دن بڑے بوجھ میں گزرے، ایک میری تھکن پھر میرا غم، وہ میرا بچہ میرا بیٹا جو مرگیا مجھے یاد آتا رہا، خدا صبر، دیتا ہے مجھے بھی صبرآگیا۔ میں نے بھی اپنے آپ کو تسلی دی کہ شاید میرے بچے نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر مجھے بچالیا ہے تاکہ میں اپنے بچوں کو اپنے سائے میں بڑا کرسکوں، انہیں پالوں، بڑا کروں، اپنے شوہر کی خدمت کروں۔مگر ڈاکٹر صاحب وہ آٹھواں نواں ہی دن تھا جب یکایک مجھے احساس ہوا کہ میرے جسم سے مسلسل پیشاب بہہ رہا ہے۔ صبح اٹھی تھی تو تمام بستر تر تھا، کمرے میں پیشاب کی بدبو کا احساس سب سے پہلے میرے شوہر کو ہی ہوا اور اب گذشتہ آٹھ سال سے میرا اپنے پیشاب پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ آپ کے ہسپتال کا نام سن کر ہم لوگ آئے ہیں، آپ لوگ اس بیماری کا آپریشن کرکے علاج کرتے ہیں، میرا بھی علاج کریں، ڈاکٹر صاحب اس نے ڈبڈبائی آنکھوں اور لرزتے ہوئے لہجے میں التجا کی۔
اس کی کہانی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی پیشاب کی تھیلی میں سوراخ ہوگیا ہے۔ زچگی کے دوران جب بچے کا سر پھنس جاتا ہے تو پھنسا ہوا سر پیشاب کی تھیلی کو اتنا دباتا ہے کہ اس کے دباؤ سے پیشاب کی تھیلی میں آنے والا خون اپنی گردش بند کردیتا ہے جس کی وجہ سے تھیلی کا وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے اور تھوڑے دنوں میں جھڑ کر نکل جاتا ہے پھر اس سوراخ میں سے پیشاب مستقل بہتا رہتا ہے۔
ہندوستان، پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں کروڑوں بچے گھروں پر دائیوں کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں، جہاں بچے کے سر کے پھنس جانے کی صورت میں یہ انتظامات نہیں ہیں کہ فوری طور پر ان کا آپریشن کرکے بچہ نکال لیا جائے، پھر ان عورتوں کو یہ بیماری ہوجاتی ہے، فسٹیولا کی بیماری۔ ان دونوں ملکوں میں ہر سال ہزاروں عورتیں اس بیماری کا شکار ہوکر ایک دردناک زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں، حیات ایک عذاب ہوکر رہ جاتی ہے۔ چلتا پھرتا عذاب، زمین پر ایک لعنت کی طرح گھومتی ہوئی بدبودار چڑیل۔عام طور پر یہ ساری عورتیں غریب ہوتی ہیں، ان میں سے مستقل پیشاب کی بدبو آرہی ہوتی ہے، گھر والے انہیں منحوس سمجھتے ہیں، عام طور پر ان کے شوہر انہیں چھوڑدیتے ہیں، یہ سماج میں رہتے ہوئے بھی مکمل طور پر اکیلی ہوتی ہیں۔
میں سوچتا تھا کہ ہندوستان پاکستان دونوں بڑی فوجی طاقتیں ہیں، دونوں ایٹم بم کے دھماکے کرچکے ہیں اور دونوں ملکوں کے حکمران بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں اور دونوں ملکوں کی عورتیں محض معمولی سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں ہی زندہ درگور ہوجاتی ہیں۔
میرے اندر جیسے نفرت کا ایک سیلاب اٹھا تھا، ایک جوار بھاٹا۔ کاش یہ سیلاب یہ جوار بھاٹا ان نام نہاد حکمرانوں کو بہالے جاتا، ان کے ایٹم بم بنانے والے سائنسدانوں کو ڈبودیتا، امن و انصاف کی راہ میں حائل ان دانشوروں کو ختم کردیتا جو دن رات تبلیغ کرتے ہیں کہ ایٹم بم، میزائل، لڑاکا آبدوز، مضبوط فوج، قومی سلامتی کے ضامن ہیں۔ کیا قومی سلامتی اور کیا مضبوط فوج۔ ہندوستان پاکستان بھوکے ننگے عوام کے ملک ہیں، جہاں بے شمار عورتیں اپنے ہی پیشاب میں ڈوبی ہوتی ہیں، جن کے بے غیرت حکمران، بھائی، بیٹے اورباپ فسٹیولا سے رستے ہوئے پیشاب کو ڈھٹائی سے پیتے رہتے ہیں۔
اٹھارہ سال پہلے اسے میں نے داخل کیا تھا، یہ ایک خراب فسٹیولا تھا، پیشاب کی تھیلی کا نچلا حصہ مکمل طور پر سڑکر جھڑگیا تھا، گردوں سے آنے والی دونوں نالیوں میں سے پیشاب آ تو رہا تھا لیکن اس پیشاب کو پیشاب کی تھیلی میں روکا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ تھیلی کا نچلا حصہ ختم ہوچکا تھا۔ چار سال کے عرصے میں میں نے تین دفعہ اس عورت کا آپریشن کیا۔ دوسرے دو ڈاکٹروں کی مدد سے انتہائی کوشش کی سوراخ کو بند کرنے کی کوشش، وہاں پر پیوندکاری بھی ناکام ہوگئی، پیشاب کی نئی تھیلی بنانے کی کوشش کی، وہ بھی نہیں بن سکی۔
مسئلہ یہ ہے کہ مختلف بیماریوں کے لئے دوائیں اور مصنوعی اعضاء بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں کے پاس اس قسم کے غریب مریضوں کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ وہ مصنوعی دل، پھیپھڑا اور ہڈیاں بنا کر تو پیسے کماسکتے ہیں، غریب عورتوں کے پیشاب کی تھیلی بنا کر انہیں کیا ملے گا، دنیا کا نظام اسی اصول پر چل رہا ہے۔ دنیا امیر کے لئے چل رہی ہے غریب کے لئے کیا ہے ذلت، دکھ بیماری بے کسی کی موت۔
آپریشنوں کی ناکامی کے باوجود اس کا شوہر مہینوں اور سالوں کبھی اکیلا اور کبھی اس کے ساتھ میرے پاس آتا رہا۔ڈاکٹر صاحب دنیا میں بہت ترقی ہوگئی ہے، اخبار میں بیماریوں کے نئے نئے علاج کے طریقوں کے بارے میں آتا رہتا ہے، کچھ ہوا ہے، کچھ پتہ چلا ہے، علاج ہوگا میری بیوی کا۔اس کے چہرے پر بلا کا درد ہوتا، بیوی کی محبت اوربیوی کی پریشانی اس کے چہرے پر عیاں ہوتی، میں صرف سوچ کر رہ جاتا کاش میں کچھ کرسکتا۔
ایک دفعہ میں نے ان دونوں کو بتایا کہ ایک طریقے سے علاج ممکن ہے جس میں ایک دوسرے قسم کا آپریشن کرکے دونوں گردوں سے آنے والی نالیوں کو آنتوں میں لگایا جاسکتا ہے، اس طرح پیشاب بہنا بند ہوجائے گا اور پیشاب پاخانے کے ساتھ نکل جایا کرے گا، مگر میں نے یہ بھی بتایا کہ اس طریقے سے آپریشن کے بعد یہ ممکن ہے کہ اس کی بیوی کی آنتوں میں کچھ سالوں کے بعد کینسر ہوجائے۔وہ تو راضی ہوگئی مگر اس کا شوہر تیار نہیں ہوا تھا۔ نہیں ڈاکٹر صاحب ہم ایسے ہی ٹھیک ہیں، اسے اگر کینسر ہوگیا اور یہ اگر مرگئی تو میں کیا کروں گا۔ میں مرجاؤں گا اس کے بغیر، اس نے صاف منع کردیا تھا۔
بانو نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے، اس کے پیشاب سے آلودہ کپڑوں کو الگ رکھنا، اپنے کمرے کو صاف رکھنا، کمرے میں اور چھوٹے سے گھر میں عطر کا چھڑکاؤ رکھنا تاکہ پیشاب کی بدبو محسوس نہ ہو۔ یہ سارے کام غلام حسین نے اپنے ذمے لئے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کسی بیوی سے اتنی محبت کرنے والا یہ ایک ہی شوہر دیکھا تھا۔ فسٹیولا زدہ عورتیں اکیلی آتی تھیں عام طور پر اپنی ماؤں یا کسی بڑی یا چھوٹی بہن کے ساتھ۔عام طور پر فسٹیولا زدہ عورتوں کو شوہر چھوڑدیتے ہیں، زیادہ تر طلاق دے دیتے ہیں اور اگر طلاق نہیں دیتے تو پھر ان سے کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھتے۔ کیسے رہ سکتے ہیں ایسی عورت کے ساتھ تعلقات جس کے جسم سے ہر وقت پیشاب بہتا رہتا ہو۔ غلام حسین ایک مختلف شوہر تھا، بالکل مختلف۔
سال گزرتے چلے گئے پھر کئی مہینوں تک نہ غلام حسین آیا اور نہ ہی بانو آئی۔ میں تقریباً ان دونوں کو بھول گیا تھا کہ ایک دن وہ میرے کمرے میں داخل ہوئی۔
پہلی نظر میں اسے پہچان بھی نہیں سکا، وہ انتہائی دبلی ہوگئی تھی، بال سوکھے ہوئے او ر بے ترتیب، چہرا اجڑا ہوا، آنکھوں میں زندگی کی رمق تو تھی مگر زندہ رہنے کا شوق جذبہ امنگ نہیں تھا۔ اس کے کہنے سے پہلے میں نے اندازہ لگالیا کہ غلام حسین کا انتقال ہوچکا ہے۔
اس نے آہستہ آہستہ رو رو کر بتایا کہ غلام حسین آٹھ مہینے تک جگر کے کینسر میں مبتلا رہ کر مرگیا، ڈاکٹر صاحب اسے پہلے یرقان ہوا تھا، ڈاکٹروں نے بتایا کہ کوئی ہیپاٹائٹس سی کی بیماری ہوگئی ہے اسے، علاج اتنا مہنگا تھا کہ ہم لوگ کرا ہی نہیں سکتے تھے، پھر وہ خودبخود ٹھیک بھی ہوگیا اور ہم لوگ سمجھے تھے کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے مگر پھر اسے دوبارہ سے پیلیا ہوگیا اور پھر سے بیماری بڑھتی چلی گئی۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بے ساختہ بہے چلی جارہی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی، ایسے بے معنی الفاظ کہے جو ایسے موقعوں پر کہے جاتے ہیں۔ میں تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر مجھے آپریشن کرنے کے لئے آپریشن تھیٹر جانا پڑگیا، میں فارغ ہوا تو وہ جاچکی تھی۔
چھ سات دن بھی نہیں گزرے تھے کہ اس دن صبح سویرے جب ہسپتال میں کوئی بھی نہیں آتا ہے اور میں اپنے کمرے میں بیٹھا
اخبار پڑھ رہا تھا کہ وہ آہستہ سے دستک دے کر میرے کمرے میں آگئی۔
اداسی اور غم نے اس کی ساری شخصیت کو اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا، وہ خاموشی سے میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی، میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ بولی۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب ابھی بھی میرا کوئی آپریشن نہیں ہوسکتا ہے جس سے میرا علاج ہوسکے۔’’
میں نے اسے پھر اسی آپریشن کے بارے میں بتایا جس کے لئے غلام حسین نے منع کردیا تھا۔ میں نے دوبارہ اسے تفصیلات سمجھائیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب یہ آپریشن کردیں بھلے میں آپریشن کے دوران یا آپریشن کے بعد مر ہی جاؤں۔ اس بدبودار زندگی سے تو نجات مل جائے گی۔ جب تک وہ زندہ تھا تو سب مجھے برداشت کرتے تھے کیونکہ میری اس حالت کے باوجود وہ مجھے اپنے ماتھے پر رکھتا تھا لیکن اب تو میری چھوٹی بہو نے کہہ دیا ہے کہ اس سے بدبو اور میرے ناپاک کپڑے برداشت نہیں ہوتے ہیں۔’’
یہ کہہ کر وہ رودی، تھوڑی دیر خاموش رہ کر وہ پھر بولی ‘‘ڈاکٹر صاحب یہ بات اس نے مجھ سے اکیلے میں نہیں کی میرے بیٹے کے سامنے کی، اسی بیٹے کے سامنے جس کے لئے زندہ رہنے کے لئے میں نے دعائیں کی تھیں، ساری بہوؤں اور بیٹوں کی نظر بدل گئی ہے میرے شوہر کی موت کے بعد
ڈاکٹر صاحب۔ ایک بیٹی ہے جو مجھے اپنے گھر لے جانا چاہتی ہے مگر اس کے سسرال اس بیماری کے ساتھ تو نہیں جاسکتی ہوں میں۔’’ اس کے چہرے پر بہت سارے سوالات تھے۔ سوالات جن کا کوئی جواب نہیں تھا۔
مجھے غلام حسین کا آنسوؤں بھرا چہرہ یاد آگیا، مجھے ایسا لگا جیسے وہ میرے سامنے کھڑا ہے، دبلا پتلا، نظر نیچی کیے ہوئے آنکھوں میں التجا بھری ہوئی، دھیرے دھیرے میرے قریب آیا اور آہستہ آہستہ بولا کہ ڈاکٹر صاحب اس کا آپریشن کردیں، یہ بیٹوں پر بھاری ہوگئی ہے، بیٹی کے گھر میں مرنا اچھا نہیں ہے۔
میں نے بانو کو اسی وقت آپریشن کے لئے داخل کرلیا۔ ٭٭٭