سچی كہانی
آخری پہریدار
آصف محمود
یروشلم میں رات ایسے اتری جیسے پرسہ دینے آئی ہو۔عثمانی فوج کو سلطان کا حکم موصول ہوا: شہر خالی کر دو، معاہدے کے مطابق کچھ عثمانی فوجی ابھی یروشلم میں ہی رہنے تھے تا کہ شہر اچانک اجنبیوں کو دیکھ کر مضطرب نہ ہو جائے ۔ کمانڈر مصطفی نے پیچھے رہ جانے والوں کو ذمہ داریاں سونپیں، ان کی فہرست برطانوی ہم منصب کو بھیجی اور اپنے دستوں کو لے کر شہر سے نکل گیا۔ یخ بستہ رات کے سناٹے میں ، رخصت ہونے والوں کے قدموں کی چاپ دھیرے دھیرے تحليل ہوتی گئی ۔جبل زیتون پر پہنچ کرکماندار مصطفی اچانک رک گیا ۔ جیسے دل میں کوئی تیر آ لگا ہو۔ اس نے اپنے محافظ کو آواز دی: "حسن " ۔
نوجوان دوڑا چلا آیا۔میرے بیٹے ، میں تمہیں ایک امانت سونپنا چاہتا ہوں کمانڈر کے لہجے میں تمکنت سے زیادہ درد اور اداسی تھی۔حکم کریں پاشا ۔"تم فی الحال یہیں رکو۔ مسجد اقصی کو میں تمہاری حفاظت میں دے رہا ہوں۔ حرم میں ہی رہنا اور کوئی غفلت نہ کرنا" مصطفی نے اپنا خنجر اس کی طرف بڑھا دیا ، حسن نے دونوں ہاتھوں سے خنجر تھاما ، اس پر کندہ خلافت کے طغرے کو بوسہ دیتے ہوئے کمر میں اڑس لیا۔
شہر میں جنرل ایلن بے کا لشکر اترا ، ہر طرف اداسی پھيل گئی۔ وہ مگر حدود حرم سے باہر نہیں نکلا، وہ اپنی ڈیوٹی پر موجود رہا۔ حالات معمول پر آنے لگے تو پیچھے رہ جانے والے ترک دستے بھی استنبول روانہ ہو گئے لیکن سپاہی وہیں رہا۔
وقت پر لگا کر اڑتا رہا ،انتداب آیا ، ختم ہو گیا ، اسرائیل قائم ہو گیا ، بغاوت ہوئی ، لڑائی ہوئی ، عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں ، لیکن سپاہی اپنی جگہ پر رہا۔اس کی جوانی ڈھلی ، اس کے بالوں میں سفیدی آنے لگ گئی ، چہرے میں جھریاں اتر آئیں ، بینائی متاثر ہونے لگی ، اس کے ہاتھوں میں رعشہ آ گیا ، لیکن سپاہی نے مورچہ نہیں چھوڑا۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ خاموش رہتا ، اس کے کپڑے پھٹ گئے ، پھر ان پر پیوند لگنے لگے ، پھر پیوند بڑھتے گئے ، حتی کہ چیتھڑے بن گئے ، لیکن اس کا پیرہن وہی رہا۔ لوگوں نے اسے مجذوب سمجھنا شروع کر دیا۔ایک عید پر ہند الحسینی نے اس کے لیے کپڑوں کا قیمتی جوڑا بھیجا ۔ امام مسجد نے اصرار کیا اور سپاہی نے نئے کپڑے پہن لیے۔ عید کی ادائیگی کے تھوڑی دیر امام مسجد نے دیکھا سپاہی پھر انہی چیتھڑوں میں ملبوس تھا۔ انہوں نے محبت سے ڈانٹا ، تمہارے نئے کپڑے کہاں ہیں ، وہ کیوں اتار دیے۔ سپاہی بولا : اب میں ڈیوٹی پر ہوں۔ امام مسجد یہ سوچ کر آگے بڑھ گئے کہ مجذوب ہے۔
دن ، مہینے ، سال ، عشرے گزرتے گئے۔ 1980 کا جاڑا آ گیا۔ سپاہی اب ٹمٹماتا چراغ تھا۔ اس کی عمر اب 84 سال ہو چکی تھی ۔ ہاتھوں میں رعشہ ، بینائی انتہائی کم ، سانس کی تکلیف ، اس سب کے باوجود وہ اپنی ڈیوٹی پر موجود تھا۔ شہر میں اسرائیل کا قبضہ تھا مگر مسجد کے معاملات المجمع الاسلامی دیکھ رہا تھا۔ وقف کے منتظمین سپاہی کی دیکھ بھال کر دیتے تھے کہ اس نے ساری عمر حرم میں گزار دی اب اس عمر میں کہاں جائے گا۔
ایک دن وہ باب السلسلہ کے پاس بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا ۔ بیٹھے بیٹھے اسے جبل زیتون کی وہ رات یاد آ گئی ، جو آنسو اس نے 1916 کی اس یخ بستہ رات کو روک لیے تھے ، وہ سب آج 64 سال بعد اس کی پلکوں میں امڈ آئے۔ اس نے بے اختیار ہو کر کماندار مصطفی کا دیا خنجر نکالا اور اس پر بنے عثمانی طغرے کو چوم کر سینے سے لگا لیا۔ نقاہت ، کمزوری اور رعشے کے سبب وہ خنجر سنبھال نہ سکا اور وہ زمین پر گر گیا۔عین اسی وقت ترک حکومتی وفد وہاں سے گزر رہا تھا جو او آئی سی کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے اردن آیا تھا۔ اس کے سربراہ جلال یلماز کی نظر اس خنجر پر بنے طغرے پر پڑی اور وہ وہیں رک گیا۔ جلال یلماز سلیمان ڈیمیرل کا قریبی آدمی تھا اورسیکولر ہونے کے باوجود روایت پسند شخص تھا ۔ طغرے پر نظر پڑی تو اس کا تجسس بڑھ گیا۔یہ بوڑھا کون ہے؟ اس نے اردن کے وقف کے ترجمان سے سوال کیا۔یہ ایک ترک مجذوب ہے، سالوں سے یہیں ہوتا ہے۔ ترجمان نے جواب دیا۔"آپ مجھے تھوڑی دیر مجذوب کے پاس اکیلا چھوڑ دیں"۔ جلال یلماز وہیں بیٹھ گیا۔چھ دہائیوں بعد پہلی بار سپاہی نے اپنی کہانی کسی کو سنائی۔ جلال یلماز پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اس نے سپاہی کو سمجھایا کہ دیکھو جنگ بھی ختم ہو گئی ہے اور سلطنت بھی ختم ہو چکی ہے ، اب کوئی خلیفہ بھی موجود نہیں ، اسرائیل کو اب ترکی تسلیم کر چکا ہے ، تم بھی 84 سال کے ہو چکے ہو چلو میرے ساتھ واپس اناطولیہ چلو۔
سپاہی مگر بضد تھا کہ کماندار یا خلیفہ کے حکم کے بغیر ڈیوٹی سے واپس نہیں جائے گا۔ وفد کے کچھ لوگوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر سپاہی نے ہونٹوں پر انگلی رکھی : ششش خاموش، یہاں کسی کو کچھ نہ بتانا ، میں ڈیوٹی پر ہوں۔جلال یلماز نے سپاہی کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ وفد کے لوگوں نے سمجھا جلال یلماز کو مجذوب سے عقیدت ہو گئی ہے۔
یلماز نے جاتے جاتے وقف کے منتظمین کو سب بتا دیا مگرا س شرط پر کہ سپاہی کو معلوم نہ ہو كہ اس کا راز فاش ہو چکا ہے۔
چند ماہ بعد ایک صبح موذن فجر کی اذان دینے کے لیے گیا تو اس نے دیکھا سپاہی سجدے میں ہے اور سجدہ طویل ہو چکا ہے۔ سپاہی کی ڈیوٹی مکمل ہو چکی تھی ۔نماز فجر کے بعد امام مسجد نے سپاہی کا راز نمازیوں کے سامنے فاش کر دیا۔ ظہر کے بعد سپاہی کا جنازہ اٹھا تو اسرائیلی انتظامیہ بھی حیران تھی کہ اتنے لوگ کیوں امڈ آئے ہیں۔
باب المغاربہ کے قریب سپاہی کو اس کے خنجر سمیت دفن کر دیا گیا۔ قبر پر کسی نے کتبہ لگا دیا : ایک اجنبی کے نام جو اپنے گھر میں انتقال کر گیا۔ کچھ وقت یہ کتبہ موجود رہا پھر مٹ گیا ، پھر قبر کے نشان بھی معدوم ہو گئے۔ اقصی کی مٹی مگر جانتی ہے کہ اس میں ایک محافظ دفن ہے۔
( سالوں بعد دکھوں کے ہجرتی غزہ میں جمع ہوئے تو انہوں نے تل الھوی میں اس سپاہی کے نام پر مسجد حسن تعمیر کی۔ یہ مسجد حسن بھی اب کارپورل حسن کی طرح شہید ہو چکی ہے)۔
پس نوشت --صحافی إلهان بارداكجي سے ملاقات پر حسن الاغدرلی رحمه الله نے یہ بھی فرمایا تھا : "ہماری یونٹ کے 53 لوگ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے رُکے تھے اور وقت کے ساتھ وہ سب چل بسے ، ہمیں کسی دشمن نے شکست نہیں دی بلکہ وقت نے ہمیں شکست دے دی جب ہم مسلمانوں کی افواج کا انتظار کرتے رہے ۔ اب میں یہاں اکیلا رہ گیا ہوں ۔"ترک صحافی کے بقول حسن الإغدرلي رحمه الله نے مجھ سے ایک درخواست کی تھی کہ ترکی کے فلاں علاقے میں کمانڈر مصطفی کا گھر ہے ، انہیں میرا سلام دیجئے گا اور بتائیے گا : سر ! حسن الإغدرلي آج بھی ڈیوٹی پر موجود ہے ۔ صحافی إلهان بارداكجي کہتے ہیں کہ میں اس پتے پر ضرور گیا لیکن کمانڈر کی وفات ہوئے سالوں گزر چکے تھے ۔