سچی كہانی
تشکر
كلثوم رفيق
مجھے ملتان آۓ کچھ عرصہ ہوا تھا۔۔ ایک خاتون گھر میں مدد کے لئے آتی تھی۔ ایک دن مجھے کہا۔ "باجی۔۔۔ آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ ""کہو۔۔۔ ناں۔۔ "میں کچن میں مصروف تھی ۔ وہ تھوڑی دیر چپ ہوئی پھر کہا "میرا ایک بیٹا۔۔۔ لڑکا ہے۔۔۔ پر۔۔۔ لڑکا نہیں ہے۔۔۔ "میں سالن پکا رہی تھی۔۔ چمچ ایک طرف رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ۔ "کیا مطلب۔۔۔ کھل کر کہو۔۔۔ کیا اس کی عادتیں لڑکیوں جیسی ہیں۔۔؟ "
"نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ باجی۔۔ وہ دیکھنے میں۔۔۔ عادتوں میں لڑکا ہی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ "میں اسے ساتھ لے کر لاونج میں آ بیٹھی۔۔۔ اور اس کا کندھا تھپتھپا کر اسے حوصلہ دیا۔ "باجی۔۔۔۔ میں بچپن سے اسے کچھی پہنا کر رکھتی۔۔۔ کبھی کسی کے سامنے اس کی پاجامی تبدیل نہ کرتی۔۔۔ بڑا ہوتا گیا۔۔۔۔ تو میرے سینے کا بوجھ بڑھتا گیا۔۔۔ اب اسے دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔۔ یہ شیر جوان ہورہا ہے۔۔ چوڑی چھاتی۔۔۔۔۔گھنگریالے کالے سیاہ بال ۔۔میرے باقی بیٹوں سے زیادہ محنتی۔۔"۔اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔"کبھی کسی ڈاکٹر سے چیک کرایا۔۔۔؟ ""جی۔۔۔ جی۔۔۔ وہ جو آپ کے ساتھ والے گھر میں رہتے ہیں۔۔ ""اچھا۔۔ اچھا۔۔۔ یہ جو چار پانچ بھائی ڈاکٹر ہیں۔۔؟ "میں جانتی تھی وہ ان کے گھر بھی کام کرتی ہے۔ "جی باجی۔۔ انھیں سے۔۔۔ ""پھر۔۔۔۔؟ ""باجی۔۔۔ وہ کہتے ہیں ستر ہزار لگے گا۔۔ میں غریب عورت میرا گھر والا مزدور۔۔ جو کبھی دہاڑی پر جاتا ہے اور کبھی نہیں۔۔۔ میں نے تو اتنے پیسے کبھی زندگی میں نہیں دیکھے۔میں اس خاتون کی طرف دیکھتی رہی یہ تو واقعی اس وقت ایک بڑی رقم تھی - گزٹڈ آفیسر کی بھی دس پندرہ ہزار سے زیادہ تنخواہ نہ تھی۔
"اچھا۔۔۔ میں کسی ڈاکٹر سے بات کروں گی۔۔۔ تم تھوڑا انتظار کرو۔ "کچھ دن بعد جب میں ڈیوٹی پر تھی وہ اسے لے آئی۔۔۔لڑکا ایسے شرمایا۔ لجایا۔۔۔میری طرف نظر بھی نہیں ڈال رہا۔۔۔میں نے کوئی توجہ دئیے بغیر ایک ڈاکٹر سے چیک کرایا۔۔اس نے پلاسٹک سرجن کے پاس لے جانے کا کہا ۔۔۔میں وقت نکال کر نشتر ہاسپٹل کے پلاسٹک سرجن کے پاس لے گئی۔ اس نے تسلی سے چیک کیا۔۔ پھر مجھے بلا کر کہا "سسٹر۔۔۔ میں نے آپ کے مریض کو چیک کیا ہے۔۔۔ تقریباً دوبار اس کی سرجری ہوگی کچھ وقفے سے۔۔ ""کوئی مسلہ نہیں۔۔ جب آپ کہیں گے میں اسے ایڈمٹ کرا دوں گی۔ ۔ انویسٹی گیشنز بھی کرا دوں گی۔۔۔ ""ٹھیک ہے۔۔۔ "ڈاکٹر نے سلپ پر تاریخ اور جو ٹسٹ کرانے تھے لکھ دئیے۔ جس دن سرجری تھی اس سے ایک دن پہلے اس کا ہسپتال میں داخلہ ہوگیا۔میداں کو جس کا نام شائد حمیدہ ہو لیکن میداں کہلاتی تھی۔ میں نے اسے کہا "میداں۔۔۔ سرکاری ہسپتالوں کے کام تھوڑے صبر آزما ہوتے ہیں۔۔ تم نے یہاں سے بھاگنا نہیں۔۔ دل چھوٹا نہیں کرنا۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔ اپریشن میں دیر سویر ہو جاۓ۔ ۔ میں تمہیں یہ یقین دلاتی ہوں۔۔ تمہارا کام بہرحال ہو جاۓ گا۔۔ کب ہوگا یہ نہیں بتا سکتی۔ ""آپ فکر نہ کریں۔۔ جب تک آپ نہیں کہیں گی۔۔ میں بیٹھی ہوں۔ "
میں اسے چھوڑ کر گھر آ گئی۔۔ جب ایک دن ڈیپارٹمنٹ کا چکر لگا کر میداں کا پتا کرنے گئی۔ اس کا اپریشن نہیں ہوا تھا۔۔ میں ڈاکٹر صاحب کے آفس کی طرف جارہی تھی۔۔ کہ ڈاکٹر ناہید صاحب کوریڈور میں ہی مل گئے۔۔۔ "سسٹر۔۔۔ آپ کا مریض میرٹ پر نیچے چلا گیا تھا دوسرے نمبر پر۔۔۔۔۔ "میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوۓ۔۔ ان کی طرف دیکھا تو بولے "رات کو ایک ایکسیڈنٹ کیس آ گیا تھا۔۔ جو پرنسپل صاحب کا مریض تھا۔۔ آج بس وہی ایک کیس ہوا۔۔۔ "میں ہنس دی۔۔۔ جی چاہا کہوں۔۔۔
"غریبیں دے ڈیہنہ وڈے ہوندن۔۔۔ تے راتاں اوں توں ای لمبیاں "
"کوئی بات نہیں۔۔۔ اگلی بار سہی۔۔۔ بس صرف یہی گزارش ہے کہ کر دیجئے گا۔ "
ڈاکٹر صاحب نے کہا "جی۔۔۔ہو تو ضرور جاۓ گا۔ "وہ کیس ایک بار پھر پوسٹ پون ہوا۔۔۔ میں پھر ڈاکٹر ناہید صاحب کو اپنی شکل دکھا آتی کہ انھیں یاددہانی ہو۔۔۔۔ جیسا غریب مریض۔۔۔ ویسی ہی غریب اس کی سفارشی۔۔۔۔۔اور ڈاکٹر ناہید صاحب پلاسٹک سرجن نرم خو۔۔۔ بامروت۔۔ لیکن شائد ورک لوڈ تھا۔ ۔ مجھے دیکھ کر شرمندہ سے ہوجاتے۔ بہرحال میداں کے بیٹے کا ایک اپریشن ہوا۔۔۔ کچھ ہی عرصہ بعد۔۔ بغیر کسی انتظار کے دوسری بار بھی اپریشن ہو گیا۔
وہ مکمل فٹ تھا ۔۔۔۔ جب میں کراۓ کے مکان سے اپنے گھر شفٹ ہوئی تو میداں کا میرے گھر روز آنا ممکن نہ تھا۔ لیکن وہ کبھی کبھار مجھے ملنے آتی۔۔ اس کے ساتھ اکثر اس کا وہی بیٹا ہوتا۔۔۔ اس کا چہرہ پر اعتماد ہوتا ۔۔ اور مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک تشکر بھری مسکراہٹ آجاتی۔۔ اس کی شادی ہوچکی ہے بچے ہیں اور وہ شاد اباد ہے۔
اس کی ماں کا صبر اور حوصلہ قابل تحسین ہے ۔ وہ یقینا' داد کی مستحق اور عظیم ہے جس نے ان پڑھ اور غریب ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کی زندگی کو تماشا نہیں بنایا۔۔۔اس کے راز کو راز رکھا۔۔۔ ورنہ تو اسے محلے والے ہی اپنی گھٹیا باتوں سے کھا جاتے۔۔۔وہ ان کی باتوں کی تاب نہ لا سکتا۔ اگر اسے کوئی لے کر نہ بھی جاتا تو وہ خود گھر سے بھاگ کر اس بے مہر دنیا کے بازار میں رل جاتا ۔