مجھ سے تین برس چھوٹی تھی ، گول مٹول، سرخ وسپید،روئی کے گالوں کی طرح نرم۔ یہ میری چھوٹی بہن ''انجم حسن'' تھی۔ جب میں ٹوٹی پھوٹی باتیں کرنے کے قابل ہوا، امی جان سے اصرار کرتا کہ میں اسے گود میں بہلاؤں گا۔ مگر میری فرمائش پوری نہ ہوتی اور میں خوب چلاتا اور غل مچاتا، تب مجھے راضی کرنے کیئے بڑی بہن اسے میری گود میں ڈال دیتی اور میں اسکے ننھے سے ہاتھ پاؤں چھو کر دیکھتا اور خوشی سے تالیاں پیٹتا۔ سال بھرمیں وہ چلنے لگی تو میں اسکا ہاتھ تھام کر گھر کے صحن میں اسے ساتھ رکھتا۔اگلے برس میں سکول میں داخل ہوا تو اس نے بہت شور مچایا۔ علی الصبح بیدار ہوجاتی اور سکول جانے کے لئے مچلتی۔ تب میں نے ازخود ایک فیصلہ کیا۔ اپنی تین پہیوں والی سائیکل سے دست بردار ہو گیا اور اسکے حوالے کر دی۔ پہلے تو وہ سائیکل کی پچھلی سیٹ پر مجھے مضبوطی سے تھام کر بیٹھتی۔ مگر اب وہ خود سائیکل چلاتی اور ساتھ ساتھ ننھی نظمیں الاپتی۔ ڈبے میں ڈبہ۔ڈبے میں کیک ۔میرا بھیا لاکھوں میں ایک ۔ڈبے میں ڈبہ۔ ڈبے میں آٹا۔میرے بھیا کو چوہے نے کاٹا۔
بچپن میں ہم سب بہن بھائی خوب کھیلتے۔ وہ اپنی سہیلیوں اور ہم جولیوں کو بھی اکثر گھر بلا لیتی۔ ہم سب اونچ نیچ، چھپن چپھائی، پٹھو، کیڑی کاڑا کھیلتے۔گڑیا کا بیاہ رچایا جاتا۔ میری ڈیوٹی غنی کی دکان سے بسکٹ اور ٹافیاں لانے کی ہوتی۔ یوں کھیل کود میں بچپن بیت گیا۔ وہ میری لائبریری کی جانی دشمن تھی۔ میں فیروزسنز سے اپنی بچت میں سے ناول خرید کر لاتا مگر کئی کتابیں غائب ہوتیں اور تلاش کرنے پر اسکی چھوٹی سی الماری میں سے برآمد ہوتیں۔ امی میرے احتجاج پر ہنستیں۔ الٹا میری شکایت لگاتی کہ بھیا علم کو قید وبند کی اذیت دیتے ہیں اور کتابیں چھپا کر رکھتے ہیں اور مجھے سخت سست کہا جاتا۔
3 نومبر 1970 کو اسکی ساتویں یا آٹھویں سالگرہ تھی۔ ہم بہن بھائی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی ڈرامہ ''الف، نون'' دیکھ رہے تھے۔ انجم میرے کان میں آہستہ آہستہ کچھ سرگوشیاں کر رہی تھی۔ مجھے صرف اتنا سمجھ آیا،کہ بھیا! آپ نے مجھے سالگرہ پر ربڑ والی جاپانی گڑیا کا تحفہ دینا ہے۔ میرے پاس بھلا اتنے پیسے کہاں تھے۔ میں نے اور بھائی مسعود نے اپنے مٹی کے بنے گلے توڑے۔ مبلغ 21 روپے اورچند آنے برآمد ہوئے۔دس روپے بھائی جان ممتاز نے دیئے۔ ہم دونوں ماڈل ٹاؤن کی لال بس میں سوار ہو کر انارکلی جا پہنچے۔ وہاں چچا بھولا کی کھلونوں کی دکان بہت مشہور تھی، وہ اباجی کو جانتے تھے۔ہم نے بہت سے کھلونے شیلفوں سے نکلوا کر دیکھے۔ بالآخر نیلی آنکھوں والی ایک گڑیا نظر میں جچی۔ تھی تو مہنگی مگر چچا بھولا تیس روپے میں مان گئے۔ سالگرہ کے دن گڑیا کا تحفہ پاکر وہ انتہائی خوش تھی اور اسے سینے سے لگائے اندر باہر پھدکتی پھرتی تھی۔ کئی روز اسے اپنے ساتھ بستر میں سلایا۔اور ہم سب اسکا بچپنا دیکھ کر مسرور ہوتے۔
ہمارے برابر کے گھر میں مرزا منظور برلاس صاحب کا خاندان آباد تھا۔ کچھ عرصہ میں انکے جملہ اہل خانہ سے ہمارے گہرے مراسم استوار ہوگئے۔ مرزا صاحب کثیر العیال تھے۔ انکے بچوں اور نواسے، پوتے پوتیاں، سب کے ساتھ ہم لوگوں کی گاڑھی چھننے لگی۔ روزانہ اکٹھے کھیلتے، انہیں ہم بڑے ابا کہتے۔ انکا ہال روڈ پر Barlexe Radios کے نام سے بڑا کاروبار تھا۔قائداعظم اور مرحوم لیاقت علی خان سے ذاتی تعلق رہا۔ ہمیں بٹھا کر اپنی البم میں سے نادر تصاویر دکھاتے اور قائد کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ کرتے۔ انکے یہاں اکثر ویک اینڈ پر گھر کے وسیع لان میں فیچر فلم لگائی جاتی۔ تمام اہل خانہ اور ہمارا گھر مدعو ہوتا۔ بچوں کو قالین پر بٹھایا جاتا جبکے بڑے پیچھے ترتیب سے دھری کرسیوں پر براجمان ہوتے۔ پہلے بچوں کیلئے Walt Disney کے کارٹون چلائے جاتے۔ اس کے بعد فلم کا شو شروع ہوتا۔ یہ سلسلہ مہینہ میں ایک دو بار لازم ہوتا۔ دیوہیکل پروجیکٹر لایا جاتا۔ فلموں کی بیس پچیس بھاری reels ترتیب سے برابر رکھی جاتیں اور ایک ایک کرکے لوڈ کی جاتیں۔ یہ اچھا خاصا مشکل اہتمام ہوتا۔ اگر وقفہ طول پکڑتا تو انجم مجھے یاد دلاتی کہ اس نے Mickey mouse یا pink panther بہت دن سے نہیں دیکھا۔ ہم دونوں بہن بھائی بڑے ابا کے پاس جاپہنچتے۔ اور فرمائش کرتے۔ مجھے وہ پیار سے پلپلی صاحب بلاتے۔ وہ اسی لمحے دکان پر ظہور انکل کو فون کرتے کہ ''پلپلی صاحب
'' کیلئے بچوں والی فلم لگوادیں اور یوں ہماری خوشی دوبالا ہوجاتی۔
1977 میں اسکے مڈل کے ورنیکلر امتحان تھے۔ اس نے خانہ داری (Home economics) کا مضمون رکھا تھا۔ اباجی دورے پر تھے مجھے کہنے لگی ،بھیا میرے پریکٹیکل کا سنٹر وحدت روڈ سکول بنا ہے۔ آپ نے میرا سامان ساتھ لے جانا ہے۔ علی الصبح مجھے بیدار کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گھر کے پورچ میں ایک چھوٹے باورچی خانہ جتنا سامان قرینہ سے ترتیب وار دھرا ہے۔میں تو چکرا گیا۔ کہا- بی بی! یہ تو ٹرک جتنا سامان ہے۔ ہسننے لگی، بھائی جان میں تو اتنے دن سے انتظام میں مصروف ہوں۔ آپ سے اتنی چھوٹی فرمائش پوری نہیں ہورہی۔ میں موٹر سائیکل پر باہر نکلا۔ ایک رکشہ میں اوپر نیچے۔ کس کسی نہ کسی طرح سامان ٹھونسا۔ اسے بائیک کے پیچھے بٹھایا۔ باقی کی سبزیاں، پھل تھیلوں میں بھر کر آگے لٹکائے۔ لشٹم پشٹم سکول جاپہنچے۔ بچیاں اپنا اپنا اسٹال سجا رہی تھیں۔ انجم نے ایسا شاندار سٹال سجایا۔ تیل کے اسٹوو پر جلد جلد پکوڑے اور چپس بنائے۔ آم کی چٹنی گھر سے لے گئی تھی۔ سلاد کی ڈش آراستہ کی۔ ممتحن اسکی سلیقہ مندی دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ اول انعام کی حقدار ٹہریں۔ ہم دونوں نے واپسی پر راستے میں نہر کنارے بیٹھ کر پکنک منائی۔ میں آم کی چٹنی کے ساتھ سارے پکوڑے ہڑپ کرگیا۔ ان دنوں نہر کے ساتھ جامن کے پیڑوں سے ٹھیکیدار پھل اتار رہے تھے۔ میں نے دو روپے کے جامن لئے اور ہم نے مزے سے کھائے۔
وقت پر لگائے اڑتا رہا اور وہ سکول سے کالج اور یونیورسٹی جاپہنچی۔ جامعہ پنجاب سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری اعزاز سے حاصل کی۔ اسی برس بیاہ کر امریکہ جابسی۔ تب میں میو ہسپتال سے سروسز ہسپتال واپس آگیا تھا۔اسکے ایکا ایکی چلے جانے سے میری آسائشوں کو گویا بریک لگ گئی۔ وہ میرے کپڑے اہتمام سے خود استری کرتی۔ جرابیں اور میچنگ جوتے الماری سے نکلوا کر کسی ملازم سے پالش کرواتی اور ناشتہ کی میز سے مجھے بار بار آوازیں دیتی۔ مجھے اسے یونیورسٹی ڈراپ کرنا ہوتا۔ مگر اس کا اچانک سے چلے جانا مجھے بہت کھلا۔ ملازمہ نہ تو وہ سارے اہتمام کرپاتی۔ اماں مجھے ڈانتیں کہ اپنے کام خود کرو۔ جب امریکہ سے فون آتا تو میری حالت زار کا سن کر بہت محظوظ ہوتی۔ کہتی، بھیا میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھےmiss کیا کریں ۔ ابا جان کا خط ہر مہینہ پندرہ دن بعد تواتر سے ملتا ہے مگر مجال ہے کہ آپ خط لکھیں۔ اور یوں مجھے بھی ایک لمبی جواب آں غزل تحریر کرنا پڑتی۔ میری شادی کے دنوں اسکے بڑے صاحبزادے عمر محمود کی ولادت متوقع تھی۔ ڈاکٹر سلطان صاحب اور میری والدہ نے آخری ایام میں سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر اس نے کسی کی نہ سنی۔ کہنے لگی بھیا کے ماتھے پہ سہرا سجانے کا ارمان سالوں سے دل میں لئیے بیقرار ہوں۔ میں تو اڑ کر بھی پہنچ جاؤں گی۔ عین نکاح کے روز عمر صاحب کا ورود ظہور ہوا۔ شادی کی ِخوشی کو گویا چار چاند لگ گئے۔
امریکہ پہنچ کرsettle ہونے کے بعد ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی خواہشمند تھی۔ Queens میں اسکے گھر کے قریب St. John's university میں رابطہ بھی کیا۔ مگر تین بچوں کی ناز ونعم سے تعلیم و تربیت لاڈپیار اور گھر داری کے ادھیڑ بن میں مزید تعلیم کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔ اس کے سب بچے، انتہائی ذہین ،لائق اور فرمانبردار ہیں۔ عمر، کمپیوٹر انجینئرہے، علی ریڈیالوجی کی ریذیڈنسی مکمل کررہاہے جبکہ فاطمہ ماسٹرز میں داخل ہوا چاہتی ہے۔ ان بچوں اور سلطان بھائی جان کو اس نے ایک پرفسوں حصار میں لے رکھا تھا۔ ان کی ہر خواہش ،ہر فرمائش، ہر چاہت ،مانگے بنا پوری کرتی۔ قابل رشک ماں، پیار بانٹنے والی بیمثال شریک حیات۔ بہنوں، بھائیوں پر جان نچھاور کرنے کو ہر دم تیار۔آٹھ بہن بھائیوں میں وہ ،امی اور ابو کی سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ امی جان بیمار ہوئیں تو علاج کے لئے امریکہ بلوالیا۔ میں نے بہتیرا منع کیا، کہنے لگی، سب ثواب خود ہی سمیٹنا چاہتے ہیں! '' سانوں وی خدمت دا موقع دیو''۔
انجم کیلئے شاپنگ کے دوران چیزوں کا انتخاب سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا۔ اس کی شادی سے قبل مجھے اکثر ڈرائیور کا فریضہ انجام دینا پڑتا۔ میں تو پارکنگ لاٹ میں گاڑی میں سوجاتا۔ باجی اور امی کیساتھ دیر گئے واپس آتی اور کہتی یہاں کی ورائٹی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ چلیں شادمان مارکیٹ چیک کرتے ہیں اور میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔ مگر اس کا انتخاب بڑھیا اور لاجواب ہوتا۔ نیویارک میں ایک روز بچپن کے دنوں کا ذکر چھڑا۔ اپنے بچوں کی کھانے کے باب میں choosy ہونے کا ذکر کرنے لگی۔ آجکل کے بچوں کو سبزی پسند نہ آئے تو میں کتنے options دیتی ہوں۔ چپس کھا لو، نگیٹس بنا دیتی ہوں، پاستا کھالو، کروسان croissant کو مکھن لگا دیتی ہوں، پیزا بنا دیتی ہوں،وغیرہ وغیرہ۔ اور ایک وہ ہمارا دور تھا۔ امی کے پاس دو ہی options ہوتے تھے ''سبزی کھانی ہے یا چپل،؟؟الحمدللہ۔ ہم دونوں ہی کھا لیتے تھے پہلے چپل پِھر سبزی۔ کہتی لاہور جاتی ہوں تو امی اور بھابھی انڈے ،پراٹھے ،کڑاہی، بھنا گوشت، نہاری اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں دستر خوان پر چن دیتی ہیں۔ مگر مجال ہے کہ یہ کچھ بھی چکھیں۔ پھر برگر یا پیزا منگواتے ہیں اور مزے سے اڑاتے ہیں۔ کہتیں! امی جان کہتی ہیں کہ یہ پنجابی چوہدریوں کے بچے ہی نہیں لگتے۔ ہم سب امی جان کی حیرت پر خوب محظوظ ہوتے ہیں
پانچ سال قبل اسے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ پے در پے جراحی کے جانگسل مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ کیمو تھراپی اور ریڈئیشن بھی دنیا بھر کے بہترین مرکز سے کروائی۔ کینسر کا عفریت اسکے دراز گیسو اڑا لے گیا۔ مگر اس کے چہرے پر ملال کا شائبہ بھی نمودار نہ ہوا۔ سال دو سال خیر سے گزرے۔ ہم سب بہت خوش اور اللہ پاک کے احسان مند تھے مگر ایک برس قبل بیماری دوبارہ حملہ آور ہوئی۔ اس مرتبہ سرطان نے سارے جسم وجان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مگر صبر و عزیمت کی اس بیمثال اور غیر معمولی اعصاب کی مالک ہستی نے بیماری کا بھرپور مقابلہ اس انداز میں کیا کہ اپنا کوئی معمول متاثر نہ ہونے دیا۔ تہجد کے وقت بیداری، کلام پاک کی تلاوت، بچوں کو تیار کرنا، قسم قسم کے لذیذ پکوان تیار کرنا۔ گھر کو آئینہ کی مانند چمکا کر رکھنا۔ ملازمہ کو بھی اپنے ہاتھ سے چائے ،کافی پلانا۔ اللہ اللہ۔ خدمت، محبت ،ایثار، کی اعلی مثال۔
اس سال میں دوتین مرتبہ اسے ملنے نیویارک گیا۔ آخری ملاقات اپریل میں ہوئی۔ میری آمد پر بہت مسرور تھی۔ کمزوری اور نقاہت کے باوجود کھانے کی میز انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھری تھی۔ مجھے مٹر پلاؤ بہت مرغوب ہے۔ ساتھ میں بھنا گوشت۔ فرائڈ فش اور تڑکے والی مکھنی دال اور نہ جانے کیا کیا اہتمام کررکھے تھے۔ اتنا پیار دیکھ کر میرا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ آنسو ٹپ ٹپ کھانے میں بہہ رہے تھے۔ بہنوں ، بیٹیوں کو پردیس بیاہنا اتنا تکلیف دہ کیوں ہے۔ ایک ہفتہ جیسے پل بھر میں گزر گیا۔ ہم پہروں ماضی کی خوش کن یادوں کو دہراتے۔ میں اسے بچپن کی معصوم شرارتیں یاد دلاتا۔ ایک روز میں صبح کی سیر کیلئے اسکے گھر کے قریب Cunningham park چلا گیا۔ موسم خوشگوار تھا۔ واپسی دوسرے اور قدرے لمبے راستہ سے کی۔ شاید دوتین گھنٹے بیت گئے۔ واپس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر کے باہر پریشان کھڑی ہے۔ بھیا! آپ نے آنے میں اتنی دیر لگا دی۔ اگر کچھ دیر اور نہ آتے تو میں گاڑی نکالنے ہی والی تھی۔ وقت رِخصت میرا اپنا دل انتہائی مضطرب تھا۔ میرا ہاتھ تھام کر بولی، بھیا، یہ میری آپ کی آخری ملاقات ہے۔ ساری عمر آپکو بہت ستایا ہے، اب نہیں ستاؤں گی۔ میرے بچوں کو بھول نہ جانا۔ میرا کلیجہ ضبط سے پہلے ہی پھٹنے کو تھا۔ مجھے رونا اچھا نہیں لگتا مگر میں اسے گلے لگا کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ اسکے آنسو اور ہچکیاں دیکھ نہ پایا۔ بھائی سلطان اور بچے بھی آبدیدہ ہوگئے۔ بوجھل قدموں،بھیگی آنکھوں اور کرچی کرچی دل سے لاہور کیلئے روانہ ہوگیا۔ جدائی کا وہ لمحہ آج بھی میری روح کو عجب طرح کے کرب میں لے جاتاہے۔ شاید یہ کھوکھ کے ساتھیوں کی جدائی ہے یا ِخون کی گانٹھوں کی مضبوطی۔ اللہ سبحان ہی بہتر جانتا ہے۔ مگر صبر کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ بھی نہیں۔
بیماری کے دورانیہ میں اسکا علاج دنیا کے بہترین ہسپتالوں سے کرایا گیا۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آخری ایام میں نقاہت اور بیماری نے نیم جان کردیا۔ مگر صبروشکر کے اس پیکر نے بیماری کا بساط سے بڑھ کر جان توڑ مقابلہ کیا۔ جان جان آفرین کے سپرد کرتے ہوئے کلمہ اور ذکر الہی زبان پر جاری تھا۔ نہ معلوم کتنوں کو دل فگار، آہوں اور سسکیوں کے کرب میں چھوڑ کر ماڈل ٹاؤن کے گلستان سے اپنا سفر زیست شروع کرکے نیویارک کے long island کے قبرستان میں جا آسودہ خاک ہوئی۔ ایک غمگین شہید کے باپ سے میں نے عجب بات سنی کہ چھوٹے بچوں کے جنازے بہت بھاری ہوتے ہیں۔ انکے بوجھ سے ہڈیاں تو نہیں چٹختیں، روح کرچی کرچی ہو جاتی ہے۔ اندر کا وجود بے جان کرم خوردہ درخت کی مانند زمین بوس ہو جاتاہے۔ پت جھڑ، بہار سے پہلے نمودار ہوجاتا ہے اورجاڑے کی یخ ہوائیں جسم کو مس نہیں کرتی، چھلنی کردیتی ہیں۔ دھوپ چھاؤں کے اسی کھیل کا نام تو زندگی رکھا گیا ہے۔
اے میری مالک میری بہن اور گوشہ جگر پر اپنی رحمت اور مغفرت کا خاص معاملہ کرنا۔ میری التجا کو رد نہ کرنا۔
محشر کے روز فرشتوں سے پوچھوں گا کہ ننھے بچے کہاں ہیں۔ بالاخر اپنی گڑیا جیسی بہن کو ڈھونڈ نکالوں گا۔ بہت شور اور غل مچاؤں گا اور گود میں بٹھا کر اسکے ننھے ہاتھوں سے کھیلوں گا۔ اپنی ٹرائی سائیکل اس کو دے دوں گا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھلونے اور چچا بھولا والی جاپانی ربڑ کی گڑیا اسکو دلواؤں گا۔ ٭٭٭