مملکت سعودی عربیہ کے اندر مختلف قوموں و نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں دعوتی و دینی بیداری پیدا کرنے والے ادارے میں میری نگاہ سانولے رنگ کے ایک ایسے شخص پر پڑی جو نہایت انہماک سے کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتا تھا، جو بھی کتاب ہاتھ لگ جاتی پوری توجہ سے اسے پڑھنے لگ جاتا۔ اس کے چہرہ سے کبھی اکتاہٹ یا تھکان کا احساس نہیں ہوتا تھا، خاص طور سے قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا مطالعہ بڑی دل چسپی سے کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس سے قریب ہو ا تو غیر عربی انداز میں رک رک کر اس نے سورہ فاتحہ مجھے پڑھ کر سنائی، اور بولا کہ کچھ چھوٹی چھوٹی سورتیں زبانی بھی یاد ہیں کیونکہ یہ نماز کے لئے ضروری ہیں۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ نو مسلم ہے، تومیں نے ان کے اسلام قبول کرنے سے متعلق چند سوالات کئے۔اس نے بڑی بشاشت اور اطمینان سے اس کا جواب دیا جو قارئین کے لئے پیش ہے۔
سوال: سب سے پہلے اگر آپ اپنا تعارف کرا دیں تو میں مشکور ہوں گا؟
جواب: میرا نام اس وقت طٰہ ہے اسلام قبول کرنے سے پہلے مجھے جونی کہا جاتا تھا۔
سوال: آپ کہاں کے باشندہ ہیں اور آپ کی عمر اس وقت کیا ہے؟
جواب: میں افریقی ملک یوگنڈہ کے جاثم شہر کا رہنے والا ہوں، اور اس وقت میری عمر تیس سال ہے۔
سوال: آپ پہلے کس مذہب کے پیروکار تھے؟
جواب: قبول اسلام سے قبل میں کیتھولک عیسائی مذہب کا پیروکار تھا، اور اس مذہب کا میں صرف پیرو کار ہی نہیں بلکہ داعی و مبلغ اور سرگرم رکن تھا۔اسی لئے انھوں نے مجھے چرچ کی لائبریری کا انچارج مقرر کر دیا تھا۔
سوال: اپنے مذہب سے بے رغبتی اور اسلام کی طرف رغبت و محبت کس طرح پیدا ہوئی؟
جواب: میرے اندر مذہب پرستی یا عیسائی دینداری دوسرے عیسائیوں سے مختلف نہیں تھی، یعنی جس طرح اس مذہب کے ماننے والوں میں اندھی تقلید ہوا کرتی ہے میرے اندر بھی سنی سنائی باتوں کا ماننا اور اس پر عمل پیرا رہنا تھا، مگر چرچ کی بیشتر باتوں سے میں مطمئن نہیں تھا، اس عدم اطمینان کے باوجود میں اسے جوں کا توں بغیر چوں چرا کے تسلیم کرتا اور مانتا تھا، کیونکہ سالوں سے چرچ نے مجھے اسی کا عادی بنایا تھا۔
سوال: تو کیا آپ نے کبھی اس کے خلاف لب کشائی کی؟
جوا ب: میری بے اطمینانی بڑھتی گئی اور اس کی تحریف شدہ تعلیمات میں نقائص و کوتاہیوں کا احساس میرے اندر شدید تر ہوتا گیا اور اس مذہب کی تعلیمات میں فکر انسانی نے جو کھلواڑ کئے اور تحریفات کی ہیں اس سے عدم اطمینان اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: ‘فَوَیْلُ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ’ ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ کی طرف سے کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں ان کے ہاتھوں کی لکھائی اور کمائی کو ہلاکت و افسوس ہے (سورہ بقرہ:۹۷)میں نے اپنے مذہب اور اس کے ٹھیکیداروں کے طرز عمل میں کافی غور و فکر کیا اور ہر پہلو سے اس کے اندر گہرائی سے سوچا تو اندازہ ہوا کہ اس قوم کی جو مقدس ہستیاں و پادری اور دوسرے مذہبی رہنما ہیں جن کے ساتھ قریب رہنے اور ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملا، ان کے اور ان کی محبت و اخلاص اور دیگر شعائر کے درمیان کافی فرق اور تضاد ہے۔یہ لوگ رہبانیت کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں مگر عملی زندگی کا رخ اس کے مخالف سمت میں رواں دواں ہے۔
سوال: کیا آپ نے قرآن میں کچھ پایا؟
جوا ب: ہاں قرآن میں ایک نکتہ پایا، اس کی اہمیت کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا، میں نے سورہ مریم کا انگریزی ترجمہ پڑھا، تو اندازہ ہوا کہ اسلام اور اس تحریف شدہ دین میں کافی فرق ہے اس دین میں حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیا جاتا ہے جب کہ یہ ایسا بہتان ہے کہ اس سے ساتوں آسمان پھٹ جانے کا اندیشہ ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ان کا کہنا ہے کہ اللہ رحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے، یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں، کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں رحمن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے، آسمان زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب غلام بن کر ہی آنے والے ہیں۔ (سورہ مریم:۸۸۔۳۹)
سوال: آپ نے سابقہ مذہب اور اسلام میں اس کے علاوہ اور کیا فرق پایا؟
جوا ب: ایک بات اور بھی میں نے اپنی قوم میں پائی ہے، جس کی اہمیت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں اللہ کی وحدانیت سے متعارف ہوا، میں نے اپنی قوم کو پایا کہ وہ طہارت نام کی کسی چیز کو جانتے ہی نہیں ہیں، حد تو یہ ہے کہ ہم بستر ی کے بعد بھی اسے ضروری نہیں سمجھتے ہیں، میں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے بعض مشائخ ایک دو کان پر کھڑے ہیں اور لوگ پاکی سے متعلق ان کا مذاق اڑا رہے ہیں، ان لوگوں نے شیخ صاحب سے کہا کیا اس کتے پر غسل فرض ہے اگر اسے احتلام ہو جائے؟تو شیخ نے فوراً اسے جواب دیا یہ تمھارے ہی جیسا ہے جو پاکی حاصل نہیں کرتا۔
سوال: اس کے علاوہ بھی آپ نے کوئی بات دیکھی؟
جوا ب: اور بھی اسی طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو میں نے اپنی قوم کے اندر پائیں، انھوں نے اپنی تعلیمات کو بگاڑ دیا، اس میں تحریف و رد و بدل کیا اپنے پیرو کاروں کو دین کے نام پر دھوکہ دیتے رہے ان کا قیمتی سرمایہ مال و متاع حاصل کرتے رہے، وہ لوگوں سے مغفرت اور گناہوں کو دھو دینے کا وعدہ کرتے رہے، ان کا کہنا ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ جو جی میں آئے کریں کیونکہ لوگوں کے نجات دلانے کے لئے خدا نے اپنے بیٹے کو ذبح کرا دیا ہے ان باتوں کا میں اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کرتا رہا روحانی فادر ہم جیسے عوام کو نصیحت کرتے رہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مت رہو، کیونکہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔
سوال: پھر آپ نے اپنی زندگی کا رخ تبدیل کرنے کا فیصلہ کس طرح کیا؟
جوا ب: ہمارا ایک دوست تھا جس کا نام طٰہ تھا، میرا تعارف اس سے چار سال قبل ہوا، وہ اسلام کا بڑا متبع اور اسلامی دعوت سے والہانہ تعلق رکھتا تھا اس نے مجھے قرآن کریم کے ترجمہ کا ایک نسخہ تحفہ دیا اور قرآن کا مطالعہ خاص طور پر سورہ مریم پڑھنے کی تاکید کی اور متعدد مرتبہ مجھے اپنے گھر بھی لے گیا، مجھے ایک ویڈیوکیسٹ دی جس میں حرم مکہ کی نماز کا منظر تھا میں نے اس میں دیکھا کہ نماز میں سارے مسلمان برابر ہیں ایک دوسرے کے بازو میں کھڑے ہوتے ہیں ان کے درمیان نہ کوئی خط امتیاز ہوتا ہے نہ فوقیت اور برتری کی جھلک یہ بات چرچ کے اندر روا رکھے جانے والے گروہی امتیاز، نسلی تفریق اور بد ترین اونچ نیچ کے بالکل بر عکس تھی، پھر تو میرے اندر جستجو بڑھ گئی اور میں طہ سے قریب ہوتا چلا گیا۔
سوال: پھر آپ نے اسلام کا اظہار کس طرح کیا؟
جواب: طٰہٰ سے قریب ہونے کے بعد مجھے نزدیک سے اسلام کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، اور میں نے ان کے سامنے اسلام میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تو وہ مجھے جوانوں کی تنظیم ‘‘القمر دعوت اسلامی’’نامی ادارہ لے گئے، اور اسلام قبول کرنے میں میری دستگیری کی۔
سوال: اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی زندگی میں کیا نشیب و فراز آئے؟
جواب: اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں عقیدہ توحید کے سایہ میں پر سکون زندگی گزارنے کی راہ پر چل پڑا، اب میرے کاندھے سے عقیدہ تثلیث کا بار گراں اتر چکا تھا اور میں ایک دوسرا انسان بن چکا تھا ایسا انسان جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین برحق ہونے اور محمد ﷺ کے نبی و رسول ہونے اور تمام انبیاء و رسولوں کا ایک پیغام کا حامل ہونے پر ایمان رکھتا تھا۔جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہی: ‘مِلَّۃَاَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا (سورہ حج:۸۷) اپنے باپ ابراہیم کے دین کو قائم رکھو، اسی اللہ نے تمھارا نام مسلمان رکھا ہے۔
اس قرآن سے پہلے اس قرآن میں بھی اس کے بعد میری ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے میری راہ پہلے سے مختلف ہوتی ہے اور یہ راہ انذار و تبشیر اور دانائی کے ساتھ اللہ کی طرف بلانے اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کی راہ تھی۔
سوال: آپ نے اپنی دعوت اور محنت کا آغاز کہاں سے کیا؟
جواب: میں نے اپنی دعوت اور محنت کا آغاز اپنے والدین سے کیا میں ان کے پاس گیا کہ انھیں اپنے اسلام قبول کرنے اور نئے نام کی اطلاع دوں اور اسلامی عقائد سے روشناس کراؤں اور اسلام کی باتیں انھیں بتاؤں اور سمجھاؤں۔
سوال:تو والدین کا رد عمل کیا تھا؟
جواب:میرے والد صاحب نے حیرانی و استعجاب کے عالم میں مجھ سے دریافت کیا آخر کیوں؟کس وجہ سے تم نے اپنے آباء واجداد اور بزرگوں کے دین کو چھوڑا؟تم آج سے میری اولاد نہیں، تم آج کے بعد سے میرے پاس مت رہو، البتہ میں نے والدہ کو ہوش مند اور معقولیت پسند پایا انھوں نے کہا کہ جون میرا بیٹا عقل مند ہے اگر وہ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ارادہ کا اختیار ہے۔ اس جواب کو سن کر والد صاحب نے ہم دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر تم اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو چلی جاؤ، میں تجھے دیکھنا نہیں چاہتا ہوں۔پھر میں اپنی شریک حیات کے پاس گیا، میرے اس سے دو بچے تھے میں نے اس سے کہا میرے پاس بہت ہی عمدہ خبر ہے اس نے سوالیہ نگاہ ڈالتے ہوئے کہا وہ کیا ہے؟ میں نے کہا میرا نام اب طٰہٰ ہے اور میں مسلمان ہو چکا ہوں، اس نے کہا میں تیرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، میں نے ثابت قدمی سے جواب دیا اگر تم گھر میں مسلمان کو دیکھنا نہیں چاہتی تو جا سکتی ہو، وہ میرے پاس سے نکل گئی اور اپنے میکے والوں سے جا ملی۔ میرے ساتھ اس طرح کے متعدد حالات آتے رہے اور آزمائش روز افزوں بڑھتی گئی، والد نے ترک تعلق کر لیا بیوی نے ساتھ چھوڑ دیا البتہ ماں غیر جانبدار رہی۔
وال:چرچ والوں کا سلوک کیسا رہا؟
جواب:جہاں تک چرچ کے ذمہ داروں کی بات ہے تو انھوں نے پہلے پانچ لوگوں کو مجھے چرچ لے کر آنے کے لئے بھیجا اور یہیں سے میری مصیبتوں کا دور شروع ہوتا ہے انھوں نے مجھے لالچ بھی دیا اور سبز باغ بھی دکھایا اور بہت سی مراعات کی پیش کش بھی کی، انھوں نے مجھ سے کہا، جون کیا تم پاگل ہو گئے ہو تمہیں پاگل خانے لے کر جاؤں؟تو تم نے اسلام کیوں قبول کیا؟ہم لوگ دولت مند اور وہ لوگ غریب ہیں تمھیں کیا چاہئے؟گھر، بنگلہ، گاڑی یا کچھ اور؟ پھر انھوں نے کہا جون وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہایت باطل اور اہانت آمیز عقیدہ رکھتے ہیں پھر اس ذمہ دار نے قرآن کا ایک نسخہ نکالا اور سورہ مریم کھول کر کہنے لگا دیکھو، یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ انسان اور پیغمبر تھے اور ہمارا ایمان ہے کہ وہ خدا تھے۔ تمھارا کیا خیال ہے ان ساری باتوں کے باوجود کیا تم اسلام پر باقی رہنا چاہتے ہو؟ جب
میں نے اثبات میں جواب دیا تو ہمیں دھمکی دینی شروع کی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس صورت حال میں ہم کسی قیمت پر اس شہر میں تمھاری موجودگی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے جواب میں صرف اتنا کہا آپ مجھے قتل کر دیں مجھے پرواہ نہیں میں مسلمان ہوں اور مسلمان رہو گا مجھے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد میں نے اپنے گھر کے ایک حصہ کو مسجد بنا لیا، اور لوگوں میں اس دین حق کی دعوت عام کرنے میں لگ گیا اور سب سے پہلے میری دعوت کو قبول کرنے والی میری سابقہ شریک حیات تھی۔ جو ایک غیر مسلم سے شادی کر لینے کے بعد میرے پاس لوٹ کر آئی، اور بولی کہ میں مسلمان ہو نا چاہتی ہوں، خواہ تم مجھے اپنے پاس رکھو یا نہ رکھو میں نے اسے بوسہ دیا اور اسے گلے سے لگا لیا، اور نئی بیوی کے ساتھ اسے بھی اپنی زوجیت میں باقی رکھا۔ اب میرے پاس دو بیویاں تھیں اور میں دعوت کے کام کے لئے زیادہ فارغ ہو گیا تھا۔
سوال:آپ کی دعوت کا کیا نتیجہ سامنے آیا؟
جواب:الحمد للہ اب تک اس شہر کے تیس نو جوان میری دعوت قبول کر کے حلقہ بگوش اسلام ہو کر ہدایت پا چکے ہیں۔
سوال:چرچ والوں کا رویہ بعد میں کیسا رہا؟
جواب:نو جوانوں کو اس طرح اسلام میں داخل ہو تے دیکھ کر اور میری سرگرمیوں سے خار کھاتے ہوئے چرچ کے اس ذمہ دار نے میرا گھر منہدم کر دیا، حالانکہ میں نے اسے مسجد بنا دیا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمام اسلام قبول کرنے والوں کو ثابت قدم رکھے اور تمام آلام و مصائب پر صبر کرنے کی توفیق دے اور ہمیں دین کا مخلص داعی بنائے۔آمین
(مستفاد از ماہ نامہ‘ارمغان’ جنوری ۲۰۰۷)
من الظلمت الی النور