اے رُخِ رُوحِ حقیقت! اے دَمِ کارِ حیات! اے نگاہِ فلک اے صورتِ معمارِ حیات!
کاشف الکرب، مہد، اے عرَبی، اے مدنی! اے بِنائے رہِ الفت! شہِ اسرارِ حیات!
٭٭٭
نامہ بر نے مجھے پیغام دیا ہے کہ لکھوں
آپ کے نام وہ چٹھی جو مرا حال بتائے
جو مرے روتے ہوئے چہرے کی تصویر دکھائے
جو مرے ٹُوٹے ہوئے دِل کے مہ وسال بتائے
سوچتاہوں کہ مسرّت کہے یا غم مرا خط
آپ کو پڑھ کے سنائے گا وہ جس دم مرا خط
میں یہاں آئینہ دیکھوں گا تو مَر جاؤں گا
اپنی نظروں سے میں نظریں نہ مِلا پاؤں گا
پھر محبت کے دلاسے کی مہک اُترے گی
اِس تڑپتے ہوئے سینے کے دھڑکتے دل میں
آس اُترے گی، تو پیاسے کی کسک اُترے گی
آپ سے نظریں مِلانے کی تو ہمّت ہی نہیں
آپ کے سامنے آنے کی تو ہمّت ہی نہیں
میرا غم آپ سے پوشیدہ نہیں ہے آقا!
آپ تو جانتے ہیں، لوگوں سے بیزارہوں میں
میرا دِل جینے کا گرویدہ نہیں ہے آقا!
ایک مایوسی ہے جو ذہن پہ چھائی ہوئی ہے
کوئی جذبہ مرا سنجیدہ نہیں ہے آقا!
سوچ نے وہم و گماں پال لیے ہیں کتنے
دِل تو ہے، دِل کا مگر دیدہ نہیں ہے آقا!
میں ہوں شرمندہ کوئی وعدہ وفا کرنہ سکا
آپ کے نام پہ دعوے تو کیے، مَر نہ سکا
نفس کو نفس کی تہذیب سے محروم کیا
ظرفِ دِل آپ کی رحمت سے کبھی بھرنہ سکا
زندگی بھر بُتِ شہوات کو پوجا میں نے
اپنی پیشانی سرِ خاکِ شفا دھرنہ سکا
عشق اوڑھا تو فقط نام کمانے کے لیے
آپ کا نام لیا، کام چلانے کے لیے
ربِّ غفار کے پیارے! اے غریبوں کے وکیل!
اے محبت کے پیمبر، اے صداقت کی دلیل!
ایک عرضی ہے، مجھے بارشِ عصیاں سے بچائیں!
عشق پیچاں سے بچائیں! رہِ ناداں سے بچائیں!
یہ جو مایوس ہے، روتاہوا، محرومِ یقیں
مجھ کو میرے، اِسی، مرتے ہوئے انساں سے بچائیں!
یہ مرادوست جو آیا ہوا ہے آپ کے پاس
یہ کوئی میری طرح درد کا مارا ہوگا
سوچتاہوں کہ وہ لمحات مرا سب کچھ ہیں
جن میں اِس طالب دیدار کا چارہ ہوگا
اشک آنکھوں میں لِیے، آپ سے باتیں کرے گا
کِس قدر آپ کا، قاسم کوسہارا ہوگا
آپ کا نام مری بات بتانے کے لیے
آپ کے پاس کھڑے ہوکے پکارا ہوگا
٭٭٭
اے مہِ شہرِ شرافت، اے گُلِ عالمِ ہفت خُلقِ اکمل، اے شہ ِ حسنِ تکلّم، اے حسیں!
مجھ بھٹکتے ہوئے انساں کو سہارا دے دیں وہ جو بچپن میں دیا تھا وہ دوبارہ دے دیں
ادریس آزاد صاحب نے یہ کلام لکھ کر اپنے ایک دوست کو دیا کہ سرکار کی بارگاہ میں ان کی طرف سے پیش کریں۔
٭٭٭