نظم از فقیر سائیں
٭٭٭
شاعر کے بعض خیالات سے عدم اتفاق کے باوجودسوئے حرم ان کی یہ خوبصورت نظم شائع کر رہا ہے کیونکہ اس میں امت کی موجودہ حالت کے لیے ایک خوبصورت پیغام عمل ہے۔ حالات کاتقاضا ہے کہ ہم اسے ایک وقتی تدبیر کے طور پر اختیار کریں کیونکہ ماضی سے اپنا رشتہ کاٹنا اورما ضی کو بھلانا گویاشاخِ بریدہ پر ثمر پیدا کرنے کی ایک کاوش ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح دین پر عمل کرنے لیے دنیا کو بھلانا ضروری نہیں اسی طرح امت کو موجودہ پستی سے نکالنے کے لیے ان کا ماضی سے رشتہ کاٹنا ضروری نہیں۔ صرف ان کو مثبت سوچ دینا، ان کا رخ صحیح کرنا،اور ان کو باتو ں سے زیادہ عمل پہ آمادہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ کرے کہ شاعر غربت کے گہرے گھاؤ پہ مرہم لگانے کا عملی کام بھی کر رہے ہوں۔
٭٭٭
مرے بچو مجھے تم سے ضر وری بات کرنی ہے
تخیل کے کبوتر جب کبھی پرواز کرتے ہیں
پلٹنے پر عیاں انمول سے کچھ راز ہوتے ہیں
مر ے بچوکبھی میں بھی یہاں اک طفل مکتب تھا
چمن کتنا دگرگوں ہے مجھے ادرا ک ہی کب تھا
میرے استاد مجھ کو بھی ’سب اچھا ہے‘پڑھاتے تھے
مرے دم سے یہ دنیاہے یہی مژدہ سناتے تھے
وہ کہتے تھے کہ سب اغیار ہی مکار ہوتے ہیں
فقط ہم ہیں کہ جو سچائی کا معیار ہوتے ہیں
مگر دنیا کو جب دیکھا تو منظر اور ہی نکلا
زمیں کچھ اور ہی نکلی سمندر اور ہی نکلا
سو ا ب تم سے بیاں یہ صورت حالات کرنی ہے
میرے بچو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
ہمارے ہاں وفاداری کایہ معیار ہوتا ہے
برا اغیار کو کہیے توبیڑا پار ہوتا ہے
غضب یہ ہے یہاں ہر وہ نفس غدار ہوتا ہے
جسے امن واماں کا راستہ درکار ہوتا ہے
ہمیں دشمن سے خائف بھی وہی سالار کرتے ہیں
کہ جو اپنے لیے بنگلے محل تیار کرتے ہیں
ہمیں کہتے رہے غیرت کی خاطرگھاس کھانے کو
جو خود بھیجا کیے اولاد امریکہ پڑھانے کو
نہ کوئی آگہی دیتے ہیں نہ تہذیب دیتے ہیں
ہمیں واعظ مسلسل موت کی ترغیب دیتے ہیں
ہمیں اب یہ سرنگوں خواہش اموات کرنی ہے
میرے بچو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
ہمیں نفرت کدورت کی زبانوں کو نہیں سننا
سو اب سازش کی جھوٹی داستانوں کو نہیں سننا
ہمیں بے فائدہ پندار سے پرہیز کرنا ہے
زمینِ فکر کو سیراب اور زرخیز کرنا ہے
ہمیں کرنی نہیں شاہین اور شمشیر کی باتیں
اگر کرنی ہیں تو محنت کی اور تدبیر کی باتیں
ہمیں اپنے جیالوں کی نہج دشوار کرنی ہے
چنانچہ منہدم نفرت کی ہر دیوار کرنی ہے
رواداری کو اپنانا تعصب چھوڑ دینا ہے
ہمیں اپنے رویوں کو سرے سے موڑ دینا ہے
ہمیں اپنے پڑوسی سے مراسم ٹھیک کرنے ہیں
جنہیں ہم دور کر بیٹھے وہ پھر نزدیک کرنے ہیں
سفر دھیما، نظر چوکس، روش محتاط کرنی ہے
میرے بچو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
ہمیں اپنی اناؤں کے قلعے تسخیر کر نے ہیں
متاع عاجزی سے آشیاں تعمیر کرنے ہیں
پرائے علم و دانش کی ہمیں تعظیم کرنی ہے
ہماری اپنی کوتاہی ہمیں تسلیم کرنی ہے
ہمیں اس گھر کو تعلیم و ترقی سے سجانا ہے
گلوں کی آبیاری سے چمن دلکش بنانا ہے
ہمیں اپنے دلوں کو اس طرح سے صاف کرنا ہے
کہ ذاتی مصلحت سے ماورا انصاف کرنا ہے
تن آسانی کو محنت سے ہمیشہ بعد رکھنا ہے
ہمیں خرگوش اور کچھوے کا قصہ یاد رکھنا ہے
ہمیں بھی ایک دن تسخیر کائنات کرنی ہے
میرے بچو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
محبت کے ثمر والے شجر پیہم اگانے ہیں
ہمیں غربت کے گہرے گھاؤپر مرہم لگانے ہیں
ہمیں رشوت سفارش کے شکنجے سے نکلنا ہے
ہمیں دہشت کے اس خونخوار پنجے سے نکلنا ہے
تحمل اور تدبر سے جہالت مات کرنی ہے
چمن سے ختم اب یہ کثرت آفات کرنی ہے
نہ شب کو دن بتانا تھا نہ دن کو رات کرنی تھی
نہ کرنا تھا کوئی احساں نہ کچھ خیرات کرنی تھی
یہی تھوڑی بہت آگا ہی حالات کرنی تھی
میرے بچو مجھے تم سے بس اتنی بات کرنی تھی
٭٭٭
باپ
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ و جان سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے!
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے!
وہ لوٹتا ہے کہیں رات کو دیر گئے، دن بھر
وجود اس کا پیسنا میں ڈھل کر بہتا ہے!
گلے رہتے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے!
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
مگر کھلونے میرے سب وہ خرید کے لاتا ہے!
وہ مجھے سوئے ہوئے دیکھتا رہتا ہے جی بھر کے
نجانے کیا کیا سوچ کر وہ مسکراتا رہتا ہے!
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے