سیدہ خدیجہؓ

مصنف : مولانا محمد جعفر شاہ پھلواریؒ

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : مئی 2014

سیرت النبی ﷺ
سیدہ خدیجہ ؓ
مولانا جعفر شاہ پھلواری

 

 

 

    دنیابھر سے آپ اپنی تعظیم کرا لیجیے، سجدے کرالیجیے لیکن بیوی پر آپ کا جادو نہیں چل سکتا۔ آپ اْس کے سامنے کشف و کرامات کا انبار لگا دیں اور آسمان پر اڑنا شروع کردیں۔ جب بھی وہ آپ کی اولیائی میں نقص نکال کر کہہ دے گی کہ تم ذرا ٹیڑھے ٹیڑھے اْڑ رہے تھے۔ اس لیے کہ وہ اپنے شوہر کی خلوت و جلوت کی زندگی سے پوری طرح واقف ہوتی ہے۔ شوہر سے قریب تر رہنے میں سب سے آگے ہوتی ہے۔ ہر وقت کا ساتھ ہوتا ہے۔ شوہر کے سارے عیب و ہنر اس پر عیاں ہوتے ہیں۔ شوہر کا کوئی راز اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہوتا اور اسے ہر آن اپنے شوہر کے مزاج، اخلاق، کردار، اعمال و اقوال اور نیت کو پرکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اسے معمولی کمزوری کا علم ہوجائے تو اسے سامنے رکھ کر شوہر کو دبا لیتی ہے اور جب چاہے اسی ہتھیار سے کام لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے تقدس کی دھونس سب پر جم جاتی ہے مگر بیوی پر نہیں جمتی۔
ایک عورت کی ان فطری خصوصیات کو سامنے رکھ کر حضرت خدیجۃالکبریٰ کو دیکھیے، اْن کے سامنے اْن کا شوہر ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ایک دعویٰ کرتا ہے۔ دعویٰ بھی کوئی معمولی نہیں نبوت کا دعویٰ، وحی خداوندی کا دعویٰ، جبرائیل سے ہم کلامی کا دعویٰ، خدائی پیغام لانے کا دعویٰ۔ ایک ایسا دعویٰ کہ جس کا پہلے کبھی کوئی اشارہ تک نہ کیا تھا۔
پھر یہ رفیقہ زندگی کوئی معمولی خاتون نہیں۔  جہاں دیدہ ہے، زمانے کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہے، اس کو آسانی سے کوئی فریب نہیں دے سکتا۔ مزید براں اتنی کم عمر بھی نہیں جو سن رسیدہ شوہر کی باتوں میں آجائے بلکہ شوہر سے پندرہ سال بڑی ہیں۔ اس پر لطف یہ کہ معاشیات میں شوہر کی محتاج بھی نہیں جو کسی دباؤ میں آکر مان لے بلکہ خود کفیل ہے۔ خود کفیل ہی نہیں بلکہ شوہر کی بھی کفالت کرتی ہے۔ بیوی ہے، شوہر کی کوئی بات اور کوئی ادا اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ وہ شوہر کی جلوت سے بھی واقف ہے اور خلوت سے بھی۔ دانائے راز ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں۔
وہ جہاں دیدہ، صاحب فراست، دوربیں نگاہیں رکھتی ہے۔ جانتی ہے کہ شوہر کے پیغام کو قبول کرنا زمین و آسمان کو دشمن بنانا ہے۔ خاندان کی اور پوری قوم کی دشمنی مول لینا ہے۔ ابتلا کا سامنا کرنا اور مسلسل آزمائشوں کی بھٹیوں میں جلنا ہے۔ جان، مال، آبرو غرض ہر متاعِ زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ پورے معاشرے کے رسم و رواج ہی سے نہیں بلکہ ان کے سارے معبودوں سے انکار کرنا ہے۔
صرف اسی قدر نہیں، یہ پیغام ایسا ہے جو زندگی کا اور پوری زندگی کا سودا ہے۔ ایسی استقامت چاہتا ہے جس میں کبھی کوئی تزلزل نہ آئے بلکہ قدم قدم پر بڑی سے بڑی قربانیاں طلب کرتا ہے۔ پھر ان تمام قربانیوں کا کوئی فوری صِلہ اس زندگی میں ملنے کی ضمانت نہیں۔ بس ایثار و قربانی کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو مرنے کے بعد ختم ہوگا۔ صِلہ مرنے کے بعد ملنے کا وعدہ ہے۔ عیش و آرام، عزت و وقار، دولت و ثروت، برادری و قرابت، گھر بار، سوشل تعلقات اور کاروبار، روزگار اور وطن سب کچھ داؤ پر لگانے کی دعوت ہے۔پھر پیغام دینے والا اس پوری کائنات میں تنہا ہے اس کا کوئی حامی و مدد گار نہیں، اس کے ساتھ کوئی قوم یا جماعت نہیں۔ کوئی دولت اور اقتدار اس کا پشت پناہ نہیں۔
اگر یہ رفیقہ زندگی اپنے ازدواجی تعلقات کو باقی رکھتے ہوئے شوہر کے پیغام کو قبول نہ کرے تو اسے کسی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں۔ اگر وہ صاف انکار نہ بھی کرے تو خاموش تو رہ سکتی ہے۔ گول مول جواب دے سکتی ہے اور نہایت زیر کی کے ساتھ حالات کا جائزہ لے سکتی اور مستقبل کے نتائج کا انتظار کر سکتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو شوہر کی کسی جھوٹی سچی کمزوری کو پیش کرکے اسے اپنے انکار یا خاموشی کا بہانہ بنا سکتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو ٹال مٹول کر سکتی ہے۔ وہ یہ سب کچھ کر سکتی تھی اور بظاہر اس کا کوئی نقصان نہ تھا۔
مگر ہوا کیا؟ وہ پیغام سن کر اس پوری کائنات میں سب سے پہلے ایمان لے آتی ہے اور ایمان لانے والوں کی صف میں سرفہرست اس کا نام لکھا جاتا ہے۔ آزمائش شروع ہوجاتی ہیں۔ تن من دھن اور اپنی ہر متاعِ عزیز شوہر کے پیغام پر قربان کرنا شروع کردیتی ہے۔ یہ سلسلہ دس سال تک قائم رہتا ہے۔ ساتویں سال کے بعد شعب ابی طالب میں سب کے ساتھ اس کا بھی مقاطعہ کلّی ہوتا ہے اور یہ تین سال تک محصور رہتی ہے۔ یہ ملکہ تجار اور دولت مند رفیقہ زندگی اپنی محصوری کے دوران فاقوں پر فاقے کرتی ہے۔ دنیا کی ساری تکلیفیں جھیلتی ہے، اس کی صحت پر جو اثر پڑا وہ محصوری کے بعد اس کی موت پر منتج ہوا۔
لیکن آپ نے کبھی دیکھا کہ کوئی حرفِ شکایت اپنی زبان پر لائی ہو، کبھی اْف بھی کی ہو، کبھی عاجز آکر اپنے شوہر سے یہ ہی کہا ہو کہ تم نے کس مصیبت میں پھنسا دیاہے۔ کبھی اس کے پائے ثبات میں لغزش آئی ہو؟ استغفر اللہ! ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ جو آزمائش ہوتی ہے وہ اس کے ایمان کو پختہ سے پختہ تر کر دیتی ہے۔ ہر ابتلا اس میں مزید نکھار پیدا کرتی ہے۔ ہر مصیبت اسے پیچھے ہٹانے کے بجائے اور آگے بڑھاتی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر شوہر کے ماتھے پر بہ تقاضائے بشریت کوئی بل آجاتا ہے تو یہ اس کی دل شکستگی کو بھانپ کر اسے سہارا دیتی ہے، حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتی ہے، اس کے دکھے ہوئے دل کا مرہم اور اس کے زخموں کا پھاہا بن جاتی ہے۔
اے خدیجہ! تیرے قدموں پر میرے ماں باپ سو بار قربان! ذرا بتا تو سہی تیرے اندر یہ استقامت اور یہ ایمانی قوت کہاں سے آئی۔ تونے اپنے شوہر میں کیا چیز دیکھی تھی؟ عورت تو سب سے آخر میں بھی اپنے شوہر کی تقدیس کی قائل نہیں ہوسکتی مگر اے خدیجہ! تو سب سے پہلے کیوں اپنے شوہر کے پیغام پر ایمان لے آئی۔ شوہر کی کون سی ادا تجھے بھاگئی تھی کہ آزمائشوں کی بھٹی میں بے خطر کودنے پر آمادہ ہوگئی۔ خدیجہ! تجھے محمد کیوں اتنا پسند آگئے کہ اْن کے پیغام کو سب سے پہلے اپنی روح میں جذب کر لیا؟ کیا تجھے انکار یا خاموشی و انتظار کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے محمد کے اندر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ کمزوری بھی نظر نہ آسکی؟ یقینا نہیں! کیا محمدکا کردار تجھے اتنا بلند نظر آیا کہ اس کی صداقت میں تجھے ریب و شک کی گنجائش ہی نہ دکھائی دی۔ ہاں! یقینا یہی بات تھی۔
اے میری اوّل المومنین ماں! اِدھرآ! میں اپنے بالوں سے تیری جوتیوں کی خاک صاف کروں، تیرے ایمان نے ہی مجھے یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ: محمدﷺ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ آپ کے پیغام کو سب سے پہلے آپ کی رفیقہ زندگی نے قبول کیا۔