سیرت النبی ﷺ
رسول اللہ ﷺاور شرارتی بچے
عاصم محمود
بچے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔لیکن والدین کی اکثریت بچوں کے حقوق سے عموماًناواقف ہوتی ہے۔ حالانکہ بحیثیت والدین انھیں ادا کرنا ہر ذی شعور کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے دین نے تو ان دیکھے اور پیٹ میں پلتے بچے کو بھی کچھ حقوق عطا کیے ہیں۔ انہی کی وجہ سے وراثت کی تقسیم تک رْک جاتی ہے اور طلاق کا معاملہ بھی زیر التوا ہوتا ہے۔فی الحال ہمیں یہ دیکھناہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺنے بچوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا؟ بچوں کی قدرتی ضروریات اور شرارتوں پر آپ نے کیسا رویہ پیش کیا؟ کتب سیرت عیاں کرتی ہیں کہ آپ بچوں کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے مثالی صبر، برداشت اور بھلائی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے کہ اگر ایک مسلمان خداتعالی کا قرب پانا چاہتا ہے، تو اْسے چاہیے کہ وہ اْسوہ حسنہ کے مطابق عمل کرے۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جب چھوٹے بچے کوئی غلط حرکت کرتے تھے تو حضور اکرم انھیں کس انداز میں تنبیہہ فرماتے۔ آج کل تو کئی چھوٹے بچے اپنی شرارتوں سے بڑوں کی قوت برداشت کا خوب امتحان لیتے اور اکثر انھیں غصے میں لے آتے ہیں۔
نوزائیدہ بچوں کے ساتھ سلوک
ایک برس سے چھوٹے بچے بڑے جاذب نظر، گول مٹول اور فرشتہ صورت ہوتے ہیں۔ انھیں دیکھتے ہی جی چاہتا ہے کہ گود میں اٹھا کر خوب پیار کیا جائے۔ ان کی معیت میں انسان فطری خوشیاں پاتا اور بڑا لطف اٹھاتا ہے۔ لیکن جونہی خصوصاً مرد حضرات بازو پر نمی اور ناک میں بو محسوس کریں، تو ان کی تیوری چڑھ جاتی ہے۔ وہ ناگواری کا اظہار کرکے بچے کو واپس ماں کی گود میں ڈالتے اور بک جھک کرتے غسل خانے کا رخ کرتے ہیں۔لیکن ایسی صورت حال میں آنحضور نے کبھی اس قسم کا ناپسندیدہ رویہ پیش نہ فرمایا۔ آپ اکثر بچوں کو اپنی آغوش میں لیتے اور زانو پر بٹھاتے تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں کسی قسم کا ”ڈائپر“ موجود نہ تھا۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:”ایک بار ایک لڑکا رسولؐ اللہ کی خدمت میں لایا گیا تاکہ آپ اْسے تحنیک دے دیں۔ (یعنی کجھور چبا کر اس کے تالو پر مل دیں)اسی دوران بچے نے پیشاب کردیا۔ تب رسول اللہ نے پانی منگوایا اور اس سے وہ جگہ دھو ڈالی جہاں بول گرا تھا۔“ (البخاری)
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ حضوراکرم نے ناگواری یا نفرت کا اظہار نہیں فرمایا اور نہ ہی کراہت سے بچے کو ماں کے حوالے کیا۔ حالانکہ اس نے آپ کے بدن کو ناپاک کر ڈالا تھا۔ یہ رویہ بتاتا ہے کہ نبی کریمؐ نوزائیدہ کی فطری ضروریات بخوبی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کے ساتھ کمال درجے کے حلم و برداشت کا مظاہرہ فرماتے۔
نوزائیدہ بچہ خود پہ قابو نہیں رکھتا۔ اسی لیے کسی بھی وقت کہیں بھی پیشاب کرتا اور کبھی منہ سے دودھ نکال دیتا ہے۔ ناک بہنا بھی معمول ہے۔ رسول کریم بچوں کی اس فطرت سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے کبھی بچہ آپ پرپیشاب بھی کردیتا، تورسول اللہ گھبراہٹ یا بے چینی کا مظاہرہ نہ فرماتے۔
شرارتوں پر ردعمل
بچے جب تین چار سال کے ہوجائیں، تو متحرک، چونچال اور متجسس ہوجاتے ہیں۔ وہ پھرطرح طرح کی شرارتیں کرتے اور انوکھے کرتب اپناتے ہیں۔کتب سیرت بتاتی ہیں کہ آنحضورؐ اس عمر کے بچوں پر بھی شفقت فرماتے۔ ایسے بچوں کو نہ صرف مسجد میں آنے کی اجازت تھی، بلکہ دوران نماز اگر وہ معصوم شرارتیں کرتے، شور مچاتے یا عبادت میں مخل ہوتے، تب بھی آپ مثالی صبرو برداشت کا مظاہرہ فرماتے۔
النسائی میں حضرت عبداللہ بن شداد سے ایک حدیث بیان ہوئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:”میرے والد ایک دن نماز عشا پڑھنے مسجد نبوی تشریف لے گئے۔ جب رسول اللہ امامت کرانے تشریف لائے، تو حضرت حسن(یا حضرت حسین) آپ کے مبارک کاندھوں پر سوار تھے۔ نبی کریم نے نواسے کو اپنے قریب زمین پربٹھایا، تکبیر پڑھی گئی اور آپ نماز پڑھانے لگے۔
”ایک بار آپ کا سجدہ خاصا طویل ہوگیا۔ میرے والد کو تشویش ہوئی۔ انھوں نے سَر اٹھا کر دیکھا، تو جانا کہ نواسے آپ کی کمر مبارک پر سوار ہیں۔ چناں چہ وہ پھر سجدے میں چلے گئے۔نماز ختم ہوئی، تو چند صحابہ آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا: ”نبی کریم! دوران نماز ایک بار آپ نے اتنا طویل سجدہ کیا کہ ہم سمجھے، آپ کو کچھ ہوگیا ہے۔ یا پھر آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔“
”رسول اللہ نے تبسم فرمایا اور گویا ہوئے کچھ بھی نہیں ہوا۔دراصل نواسے میری کمر پر سوار تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اْن کے کھیل میں خلل پڑے۔ چناں چہ اْن کے اترنے کا انتظار کرتا رہا۔“
یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ حضور اکرم بچوں کی شرارتوں پرکمال ضبط و برداشت کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ نبی کریم نے سجدہ طویل فرما دیا تاکہ بچہ اپنے معصوم کھیل سے لطف اندوز ہوتا رہے۔ گو سجدے کی طوالت سے صحابہ کرام متوحش ہوگئے جو آپ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
بچوں کی راہنمائی کا طریق
بچوں کو چوما یا محبت سے آغوش میں لیا جائے، تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ انھیں پسند ہوتا ہے کہ ان کو مثبت انداز میں چھْوا جائے۔ یہی وجہ ہے، نفسیات کی جدید تحقیق والدین کو بتاتی کہ طویل لیکچر اور پیچیدہ نصیحتیں کرنے سے بہتر ہے کہ عملی طور پر بچوں کی غلطیاں درست کی جائیں۔ نفسیات نے جو طریق کار اب دریافت کیا ہے، نبی کریم چودہ سو سال قبل اْسے بیان فرما چکے۔حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے”ایک بار بہ موقع فصل صحابہ کرام رسول اللہ کی خدمت میں کجھوریں لانے لگے۔ زیادہ دیرنہ گزری تھی کہ نبی کریم کے سامنے کجھوروں کا ڈھیر جمع ہوگیا۔ نزدیک ہی حضرت حسن و حسین کھیل رہے تھے۔ کھیل کھیل میں ایک نواسے نے منہ میں کجھور ڈال لی۔رسول اللہ نے یہ دیکھ کر نواسے کے منہ سے ہاتھ کے ذریعے کجھور نکالی اور فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آل رسول کا کوئی فرد خیرات نہیں کھایا کرتا۔“ (البخاری)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ایک مسئلے کے فوری اور موثر حل کی خاطر کیسی عمدہ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ نبی کریم نے خود نواسے کے منہ سے کجھور نکالی اور مختصر لفظوں میں وجہ بھی بیان فرمادی۔ ورنہ آپ کسی بچے کو لاکھ کہیے، وہ کبھی اپنے منہ سے ازخود مزے دار کجھور کبھی نہیں نکالے گا۔
آج کل بیشتر والدین کا وتیرہ ہے کہ وہ بچوں پر وجہ بے وجہ برستے رہتے ہیں۔ جھڑکتے ہوئے حکم دیا جاتا ہے کہ فلاں شے کو مت چھوؤ، اس جگہ مت جاؤ یا یہ کام کرو۔ عموماً بچہ یہ ہدایات نظر انداز کر دیتا ہے۔ تب انا و غصے کے مارے والدین مہمانوں کے سامنے بھی اس کی دھنائی کر ڈالتے ہیں۔
درج بالا حدیث والدین کو درست طریق کار بتاتی اور ان کی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ کہ بالغ کو چاہیے، وہ چیخنے کے بجائے خود اٹھے اور ہاتھ سے بچے کو خطرے سے دور کردے۔ ساتھ ساتھ مختصر اور شْستہ الفاظ میں اْسے وجہ بھی بتا ڈالے۔ درج ذیل حدیث بھی اس حکمت علمی کی تائید کرتی۔
ابوداؤد میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے۔ آپ فرماتے ہیں ”رسول کریم بہترین اخلاق و عادات کے حامل تھے۔ ایک دن آپ نے مجھے کسی کام سے بھیجنا چاہا۔ (میرا جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا) لہٰذا میں نے کہا: ”اللہ کی قسم، میں نہیں جاؤں گا۔لیکن میرا دل کہتا تھا کہ رسول اللہ نے جو حکم دیا ہے، اْسے بجا لاؤ۔“
”آخرکار میں (کام کی خاطر) باہر نکل آیا۔ گلی میں چند لڑکے کھیل رہے تھے۔ میں رک کر، انھیں دیکھنے لگا۔ اچانک نبی کریم میرے پیچھے تشریف لے آئے اور انھوں نے مجھے گردن سے پکڑ لیا۔ میں نے مْڑ کر دیکھا، تو آپ مسکرارہے تھے۔ آپ نے فرمایا:اے صغیر (ننھے)انس اپنے کام سے جاؤ۔میں نے کہا: ”رسول اللہ! میں جاتا ہوں۔“
یہ حدیث بتاتی ہے کہ حضور اکرم نے ہاتھ کے استعمال اور ہلکی پھلکی ڈانٹ کے امتزاج سے ننھے حضرت انس کو یاد دلایا کہ وہ کام کرنا بھول گئے۔ دراصل نبی کریم جانتے تھے کہ گلی میں کھیلتے لڑکے دوسرے لڑکوں کی توجہ بھی کھینچ لیتے ہیں۔
حدیث یہ بھی واضح کرتی ہے کہ بچہ جب کچھ بڑا ہوجائے، تو اس سے چھوٹے موٹے اور آسان کام کرائے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ کئی بچے فوراً کہنا نہیں مانتے اور خصوصاً دوسرے بچوں کے کھیل بہت جلد ان کی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔
سمجھانے کا بلیغ انداز
سات آٹھ برس کی عمر میں بچہ برے اور بھلے کے مابین تمیز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔نبی کریم جب کسی ایسے بچے کو غلط حرکت کرتا دیکھتے، تو اْسے بہت پیار، شفقت اور جامع و بلیغ الفاظ میں سمجھاتے۔ اس کو بتاتے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ یہ نہیں کہ اْسے ڈانٹتے ڈپٹتے اور دوسروں کے سامنے ذلیل کرتے۔
حضرت ابو سلمہ جنگ اْحد میں شہید ہوئے۔ حضرت ام سلمہ کے بطن سے آپ کے چار بچے تولد ہوئے تھے۔ 3ھ میں آپ نے حضرت ام سلمہ سے نکاح فرمایا، تو ان کے چاروں بچے بھی آپ کی تولیت میں آگئے۔ تب حضرت عمر بن ابو سلمہ سات آٹھ سال کے تھے۔ ان سے بخاری و مسلم میں درج ذیل روایت آئی ہے:
”میں لڑکے کی حیثیت سے رسول اللہ کی نگہداشت میں تھا۔ جب کھاناکھانے لگتا، تو کبھی کبھی میں دونوں ہاتھوں سے کھانے لگتا۔ ایک دن نبی کریم نے مجھے شفقت سے فرمایا: کھانے سے پہلے اللہ کا نام لو(یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو)، سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور جو کچھ سامنے پڑا ہے، اس میں سے لو۔“
چھوٹے، بڑے بچے زیادہ عرصہ کسی بات یا کام کی طرف متوجہ نہیں رہتے، توانائی کی بہت زیادہ مقدار رکھتے اور انتہائی متجسس طبیعت پاتے ہیں۔ اسی لیے وہ دنیا کی ہر شے کھوجتے اور دیکھتے بھالتے ہیں جن میں بیشتر ان کے لیے نئی ہوتی ہیں۔
لیکن بہت سے والدین غلط فہمی کے باعث اپنے بچوں کی فطری ضروریات اور رویوں کو منفی انداز میں لیتے ہیں۔ لیکن وہ صبرو برداشت کا مظاہرہ کریں اور ڈانٹ ڈپٹ یا مارپیٹ کے بجائے پیار محبت سے سمجھانے کا طریقہ اپنائیں تو بچے ان کی ہدایات جلد سمجھ جائیں گے۔
یاد رکھیے، بچے بچیاں اللہ تعالیٰ کا انمول تحفہ ہیں۔ لہٰذا ان سے درشت و کرخت سلوک ہرگز نہ کیجیے۔ ابھی تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے”گناہ“ لکھنا شروع نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ معصوم و نیک روحیں اگر دانستہ بھی کوئی برتن توڑ ڈالیں، الماری میں کسی قیمتی شے کو چھوئیں، تو انھیں ہاتھ نہ لگائیے بلکہ نرمی سے سمجھائیے اور ان کی توجہ بانٹ دیں۔
جو ماں یا باپ بچوں پر سختی کرے، ان سے درشتی کے ساتھ پیش آئے، وہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں معتوب قرار پاتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو والدین اپنے چھوٹے، کمزور اور بے بس بچوں پر ظلم کرتے اور کسی قسم کی ندامت یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے، وہ بڑھاپے میں تنہائی اور بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کیونکہ ظلم کا شکار اولاد ان کی نگہداشت نہیں کرتی اور یوں
انتقام لیتی ہے۔ بچپن کی یادوں کے باعث وہ والدین سے نفرت کرنے لگتی ہے۔
والدین اور تمام بالغ مرد و زن کو چاہیے کہ وہ وقتاًفوقتاً اْسْوۂ حسنہ کا مطالعہ کریں۔ یہ پڑھیں اور جانیں کہ نبی کریم نے بچوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا۔ یوں ہدایت پاکر وہ بھی بچوں کے ساتھ درست رویہ اپنائیں گے۔ اسی طرح والدین نہ صرف اولاد کے انتقام بلکہ اللہ تعالیٰ کے قہر سے بھی بچ سکتے ہیں۔٭٭٭