دین و دانش
سید زادی کا غیر سید سے نکاح
ڈاکٹر طفیل ہاشمی
اسلام،جو وحدت نسل انسانی، شرف انسانیت،اخوت اسلامی اور مساوات کا داعی ہے، جس نے سورہ الحجرات میں واضح طور پر اس کی تصریح کی ہے کہ اسلام میں کسی قسم کا کوئی نسلی امتیاز نہیں ہے خاندان اور قبیلے محض وجہ تعارف ہیں۔ کوئی شخص اپنی پسند سے اپنے والدین، خاندان اور قبیلہ منتخب نہیں کر سکتا اس لیے یہ بات وجہ اعزاز ہے اورنہ موجب تذلیل۔ البتہ ہر انسان میں یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے آگے بڑھے اور نمایاں مقام حاصل کرے اس کے لیے انسان کے اختیاری اعمال ہی مدار مسابقت ہیں جنہیں قرآن نے تقویٰ سے تعبیر کیا ہے۔قران کے اسی پیغام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں کے جم غفیر تک پہنچاتے ہوئے فرمایا کہ کسی عرب کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر کوئی نسلی برتری حاصل نہیں۔ تم سب اولاد آدم ہو اور آدم مٹی سے تخلیق کیے گئے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وحدت نسل انسانی یا اخوت اسلامی کا یہ تصور درست ہے تو نکاح میں کفو کا ذکر کیوں ہے؟
نکاح دراصل دو افراد کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس سے دو خاندان بھی وابستہ ہوتے ہیں۔نکاح کے ذریعے سماج میں ایک نیا خاندانی یونٹ تخلیق کیا جاتا ہے۔ سماج میں ناگوار لہریں پیدا ہونے کو روکنے کے لیے یہ ایک شرعی نہیں انتظامی اور سماجی ضرورت ہے کہ ہر نیا یونٹ اس طرح تشکیل دیا جائے جس سے سماج میں کوئی اتھل پتھل نہ ہو۔اس کے لیے ضروری ہے نیا خاندان تخلیق کرنے والے جوڑے میں مذہبی، سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی ہو۔ اسی مطلوب ہم آہنگی کو کفو کہا جاتا ہے۔۔ اور اس کا مقصد صرف اور صرف Smooth Sailing ہے اور بس۔۔
کفو کے لیے مختلف علاقوں، ثقافتوں اور ادوار میں مختلف معیار ہونگے، کہیں اسے تعلیمی برابری، کہیں نسلی برابری، کہیں سماجی رتبے کی برابری اور اسی طرح جو امور جس دور میں وجہ امتیاز ہوتے ہیں وہی کفو کو متعین کرتے ہیں۔
سیرت طیبہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دیگر وجوہ شرف میں ہم آہنگی نہ ہونے کی صورت میں کزن بھی کفو نہیں ہوتے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک انصاری خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی کہ میرے والد نے مجھ سے پوچھے بغیر میرا نکاح اپنے بھتیجے یعنی میرے کزن سے کر دیا، میرے ذریعے وہ اس کی کمینگی ختم کرنا چاہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس خاتون کو یہ معاہدہ ختم کرنے کا اختیار دے دیا۔
رہی سادات کی اہمیت تو وہ دو حوالوں سے ہے۔
ایک تو قرآن نے سورہ احزاب میں بتایا ہے کہ تمہارے گھر قرآن نازل ہوا ہے اس لیے ساری انسانیت تک قرآن کا پیغام پہنچانا تمہاری ذمہ داری ہے گویا دوسروں کی نسبت سادات کی دعوت دین کے اعتبار سے زیادہ ذمہ داری ہے۔
دوسرے سورہ شوریٰ میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے امت سے تعلق کا بدلہ آپ کے اقربا سے مودت کے اظہار کی صورت میں کیا جانا چاہیے۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب ایسا وقت آ جائے کہ کچھ لوگ صرف رسول اللہ کی وجہ سے آل رسول کے دشمن ہو جائیں تو مسلمانوں کو آل رسول سے مودت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
جہاں تک سید زادی کا غیر سید سے نکاح کا تعلق ہے تو اولاً قرآن کی محرمات میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔دوسرے قرآن نے اپنی طرف سے حلال کو حرام قرار دینے کی سخت مذمت کی ہے۔
امرواقعہ یہ ہے کہ اسلامی روایات میں رائج طرز عمل اس کے برعکس ہے کہ بڑے بڑے صحابہ کرام سے لے کر آج تک رسول اللہ سے محبت رکھنے والے افراد اس خیال سے آل رسول سے شادیاں کرتے رہے ہیں کہ اس طرح ہمیں رسول اللہ سے رشتہ داری کی برکت بھی حاصل ہو جائے گی اور ہمیں اپنے بچوں کے لیے زہرہ زاد ماں بھی مل جائے گی۔
٭٭٭