اصلا ح و دعوت
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
جسمانی و اخلاقی عوارض
غلام محمد: بوبی بھائی، کل ڈسکوری چینل پرا ایک ڈاکیومنٹری دیکھی۔ ابکائی آتے آتے رہ گئی۔ اس قدر گندے اور غلیظ لوگ ہوتے ہیں یہ سائنسدان لوگ۔ مکھیوں کے انڈے، گلے سڑے پھل، گندی نالیوں اور گٹروں کا پانی اور جانے کیا کیا گند بلا اکٹھا کر کے خوردبینوں کے نیچے اسے دیکھ رہے تھے اور اس پر بات کر رہے تھے۔ یار مجھے تو جھرجھری آگئی، دیکھا نہیں گیا۔ چینل بدل دیا۔ توبہ!
بوبی: یار غلام محمد۔۔ تم بھی رہے نا سادہ کے سادہ۔ جنہیں تم گندہ اور غلیظ کہہ رہے ہو یہ انسانیت کے محسن ہیں۔ یہ اپنی تحقیق سے ہیضہ، ہیپاٹاٹئیٹس اور ٹائیفایڈ وغیرہ کے جراثیم پر ریسرچ کرتے ہیں اور پھر ہم سب کو بتاتے ہیں کہ ان سے کیونکر بچنا ہے، تاکہ ہم صحت مند رہیں اور ایک اچھی زندگی گزار سکیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ ان بیماریوں سے دنیا بھر ہر سال کتنے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟ یہ سائنسدان ہیں جو پرہیز سے لے کر علاج تک کے مراحل سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
غلام محمد: ہاں بوبی یہ بات بالکل درست ہے تمہاری۔ اچھا، تمہارے ان کزن کا کیا حال ہے۔ ٹمی بھائی کا؟ جن سے پرسوں ملاقات ہوئی تھی۔
بوبی: ٹھیک ہیں۔ کیوں؟
غلام محمد: نہیں کچھ خاص نہیں۔ بس ان کی ایک بات یاد آگئی جس میں تم بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔
بوبی: کون سی بات؟
غلام محمد: وہی کہ مولوی کی زبان سے پردہ، شرم و حیا وغیرہ کی اس قدر تکرار دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے سر پر عورت ہی سوار رہتی ہے بس۔
بوبی: تو اس میں کیا شک ہے۔۔۔ Obsessed لگتے ہیں سب کے سب۔۔۔ ہونہہ!
غلام محمد: دیکھو بھائی۔۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مولوی کے ذہن کی اختراع نہیں۔ یہ خدا کا حکم ہے۔ خدا کا کہنا ہے کہ انسان کا اخلاقی وجود اس کے جسمانی وجود سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اگر یہ نہیں تو بظاہر زندہ نظر آنے والا بھی زندہ تو ہو گا لیکن انسان کہلائے جانے کے لائق نہیں رہے گا۔اخلاقی وجود کے لیے بے شرمی و بے راہ روی ایک کینسر ہیں جو آہستہ آہستہ اسے دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالی نے ہر اس وجہ اور ان تمام ''جراثیم'' کی نشاندہی کردی ہے جن سے صرف نظر یا لاپروائی کے نتیجہ میں بظاہر معمولی یا عمومی نظر آنے والی بات آگے چل کر پوری طرح بے راہ روی کے کینسر میں ڈھل سکتی ہے۔ جس طرح سائنس دانوں کو ہم obsessed with filth نہیں سمجھتے بلکہ ان کا یہ احسان جانتے ہیں کہ وہ اتنی محنت کر کے ہمیں ایک سنگین صورتحال سے بچاتے ہیں تو یہی معاملہ مذہب کا بھی ہے۔ وہ اگر obsessed ہے تو صرف انسان کی بہتری کے لیے۔
ہمیں اس کا احسان مند ہونا چاہئے کہ وہ ہمیں بحیثیت فرد و معاشرہ ایک Common code دیتا ہے جس میں غض بصر بھی ہے اور پردہ بھی۔ پھر وہ ان تمام راستوں اور ممکنات سے آگاہ کرتا ہے جن سے ہمارے اخلاقی وجود پر نقب لگ سکتی ہے۔ یہ نقب اچانک نہیں لگتی۔ پہلے ہلکی ضربوں سے اس کے جوڑ بند ڈھیلے کیے جاتے ہیں اور پھر باقی واردات وقوع پذیر ہوتی ہے جس سے بچ پانا یا سنبھل جانا نہایت دشوار ہوتا ہے۔ اسی واسطے مذہب اپنی حکمت میں اس بات کا پیروکار ہے کہ ''پرہیز بہر صورت علاج سے بہتر ہے''۔
میرے بھائی۔۔ پھبتی کسنا کم عقلوں کا کام ہے۔۔ سمجھدار لوگ ہمیشہ حکمت تلاش کرتے ہیں اور خود اپنے اور اپنے پیاروں کے تحفظ کا بندوبست کرتے ہیں۔۔ جسمانی عوارض سے بھی، اور اخلاقی عوارض سے بھی۔٭٭٭
اسلام کے نام پر پیش کردہ مسلمان نامی پروڈکٹ کی کوئی مارکیٹ ویلیو کیسے ہو سکتی ہے جبکہ اسلام کے اجزائے ترکیبی اس کے اند ر موجود ہی نہیں