نيوروسرجری اور خدا

مصنف : ابنِ عبداللہ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2025

فكر و نظر

نيوروسرجری اور خدا

ابن عبداللہ

مجھے چند دن قبل ڈاکٹر مائیکل ایگنور (Michael Egnor) کا ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ امریکی نیورو سرجن ہیں‘ دماغ کی سات ہزار سرجریز کر چکے ہیں‘ پروفیسر ہیں اور نیورو سرجری میں دنیا کا بڑا نام ہیں‘ پروفیسر زندگی کے دو تہائی حصے تک ملحد رہے لیکن پھر خدا پر یقین کیا اور کمال کر دیا- پروفیسر نے اپنے لیکچر میں دوایسے دعوے کیے جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ ان کا پہلا دعویٰ ہے مائینڈ (ذہن) ہمارے برین (دماغ) میں نہیں ہوتا‘ ذہن دماغ کے باہر سے انسان کو کنٹرول کرتا ہے‘ یہ کہاں ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے سائنس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں- ان کا دعویٰ ہے میرے پاس ایسے ایسے مریض آئے جن کا دو تہائی دماغ ختم ہو چکا تھا یا مجھے اسے نکالنا پڑ گیا لیکن وہ اس کے باوجود سوچتے بھی رہے اور ریسپانس بھی کرتے رہے جب کہ سائنس کے مطابق اس کے دماغ سے سوچیں ختم ہو جانی چاہیے تھیں-ان کا دعویٰ ہے کوما میں پڑے انسانوں کے دماغ میں بھی حرکت ہوتی ہے‘ یہ گنتی بھی گنتے ہیں اور ان کے دماغ ان کے عزیز اور رشتے داروں کے نام پر الرٹ بھی ہوجاتے ہیں- یہ کیسے ہوتا ہےمیں نہیں سمجھ سکا کیوں کہ دماغ کی موت کے بعد انسان کا ذہن ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر یہ نہیں ہوتا- اس نے دعویٰ کیا كہ ہمارے ایک نیوروسرجن نے مرگی کے ایک مریض کے دماغ کے دو حصوں کو کاٹ کر الگ الگ کر دیا لیکن اس کے باوجود دماغ کے دونوں حصے ایک دوسرے سے رابطے میں بھی تھے اورانہیں باہر سے پیغام بھی آ رہے تھے‘ کیوں اور کیسے؟ ہم نہیں جانتے-

ڈاکٹر مائیکل ایگنور کا دوسرا دعویٰ روح سے متعلق تھا‘ اس کا کہنا تھا روح موجود ہے اور یہ غیر فانی بھی ہے‘ یہ مرتی نہیں‘ یہ بس جسم کو چھوڑ کر کہیں چلی جاتی ہے‘کیوں جاتی ہے اور کہاں جاتی ہے یہ معلوم نہیں- انہوں نے ایک مریضہ کا حوالہ دیا جس کی برین سرجری کے دوران اس کا دل منجمد کر دیا گیا تھا اور دماغ سے سارا خون نکال دیا گیا تھا‘ وہ پچاس منٹ زندگی کے بغیر رہی‘ اس کے پورے جسم میں کسی جگہ زندگی کی حرارت نہیں تھی‘ آپریشن کے بعد ہم نے اس کا دل چالو کیا‘ جسم میں خون شامل کیا اور اسے طبی لحاظ سے ایکٹو کر دیا‘ وہ خوش قسمتی سے دوبارہ زندہ بھی ہو گئ-اس نے ہوش میں آنے کے بعد بتایا میں نے اپنا سارا آپریشن اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا‘ میں جسم سے نکل کر ہوا میں معلق ہو گئی تھی اور میں آپ لوگوں کی ایک ایک حرکت دیکھ رہی تھی‘ اس نے ہم سب کی گفتگو بھی بتائی‘ آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے آلات کے بارے میں بھی بتایا اور یہ بھی بتایا آپریشن تھیٹر میں میوزک چل رہا تھا اور وہ کون سا تھا‘ آپریشن تھیٹر پر لیٹا کوئی مریض یہ سب کچھ نوٹ نہیں کر سکتا اور وہ بھی اس عالم میں کہ اس کا دل مکمل طور پر بند ہو اور دماغ سے خون مکمل طور پر نکل چکا ہو لیکن مریضہ کو آپریشن تھیٹر کی ایک ایک چیز معلوم تھی‘ اس انکشاف نے مجھ جیسے دہریے کو بھی ہلا کر رکھ دیا- ڈاکٹر کا کہنا تھا میری زندگی میں بے شمار ایسے مریض آئے جن کی سرجری یا علاج معمولی تھا لیکن وہ چند لمحوں میں زندگی کی سرحد پار کر گئے‘ وہ کیسے مر گئے میں آج تک حیران ہوں- جب کہ وہ خاتون پورا گھنٹہ زندگی کی حرارت سے محروم رہنے کے باوجود زندہ بھی ہوئی اور وہ ہماری تمام حرکتوں سے بھی واقف تھی اور اس نے یہ سب کچھ بند آنکھوں کے ساتھ دیکھا تھا‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے دعویٰ کیا میں نے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے والے درجنوں مریضوں کا علاج کیا‘ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا بتانا تھا ہم مرنے کے بعد کسی ٹنل سے گزرے تھے اور اس ٹنل میں  ہمارے فوت شدہ عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی تھی- ڈاکٹر کا دعویٰ ہے بے شمار لوگ حادثوں کے بعد ان لوگوں سے بھی مل کر واپس آئے جو گاڑی میں ان کے ساتھ سفر کر رہے تھے اور وہ حادثے میں فوت ہو گئے تھے جب کہ یہ لوگ موت کے بعد دوبارہ واپس آگئے اور یہ قطعاً نہیں جانتے تھے ان کے ساتھ سفر کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ڈاکٹر کے بقول یہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے میں نہیں سمجھ سکا۔پروفیسر مائیکل ایگنور کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت طے شدہ ہے ہم سب نے مر جانا ہے‘ ہماری روح کس وقت ہمارے وجودکا ساتھ چھوڑ دے دنیا کا کوئی شخص نہیں جانتا‘ قدرت نے اگر یہ معاملہ صرف جسم تک محدود رکھا ہوتا تو شاید ہم ایکسرسائز‘ خوراک‘ جینز تھراپی اور ادویات سے زندگی کا دائرہ وسیع کر لیتے‘ ہم اپنے دماغ‘ دل‘ پھیپھڑوں‘ گردوں اور جگر کی عمر میں بھی اضافہ کرلیتے لیکن یہ کھیل صرف جسم تک محدود نہیں‘ اس میں روح بھی شامل ہے اور ذہن بھی اور یہ دونوں جسم کے کس حصے میں چھپے ہوتے ہیں یا یہ جسم سے باہر کس جگہ سے ہمیں ڈرائیوکر رہے ہیں ہم نہیں جانتے لہٰذا ہمارے دماغ کو کس وقت سوچ کے سگنل آنا بند ہو جائیں اور روح کس وقت اس سجے سجائے پالتو جسم کو چھوڑ کر چلی جائے ہم نہیں جانتے بلکہ رکیے ہم بھی کیا شاید دنیا کا کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا چناں چہ میرے دوستو آپ کے دماغ میں جتنے بھی اچھے خیالات آتے ہیں ان کا صدقہ اتارتے رہیں‘ ان پر عمل کرتے رہیں اور ہر منفی سوچ کو جھٹک کر اللہ سے معافی مانگتے رہیں اور جو سانس مل رہا ہے جو دن دیکھنا نصیب ہو رہا ہے اسے آخری انعام سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کریں اور اسے مثبت طریقے سے استعمال کریں کیوں کہ روح اور بدن کے درمیان صرف ساڑھے چار سیکنڈ کا رشتہ ہے‘ یہ رشتہ کس وقت ٹوٹ جائے کوئی نہیں جانتا-