فكر ونظر
نوجوانوں میں بڑھتے ذہنی مسائل اور ان کا حل
توصيف اكر م نيازی
ہماری نسل کے پاس وہ سب کچھ ہے جو پچھلی نسلوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا—تیز رفتار انٹرنیٹ، سکرینوں پر سجی رنگین دنیائیں، آرام، سہولتیں، لامتناہی تفریح۔ مگر اس سب کے باوجود دل کا بوجھ کیوں نہیں ہلکا ہوتا؟ ذہن کی دھند کیوں نہیں چھٹتی؟میں نے درجنوں نوجوانوں اور پروفیشنلز سے بات کی تو ایک حقیقت بار بار سامنے آئی: ہماری خوشیاں، سکون اور ذہنی توازن ایک ایسے خاموش طوفان کا شکار ہیں جو دکھائی نہیں دیتا، لیکن اندر سے ہم سب کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
آئیے اصل مسئلے کو سمجھتے ہیں، اور اصل حل کی طرف بڑھتے ہیں۔
1-سوشل میڈیا کا سراب اور موازنے کی نفسیات
(The Trap of Comparison)
ہماری نسل واقعی ڈوپامائن کی غلام بن چکی ہے۔صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلا عمل — سوشل میڈیا کی فیڈ چیک کرنا — اب عادت نہیں، نشہ بن چکا ہے۔جیسے ہی ہم اسکرین آن کرتے ہیں، ہمارا دماغ فوراً ایک کام شروع کر دیتا ہے:اپنی زندگی کا مقابلہ دوسروں کی زندگیوں سے کرنا۔انسٹاگرام پر دیکھتے ہیں کہ کوئی یورپ گھوم رہا ہے، کسی نے نئی گاڑی خرید لی، کوئی دوست ہر وقت ہنستا ہوا اور بے فکر نظر آتا ہے۔یہ سب دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ شاید ہم ہی پیچھے رہ گئے ہیں، شاید ہماری زندگی ہی عام ہے، شاید ہم ہی خوش نہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر دل کے پیچھے ایک درد ہوتا ہے،ہر تصویر کے پیچھے ایک کہانی اور ہر ہنسی کے پیچھے ایک جدوجہد۔ایک مفکر نے بڑی خوبصورتی سے کہا تھا:
“Comparison is the thief of joy.”یعنی موازنہ خوشی کو چُرا لیتا ہے. خاموشی سے، آہستہ آہستہ، اور روزانہ۔ہم دوسروں کی ہائی لائٹس دیکھ کر اپنی پوری زندگی کا فیصلہ سناتے ہیں جبکہ ہماری زندگی کا زیادہ حصہ تو یعنی Behind The Scenes ہوتا ہے.
وہ خامیاں، وہ مشکلات، وہ خاموش پریشانیاں جو کوئی کیمرہ دکھاتا ہی نہیں۔یہی موازنہ ہمیں اندر سے توڑ دیتا ہے۔یہ احساسِ محرومی، ذہنی دباؤ اور آخرکار شدید ڈپریشن کی جڑ بن جاتا ہے۔
2-حقیقی سماجی رابطوں کا فقدان(Social Disconnection)
ہم تاریخ کی سب سے "کنیکٹڈ" نسل ہیں، لیکن شاید سب سے زیادہ "تنہا" بھی ہم ہیں۔
ہزاروں ورچوئل دوست موجود ہیں، لیکن دکھ بانٹنے کے لیے کوئی حقیقی کندھا نہیں۔
انسان کا دماغ اسکرینز کے لیے نہیں، بلکہ لمس، آواز کے اتار چڑھاؤ، آنکھوں کے رابطے (Eye contact) کے لیے بنایا گیا ہے۔جب ہم صرف ٹیکسٹ کرتے ہیں، تو ہمارا دماغ وہOxytocin پیدا نہیں کرتا جو بانڈنگ اور سکون کا ہارمون ہے۔یہ تنہائی آج کے نوجوان کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے، اور ایک خاموش خلیج پیدا کر رہی ہے جسے شاید وہ خود بھی نہ دیکھ پائیں۔
3- ہسل کلچر کا دھوکہ(The Toxic Hustle Culture)
ہمیں ایک ایسی "ریٹ ریس" میں لگا دیا گیا ہے جہاں آرام کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔
'25 سال میں کروڑ پتی بن جاؤ'، 'اگر سو رہے ہو تو ہار رہے ہو'. یہ سب پیغامات نوجوانوں سے ان کا حال چھین رہے ہیں۔نتیجتاً آج کے نوجوان مستقبل کے خوف میں اتنے مبتلا ہیں کہ آج کی چائے کا ذائقہ، موسم کی خوبصورتی، یا چھوٹے لمحے کا سکون محسوس نہیں کر پاتے۔یہ مستقل دباؤ کورٹیسول (Stress Hormone) کی سطح بڑھاتا ہے، جس سے اینزائٹی اور ذہنی تھکن جنم لیتی ہے۔
4-ذہنی غذا کی آلودگی(Mental Diet)
جسمانی غذا کی طرح ذہنی غذا بھی اتنی ہی اہم ہے۔ہم اپنے معدے میں تو گلی سڑی چیزیں نہیں ڈالتے، لیکن اپنے دماغ کو روزانہ بے مقصد، شور سے بھرا اور منفی مواد کھلاتے رہتے ہیں۔کرائم شوز، سیاسی چیخ و پکار، منفی خبریں، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کی سطحی ویڈیوز — یہ سب دھیرے دھیرے ہمارے لاشعور میں زہر چھوڑتے رہتے ہیں۔اسی لیے ماہرین کہتے ہیں:“What you consume, consumes you.”
یعنی جو کچھ آپ روز دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں، وہی آخرکار آپ کی سوچ، آپ کا مزاج، اور آپ کی شخصیت کو کھا جاتا ہے۔جب آپ کا دماغ سارا دن صرف یہی سب کچھ لیتا رہے،تو وہ مثبت سوچنے، سکون پیدا کرنے یا خوشی محسوس کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے گاڑی میں پیٹرول کی جگہ کیچڑ ڈال دیا جائےاور پھر امید رکھی جائے کہ گاڑی بھی روانی سے چلے۔
5- فزیکل ایکٹیویٹی کا نہ ہونا اور غیر صحت مند طرزِ زندگی
ہمارا طرزِ زندگی قدرتی نہیں رہا۔سورج کی روشنی سے دوری، راتوں کو جاگنا، اور پروسیسڈ فوڈ (چینی اور میدہ) کا زیادہ استعمال، آج کے نوجوان کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔سائنس بتاتی ہے کہ ورزش نہ کرنا دماغ پر ویسا ہی اثر ڈالتا ہے جیسا ڈپریشن کرتا ہے۔جب ہم حرکت نہیں کرتے، تو قدرتی اینٹی ڈپریسنٹس (Endorphins) پیدا نہیں ہوتے، دماغ بے چینی اور ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔سادہ الفاظ میں ہم ایک عجیب دور میں جی رہے ہیں:باہر مسکراہٹیں، اندر ویرانی۔ہمارے پاس وسائل، سہولیات، علم اور کنیکٹیویٹی ہے،لیکن ہم اپنے ذہن، دل اور روح کے ساتھ بے رحم سلوک کر رہے ہیں۔یہ وہ حقیقت ہے جو اکثر نظر انداز کی جاتی ہے، مگر اگر ہم اس کا سامنا نہ کریں تو ہماری خوشیاں، سکون اور زندگی کے لمحات دھندلانے لگیں گے۔
اب وقت ہے کہ ہم اپنے ذہن کی غذا صاف کریں، حقیقی تعلقات قائم کریں، آرام اور سکون کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، اور روحانی و جذباتی صحت کو اولین ترجیح دیں۔
واپسی کا راستہ :سکون، خودی اور معنی کی طرف
اگر آپ کا دل آج بھی بے چینی محسوس کرتا ہے، اگر ذہن کبھی کبھی خاموش ہو کر سوال کرتا ہے کہ “یہ زندگی آخر کس سمت جا رہی ہے؟” — تو یہ کوئی خرابی نہیں، یہ ایک دعوت ہے۔آپ کا اندرونی انسان آپ کو جگا رہا ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جس میں زندگی چاہتی ہے کہ آپ رکیں، سوچیں اور واپس اپنے حقیقی راستے کی طرف لوٹ آئیں۔ہم سب اس دور کے ذہنی دباؤ کے شکار ہیں، لیکن یہ دباؤ کوئی ناقابلِ شکست طاقت نہیں۔یہ بس ہمارے طرزِ زندگی، ترجیحات اور ذہنی غذا کا ردِ عمل ہے۔اور اچھی خبر یہ ہے کہ جیسے غلط راستہ انسان كوپریشانی دیتا ہے، ویسے ہی درست راستہ سکون لوٹا دیتا ہے۔
6-ذہن کی صفائی
جیسے آپ اپنے جسم کو کچرے سے بچاتے ہیں، بالکل ویسے ہی ذہن کی حفاظت بھی ضروری ہے۔دماغ کو ہر طرح کا مواد کھلانا ظلم ہے خاص طور پر وہ مواد جو خوف، مایوسی اور بے سکونی کا زہر رکھتا ہے۔نیوروسائنس کہتی ہے کہ مسلسل منفی خبریں، سیاسی لڑائیاں، کرائم شوز اور بے مقصد ویڈیوز امیگڈالا (خوف کا مرکز) کو ہر وقت الیرٹ رکھتی ہیں۔
نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ایک مسلسل بے چینی، غیر ضروری گھبراہٹ، اور دماغ کا ٹوٹل اوورلوڈ۔اس بے چینی کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلے آپ ذہن کو مثبت غذا دینا شروع کریں.مثلاً روزانہ صرف 15 منٹ کوئی ایسی کتاب پڑھیں جو آپ کی سوچ کو بلند کرے۔فلسفہ، مثبت نفسیات، سیرتِ طیبہ، اسٹوئک فلاسفی یا کچھ اور مثبت لٹریچر اور یہ سب آپ کے دماغ میں نئے، صحت مند نیورل روٹس بناتے ہیں۔
بہتر لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں.وقت اُن لوگوں کے ساتھ گزاریں جو آپ کو ثابت قدم رہنے، سوچنے اور بہتر بننے کی موٹیویشن دیں۔کیونکہ زہریلی محفلیں ذہن کو ہمیشہ نیچے لے جاتی ہیں، جبکہ حکمت سے بھرپور گفتگو انسان کو اوپر اٹھا دیتی ہے۔
7-حال میں جینے کا فن: مائنڈ فلنس اور میڈیٹیشن
ہماری آدھی پریشانیاں ماضی کی یادوں سے ہوتی ہیں،اور باقی آدھی مستقبل کے خوف سے۔بدقسمتی سے ہم زندگی صرف ذہن میں جیتے ہیں، لمحوں میں نہیں اور اس کا بہترین حل مائنڈفلنس ہے. مائنڈ فلنس کا مطلب ہے:"جو کر رہے ہو، بس اُسی میں مکمل موجود رہو۔"جب آپ ایسا کرتے ہیں توپری فرنٹل کورٹیکس مضبوط ہوتا ہے (جو فیصلوں اور سکون کا حصہ ہے) اور امیگڈالا پرسکون ہو جاتا ہے۔اس کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر چند منٹ Breathing Meditation کریں. سب سے پہلے اپنی آنکھیں بند کریں، صرف سانس کو محسوس کریں۔خیالات آئیں، کوئی بات نہیں۔نرمی سے واپس سانس پر توجہ لائیں۔یہ مشق دماغ کے اندر "سیٹ پوائنٹ" بدل دیتی ہے اور انسان آہستہ آہستہ بہتر سوچنے اور پرسکون رہنے لگتا ہے۔
8- اللہ سے تعلق: نفسیاتی سکون کا سب سے مضبوط فارمولہ
ایک بڑی وجہ اینزائٹی کی یہ ہے کہ ہم ہر چیز پر کنٹرول چاہتے ہیں لیکن زندگی کنٹرول نہیں ہوتی، زندگی بہتی ہے۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ سے کنیکشن اور توکل سب سے بہترین سٹریٹجی ہے. یہاں یہ بات بھی سمجھ لیں کہ توکل کوئی مذہبی جملہ نہیں بلکہ یہ ایک نفسیاتی حکمت عملی ہے۔آپ اپنی کوشش کریں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔یہی وہ لمحہ ہے جب ذہن کا بوجھ 70 فیصد کم ہو جاتا ہے۔اللہ کے ساتھ کنیکشن بہتر کرنے کے لیے نماز سے بہتر کوئی کام نہیں ہے اور ویسے بھی ایک سجدہ انسان کے اندر دبے خوف، دباؤ اور بوجھ کو پگھلا دیتا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر چند آیات ہی سہی لیکن تلاوت ضرور کریں. قرآن کہتا ہے:"دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہے"اور یہ حقیقت ہے کہ روحانی سکون کے بغیر کوئی ذہنی سکون مکمل نہیں ہوتا۔
9-شکر گزاری: دماغ کو خوشی کا عادی بنانا
ناشکری وہ عینک ہے جو انسان کو صرف کمی دکھاتی ہے، نعمتیں نہیں۔لیکن شکر گزاری دماغ کا فوکس بدل دیتی ہے. قلّت (Scarcity) سے کثرت (Abundance) کی طرف۔شکرگزاری کے لیے آپ Gratitude Journal لکھنا شروع کریں.روز رات کو سونے سے پہلے تین چیزیں لکھیں جن کیلئے آپ شکر گزار ہیں۔یہ معمولی چیزیں بھی ہو سکتی ہیں جیسے اچھی چائے، کسی کا خیال رکھنا، ایک محفوظ رات.اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی مثبت چیزوں کا شکر ادا کریں کیونکہ زندگی کی خوشی ہمیشہ چھوٹے لمحوں میں چھپی ہوتی ہے۔
10-خود پر شفقت برتیں.
ہم اپنے ساتھ سب سے زیادہ سختی کرتے ہیں۔اپنی غلطیوں کو کوستے ہیں،اپنی کمزوریوں پر شرمندہ ہوتے ہیں اور خود سے وہ توقعات رکھتے ہیں جو غیر انسانی ہیں۔اپنی زندگی میں کچھ Self-Compassion کا مظاہرہ کریں.یعنی خود پر کچھ شفقت اور رحم دلی کا مظاہرہ کریں. ریسرچ کہتی ہے کہ جہاں خود پہ تنقید انسان کو توڑ دیتی ہے وہیں خود پر شفقت انسان کو اندر سے جوڑ دیتی ہے۔اپنے آپ کو ملامت نہ کریں۔آپ انسان ہیں، روبوٹ نہیں۔زندگی سیدھی لائن نہیں بلکہ اتار چڑھاؤ ہی زندگی ہے اور ہر دن نئے آغاز کا امکان رکھتا ہے۔اور سب سے اہم بات یہ رکھیں:ہم اپنی زندگیاں اس لیے نہیں جیتے کہ دوسروں کو "دکھا" سکیں۔زندگی کا اصل مقصد "محسوس کرنا" ہے. ہر چائے کا گھونٹ، ہر تازہ ہوا، ہر چھوٹا لمحہ،ہر دعا، ہر شکر، ہر نرمی۔آئیے آج سے فیصلہ کریں:ہم اپنے ذہن میں کچرا نہیں ڈالیں گے۔ہم اپنی روح کی صفائی کریں گے۔ہم حال میں جئیں گے، شکر کے ساتھ، سکون کے ساتھ اور ہر لمحہ اللہ پر توکل رکھتے ہوئے۔کیونکہ اصل خوشی کسی منزل میں نہیں بلکہ اُس سفر میں ہے جو ہم ہوش اور شکرگزاری کے ساتھ جیتے ہیں۔
بر ن آؤٹ جنريشن
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ رات کو پوری نیند لے کر اٹھیں، مگر بستر سے نکلتے ہی ایسا محسوس ہو جیسے آپ نے صدیوں سے آرام نہیں کیا؟کیا آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اتوار کا دن گزر جائے، چھٹی ختم ہو جائے، مگر دماغ کا بوجھ ہلکا نہ ہو؟اور سب سے خوفناک سوال: کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ "زندہ" تو ہیں، مگر آپ کے اندر کچھ ہے جو آہستہ آہستہ "مر" رہا ہے؟اگر ان سوالوں کا جواب "ہاں" ہے، تو گھبرائیے مت۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔آپ اس دور کی اُس نسل کا حصہ ہیں جسے ماہرین "The Burnout Generation" (تھکی ہوئی نسل) کہتے ہیں۔
میرے پاس نوجوان آتے ہیں، جو بظاہر بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ اچھے کپڑے، ہاتھ میں مہنگا فون، چہرے پر مسکراہٹ۔ مگر جیسے ہی وہ بات شروع کرتے ہیں، ایک ہی جملہ دہراتے ہیں:"سر! میں تھک گیا ہوں۔ یہ جسمانی تھکن نہیں ہے، مجھے نہیں معلوم یہ کیا ہے، بس دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤں۔"
آج کی یہ تحریر اسی "نامعلوم تھکن" کا پوسٹ مارٹم ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان جسمانی مشقت کے بغیر ہی کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟
1- مسئلہ جسم کا نہیں، ہمارے دماغ کی(RAM) کا ہے(Cognitive Overload)
ہمارے والدین اور دادا دادی ہم سے زیادہ محنت مشقت کرتے تھے۔ وہ کھیتوں میں کام کرتے، میلوں پیدل چلتے، بھاری وزن اٹھاتے۔ مگر وہ رات کو بستر پر لیٹتے ہی سو جاتے تھے۔ ان کے چہروں پر وہ ویرانی نہیں تھی جو آج کے 25 سال کے نوجوان کے چہرے پر ہے۔وجہ؟وجہ یہ ہے کہ وہ "جسمانی" تھکتے تھے، اور ہم "ذہنی" تھک رہے ہیں۔
ذرا اپنے دماغ کا تصور ایک کمپیوٹر یا موبائل فون کے طور پر کریں۔ جب آپ کے فون کے بیک گراؤنڈ میں 50 ایپس کھلی ہوں، تو کیا ہوتا ہے؟ فون گرم ہو جاتا ہے، ہینگ ہونے لگتا ہے اور بیٹری تیزی سے گرتی ہے۔آج کے نوجوان کا دماغ بالکل یہی حالت ہے۔
ہم واٹس ایپ پر بات کر رہے ہیں،ساتھ ہی دماغ میں کیریئر کی ٹینشن چل رہی ہے،سیاست کا غصہ بھی ہے،دوست کی شادی کی تصویریں دیکھ کر موازنہ (Comparison) بھی چل رہا ہے اور مہنگائی کا خوف بھی۔نیوروسائنس کی زبان میں اسے "Cognitive Overload" کہتے ہیں۔ ہمارا دماغ ہر وقت پروسیسنگ کر رہا ہے۔ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی "آف لائن" نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ سو بھی جاتے ہیں، آپ کا دماغ جاگ رہا ہوتا ہے۔ وہ "اسٹینڈ بائی" (Standby) موڈ پر نہیں جاتا، وہ بس اسکرین آف کرتا ہے مگر بیک گراؤنڈ میں ڈیٹا چل رہا ہوتا ہے۔ اسی لیے صبح اٹھ کر آپ فریش نہیں ہوتے، کیونکہ آپ کی روح نے آرام کیا ہی نہیں۔
2- بدلے کی نیند: (Revenge Bedtime Procrastination)
یہ ایک بہت اہم نفسیاتی نقطہ ہے۔اکثر نوجوان شکایت کرتے ہیں: "سر رات کو نیند آ رہی ہوتی ہے، آنکھیں جل رہی ہوتی ہیں، مگر میں پھر بھی موبائل ہاتھ سے نہیں رکھ پاتا۔"
ہم اسے محض موبائل کی لت سمجھتے ہیں، جبکہ نفسیات میں اسے Revenge Bedtime Procrastination کہا جاتا ہے۔آسان الفاظ میں Revenge Bedtime Procrastination وہ عادت ہے جب انسان جانتے ہوئے بھی دیر تک جاگتا ہے، کیونکہ دن بھر اپنے لیے وقت نہیں ملتا۔رات کو وہ خود سے “بدلہ” لیتا ہے کہ اب میں اپنا وقت لوں گا، چاہے نیند قربان ہو جائے۔اب سارا دن ہمارا وقت دوسروں کے لیے ہوتا ہے۔ باس کے لیے، پڑھائی کے لیے، گھر والوں کے لیے، ٹریفک کے لیے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زندگی پر ہمارا کوئی کنٹرول (Control) نہیں رہا۔چنانچہ رات کا وہ وقت جب سب سو جاتے ہیں، ہمارا دماغ "انتقام" (Revenge) لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "یہ وقت صرف میرا ہے۔ میں اسے سونے میں ضائع نہیں کروں گا، میں اسے جیوں گا، چاہے فضول سکرولنگ کر کے ہی کیوں نہ ہو۔"یہ لاشعوری طور پر اپنی آزادی واپس لینے کی ایک کوشش ہے، جو بدقسمتی سے ہمیں اور زیادہ بیمار اور تھکا دیتی ہے۔
3- جذباتی تھکن اور ہمدردی کا بوجھ(Compassion Fatigue)
ہم تاریخ کی وہ پہلی نسل ہیں جو پوری دنیا کا درد اپنے بیڈروم میں بیٹھ کر محسوس کرتی ہے۔
فلسطین میں جنگ ہو، ملک میں سیاسی ہنگامہ ہو، یا کسی اجنبی کے ساتھ ظلم—سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تمام "Trauma" (صدمہ) ہمارے اعصاب پر ڈائریکٹ حملہ کرتا ہے۔
ہمارا دماغ اتنے زیادہ غم اور غصے کو پروسیس کرنے کے لیے نہیں بنا تھا۔نتیجہ؟ Emotional Numbness (جذباتی بے حسی)۔ہم اتنا زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے ہم محسوس کرنا بند کر دیتے ہیں۔ ہمیں خوشی بھی "اوپری اوپری" لگتی ہے اور غم بھی۔ ہم اندر سے پتھر بن جاتے ہیں۔ اسی لیے چھٹی کے دن بھی دل ہلکا نہیں ہوتا، کیونکہ بوجھ کام کا نہیں، بوجھ ان ہزاروں جذباتی تصویروں کا ہے جو دماغ میں چپکی ہوئی ہیں۔ہمیں خوشی عارضی کیوں لگتی ہے؟ (The Dopamine Trap)
آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ آپ کوئی نئی چیز خریدیں، کہیں گھومنے جائیں، تو خوشی صرف چند لمحوں کی ہوتی ہے۔ پھر وہی خالی پن۔کیوں؟کیونکہ ہم نے Pleasure یعنی لذت کو کو سکون یا خوشی سمجھ لیا ہے۔سوشل میڈیا کا ہر لائک، ہر نوٹیفکیشن، ہر نئی ریل ہمارے دماغ میں Dopamine (ڈوپامائن) ریلیز کرتا ہے اور یہی لذت کا کیمیکل ہے.
لذت کے اس کیمیکل یعنی ڈوپامائن کی خامی یہ ہے کہ یہ فوراً نیچے گرتا ہے۔ جتنا تیزی سے یہ اوپر جاتا ہے، اتنی ہی تیزی سے کریش ہوتا ہے. آج کا نوجوان اسی سست ڈوپامائن (Cheap Dopamine) کا نشئی بن چکا ہے۔ ہمیں مسلسل اسکرین، فاسٹ فوڈ، اور خریداری سے خوشی چاہیے، جو کہ سراب ہے۔اس کے برعکس حقیقی خوشی کا تعلق Serotonin سے ہے، جو ٹھہراؤ، شکرگزاری اور گہرے تعلقات سے ملتا ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہماری لسٹ سے غائب ہو چکی ہیں۔ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟
مسئلہ یقیناً بڑا ہے، لیکن اس کا حل موجود ہے بس ہمیں اپنے دماغ کی وائرنگ (Wiring) کو دوبارہ سیٹ کرنا ہوگا اور اسے مقصد کے لیے چند طریقے آپ کے لیے تجویز کئے ہیں جو آپ کے لیے مددگار ثابت ہوں گے.
1- دماغ کو "آف لائن" کرنا سیکھیں (The Art of Doing Nothing)
ہمیں ہمیشہ یہ سکھایا گیا ہے کہ فارغ بیٹھنا وقت ضائع کرنا یا گناہ ہے — لیکن یہ غلط سوچ ہے۔دن میں صرف 10 سے 15 منٹ نکال کر Niksen کی عادت اپنائیں.
نکسن دراصل یہ ایک ڈچ طریقہ ہے جس میں آپ کچھ نہیں کرتے، بس پرسکون بیٹھتے ہیں تاکہ دماغ آرام کرے اور اس کا مطلب ہے: کچھ بھی نہ کرنا۔نہ موبائل، نہ کتاب، نہ عبادت، نہ سوچنا۔ بس کھڑکی سے باہر دیکھیں، یا چھت کو گھوریں۔اپنے دماغ کے Default Mode Network (DMN) کو پرسکون ہونے کا موقع دیں۔ جب آپ کچھ نہیں کر رہے ہوتے، تب ہی آپ کا دماغ اصل میں "ری چارج" ہو رہا ہوتا ہے۔ اسے اپنی روزانہ کی دوا سمجھ کر کریں۔
2- معلومات کی ڈائٹنگ(Information Fasting)
جس طرح پیٹ خراب ہو تو ڈاکٹر کھانا بند کروا دیتا ہے، اسی طرح ذہن خراب ہو تو معلومات بند کر دینی چاہئیں۔فیصلہ کریں کہ رات 9 بجے کے بعد یا صبح 10 بجے سے پہلے آپ دنیا کی کوئی خبر، کوئی مسئلہ، کوئی بحث نہیں سنیں گے۔اپنے دماغ کے ان پٹ (Input) کو کنٹرول کریں۔ جب کچرا اندر نہیں جائے گا، تو بدبو بھی نہیں پھیلے گی۔
3- نیند کی روٹین اور روشنی کا تعلق
اگر آپ رات کو سو نہیں پا رہے، تو اس کا تعلق آپ کی آنکھوں میں جانے والی روشنی سے ہے۔شام کے بعد اپنے فون کا "Blue Light Filter" آن کریں اور سونے سے ایک گھنٹہ پہلے اسکرین چھوڑ دیں۔یہ مشکل ہے، میں جانتا ہوں، مگر یہ آپ کی دماغی صحت کے لیے "زندگی اور موت" کا مسئلہ ہے۔اس ایک گھنٹے میں وہ کام کریں جو "بورنگ" ہوں (جیسے برتن دھونا، جوتے پالش کرنا، یا کاغذ پر کچھ لکھنا)۔ بوریت نیند کی سب سے اچھی دوست ہے۔
4- فطرت اور مٹی سے رابطہ(Grounding)
ہم کنکریٹ کے جنگلوں میں قید ہو گئے ہیں۔ ہمارا جسم الیکٹرانکس کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ہفتے میں ایک بار کسی پارک جائیں، جہاں آپ کے پاؤں گھاس یا مٹی کو چھو سکیں۔
سائنس اسے Grounding کہتی ہے۔ مٹی سے رابطہ آپ کے جسم میں کورٹیسول (Stress Hormone) کو کم کرتا ہے۔ یہ کوئی روحانی ٹوٹکہ نہیں، یہ بائیولوجیکل حقیقت ہے۔ درختوں کو دیکھنا، پرندوں کی آواز سننا، یہ ہمارے دماغ کا قدرتی علاج ہے۔
5-نہ" کہنے کی عادت اپنائیں (Set Boundaries)
اپنی انرجی کو لیک (Leak) ہونے سے بچائیں۔ہر بحث میں حصہ لینا ضروری نہیں، ہر کال سننا ضروری نہیں، ہر دعوت میں جانا ضروری نہیں۔اپنی ذہنی صحت کو اپنی ترجیح بنائیں۔ جو چیز، جو شخص، یا جو کام آپ کی ذہنی سکون کو تباہ کر رہا ہے، اس سے فاصلہ اختیار کرنا خودغرضی نہیں، بلکہ خود کی حفاظت (Self-preservation) ہے۔ان تمام طریقوں کے ساتھ ساتھ یہ ذہن نشین کرلیں کہ آپ مشین نہیں ہیں، آپ انسان ہیں۔آپ کو ہمیشہ "پروڈکٹیو" (Productive) رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ جو آپ ہر وقت بھاگ رہے ہیں کہ کہیں میں پیچھے نہ رہ جاؤں، یقین کریں، آپ کہیں نہیں پہنچیں گے اگر آپ اندر سے ٹوٹ گئے۔زندگی کوئی ریس نہیں ہے جہاں فنش لائن پر کوئی تمغہ ملے گا۔ زندگی تو سانس لینے، محسوس کرنے اور شکر ادا کرنے کا نام ہے۔
تھوڑا رک جائیں۔ گہرا سانس لیں۔اللہ نے آپ کو صرفHuman Doing کے لیے نہیں، بلکہ Human Being کے لیے بھی بنایا ہے۔