حيا كا معاشرتی اور اسلامی معيار

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2026

فكر ونظر

حيا كا معاشرتی اور اسلامی معيار

فہد حارث

اسلام کے سوابے حیائی کا مقرر کردہ ہر تصور ہر معیار نسبتی یعنی ریلیٹیو ہوتا ہے۔ آپ کے پاس ایسی کوئی اخلاقی قدر نہیں جس سے آپ ٹھیک ٹھیک متعین کرسکیں کہ حیا کیا ہوتی ہے اور پردہ و حجاب کس حد تک لازمی ہے۔ اس کی وجہ انسان کی فطرت و عقل ہے۔ انسان ہر شے کو اپنے ارد گرد کے ماحول سے اخذ کرتا ہے۔ اس کے لئے اسٹینڈرز یعنی معیارات وہی ہوتے ہیں جو وہ اپنے آس پاس سنتا، دیکھتا اور محسوس کرتا آیاہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھئے کہ اگر خواتین کے کسی اجتماع میں ، جیسا کہ عموماً جماعتِ اسلامی کی خواتین کے اجتماعات ہوتے ہیں، آپ عام طور پر تمام خواتین کو نقاب میں دیکھتے ہیں تاہم اگر اُس وقت آپ کو کوئی ایک خاتون اسکارف میں نظر آجائے تو وہ آپ کی آنکھوں پر تھوڑا گراں گزرتا ہے اور اس وقت ان خاتون کا حجاب آپ کی نظروں میں حیا کے اس تصور سے کم سطح پر آجاتا ہے جس سطح پر نقاب والی خواتین موجود ہوتی ہیں اور اس مجمع پر نظر دوڑانے سے آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گویا اسکارف والی خاتون حجاب کے تقاضوں میں کوتاہی کررہی ہے جبکہ انہیں اسکارف والی خاتون کو اگر آپ یورپ کے کسی بازار میں چلتا پھرتا دیکھیں گے تو آپ کو وہ حجاب کے تقاضوں کی اعلیٰ تکمیل کرتی محسوس ہونگی کیوں؟ کیونکہ اس وقت وہاں اکثریت اسکارف تو کجا دوپٹہ سے بھی بے بہرہ ہوتی ہیں۔

۱۹۹۰ء کی دہائی میں پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ آنچ آیا کرتا تھا۔ اس وقت جب وہ ڈرامہ ٹی وی پر آن ائیر ہوا تھا تو لوگوں کے لئے وہ محض ایک ڈرامہ تھا اور اسلام پسند لوگوں کے لئے تفریح کا ایک غیر شرعی و حرام طریقہ۔اس ڈرامہ کی ہیروئن الفت کی شکل میں رائٹر ناہید سلطانہ اختر نے لڑکیوں کو گھر بسانے اور چلانے کی ترغیب دی تھی اور بتایا تھا کہ کس طرح ایثار، قربانی، حیا اور محبت سے کسی دوسری عورت کے بچوں کو اپنا کر ان کی ماں اور اپنے شوہر کی منظورِ نظر بیوی بنا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ ڈرامے میں نامحرم خواتین اور بیک گراؤنڈ میوزک ہوا کرتا تھا سو اس وقت بھی کئی لوگوں کو اس سے اختلاف ہی رہا ہوگا۔ لیکن جب ہم آج کے ڈرامے دیکھتے ہیں جن میں ایک کی بیوی دوسرے کے شوہر کےساتھ افئیر چلارہی ہوتی ہے اور دوسرے کی بیوی کسی جوا ن لڑکے کے عشق میں مبتلا دکھائی پڑتی ہے، لڑکے لڑکیاں جینز اور ٹی شرٹ پہن کر ایک دوسرے سے لپٹا جھپٹی کررہے ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ جنریشن کی تربیت اور خاص کر لڑکیوں کی تربیت کی خاطر اُس ڈرامے "آنچ" کو پھر سے آن ائیر کیا جانا چاہیئے ۔

۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی بولی ووڈ یعنی انڈین فلم انڈسٹریز میں ہیروئنز کی دہائی کہلاتی ہے جب ہیروئنز نے ہیرو کے مقابلے میں عروج پانا شروع کیا تھا اور اس وقت ان کی حیثیت محض شو پیس سے ہٹ کر اداکارہ یعنی پرفارمر کے نام پر بھی جانی جانے لگی تھی۔ اس وقت بولی ووڈ انڈسٹری میں ایک عام چلن تھا کہ جب تک ہیروئن مشہور نہیں ہوجاتی تھی، ڈائریکٹرز اس کو ہر طرح کی ایکسپوزنگ پر مجبور کرسکتے تھے اور کرتے تھے اور ڈائیریکٹرز کی خواہشات کے زیرِ اثر ہیروئنز کو عموماً نیم برہنہ لباس پہننے پڑتے تھے لیکن جیسے ہی کوئی ہیروئن مشہور ہوجاتی یا شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی وہ فوراً ایکسپوزنگ چھوڑ دیتی تھی اور پھر ڈائیریکٹر بھی باوجود اصرار کے اس کو نیم برہنہ لباس پہننے پر مجبور نہ کرسکتے تھے۔ گویا اس وقت کی فلمی ہیروئن کے نزدیک بھی حیا کا تصور کسی حد تک موجود تھا اور وہ عوام کے سامنے اپنے تئیں ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی تھی چاہے اپنی نجی زندگی میں وہ کیسے ہی کردار کی حامل کیوں نہ ہو۔ اس کی بین مثال انڈین فلم انڈسٹری پر دس سال تک راج کرنے والی ہیروین سری دیوی تھی جو اس وقت امیتابھ بچن کے برابر کا معاوضہ طلب کرتی تھی اور جس کی بابت مشہور تھا کہ جب وہ کسی فلم کی ہیروئن ہوتی ہے تو کوئی نہیں پوچھتا کہ ہیرو کون ہے۔ سری دیوی نے اپنی شروع کی زندگی میں ایکسپوزنگ بھی کی اور نیم برہنہ لباس بھی پہنے لیکن جیسے ہی وہ نمبرون کی پوزیشن پر براجمان ہوئی، اس کے بعد کوئی ڈائیریکٹر اس سے یہ کام نہیں کرواسکا۔ یہاں تک کہ جب ایک مشہور ڈائیریکٹر نے ہالی ووڈ کی اپنے زمانے کی سپر ہٹ مووی "پریٹی وومن" کے ہندی ری میک کے لئے سری دیوی سے رابطہ کیا تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ اس فلم کے کردار کی ڈیمانڈ ایکسپوزنگ ہے اور میں اس قدر زیادہ ایکسپوزنگ و نیم برہنگی نہیں کرسکتی۔ جبکہ آج یہ وہی فلم انڈسٹری ہے جہاں دپیکا پدیکون سے لیکر کترینہ کیف تک سب جیسے جیسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچتی جاتی ہیں، ان کے کپڑے مزید اترتے جاتے ہیں ۔ سو اب ان ہیروئنوں کے آگے ماضی کی سری دیوی اور ریکھا واقعی دیویاں لگتی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ مخلوق کا قائم کردہ حیا کا معیار نسبتی ہے غیر متغیر نہیں۔

گویا ہماری بدلتی اقدار نے ناخوب کو خوب کردیاہے۔ ڈرئیے اس دن سے جب آج سے پچاس سال بعد آپ کہہ رہے ہوں کہ ۲۰۱۹ء میں ٹی وی اور فلموں میں آنے والی  ہيروئنوں میں کس قدر حیا ہوتی تھیں کہ بیچاری ڈانس بھی کرتی تھیں تو کوشش کرتی تھیں کہ جسم زیادہ نہ دِکھے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکو ل میں آپ کے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں اسکول کی مختلف گیدرنگ کے موقعوں پر لڑکوں کے کیمرے سے تصویر نہ کھینچواتی تھیں، وہ اپنے کیمرے خود لاتی تھیں اور اسی سے تصاویر لیا کرتی تھیں۔ انٹرنیٹ پر کسی عام گھر کی لڑکی کی تصویر کا ہونا محال ہی نہیں نا ممکن ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میری ایک کزن جو کسی حد تک خاندان میں پروگریسیو و آزاد خیال مشہور تھیں اور جن کے والدین کی طرف سے ان پر حجاب کے تقاضوں کو لیکر کچھ خاص قدغن نہیں تھی، ۲۰۰۸ء میں انہوں نے فیس بک پر اپنی پروفائل بنا کر اپنی تصویر لگائی تو پورے خاندان میں بڑی چہ مہ گوئیاں ہوئیں، سب نے بہت بُرا منایا کہ دیکھو لڑکی ہوکر فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا ہوا ہے اور اپنی تصویر لگادی ہے۔ گویا اس وقت یہ حرکت حیا کے تقاضوں کے سخت خلاف تھی لیکن صرف چند سالوں میں آج خاندان کی تقریباً ہر لڑکی کی فیس بک پر نہ صرف پروفائل ہے بلکہ بعض کی سجی سنوری تصویریں بھی موجود ہیں اور والدین کے لئے یہ سب کچھ بالکل عام اور نارمل ہے کیونکہ اب قدریں بدل گئی ہیں، حیا کی اقدار تغیر پذیر ہوگئی ہیں۔

سو یاد رکھئے حیا کا معیار وہ نہیں جو معاشرہ متعین کرے بلکہ حیا کا معیار و پیمانہ وہ ہے جو شریعت نے مقرر کردیا ہے جس میں عورت ایک بہت قیمتی نفس ِ انسانی ہے جو حیا کا پیکر بھی ہے اور نزاکت کا حسن بھی۔ جس کے ہر قدم کو اسلام نہایت باوقاربنا کر پیش کرتا ہے اور جس کی عفت و عزت اور خودی اسلام کی نظروں میں از حد مطلوب و محمود ہے۔ وہ عورت کے "چیز" ہونے کے سخت مخالف ہے بلکہ وہ اس کے ایک ایسے نفس ہونے کا قائل ہے جس کی خود اعتمادی اس طور کی ہونی چاہیئے کہ کوئی آدمی اس سے کلام کرتے ہوئے اس چیز کی توقع رکھے کہ اس کو جواب "لجلجاتی ہوئی آواز اور دلرُبا مسکراہٹ" کی شکل میں نہیں بلکہ ایک "کرخت آواز اور بااعتماد لہجے" کی صورت میں ملے گاکیونکہ نفسِ انسانی ہونے کے سبب وہ ہر لحاظ سے صنفِ مخالف کے برابر کا درجہ رکھتی ہے اور درجوں کا جو تفاوت الرجال قوامون علی النساء میں بیان کیا گیا ہے وہ عائلی زندگی کی بابت ہے جہاں اس کا راعی اس کی ضروریات کے لئے جوابدہ ہوتا ہے۔