کیا اسلام ایک ضابطہ حیات ہے ؟میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔اسلام کے بارے میں اس سے سطحی اور کمزور بات شاید ہی کبھی کی گئی ہو۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بات اسلام کے مقدمے کے باب میں بیان کی جاتی ہے اور تکرار کے ساتھ۔
ضابطہ ایک انتہائی محدود اور جامد تصور ہے۔یہ دو جمع دو چار کی طرح ہوتا ہے اور بیان کر دیتا ہے کہ فلاں چیز یوں ہو گی ،فلاں فعل جرم کہلائے گا ،فلاں کام کی یہ سزا ہو گی، وغیرہ وغیرہ۔ضابطہ معاملے کی جزئیات تک طے کر دیتا ہے۔وہ بتا دیتا ہے، اشارہ سرخ ہو تو گاڑی رک جائے گی اور سبز ہو توچل پڑے گی۔آپ بنک جاتے ہیں وہاں کا اپنا ایک ضابطہ ہوتا ہے۔دفاتر کا اپنا ضابطہ ہوتا ہے۔موٹر وے پر سفر کریں وہاں ایک الگ ضابطہ ہے۔ائر پورٹس کے ضابطے الگ ہیں۔ پاکستان میں تعزیرات پاکستان کی صورت میں ایک ضابطہ فوجداری موجود ہے۔ہمارا قانونی ڈھانچہ بھی ایک ضابطہ ہے۔ایک دور میں امام ابو یوسف کی کتاب الخراج بھی ضابطے کے طور پر نافذ العمل رہی۔ پھر ایک دور آ یا فتا وی عالمگیری کو ضابطے کا درجہ حاصل رہا۔زمان و مکاں بدلتے رہیں گے ضابطے تبدیل ہوتے رہیں گے۔ضابطہ نہ کامل ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ایک وقت آتا ہے، جب معلوم ہوتا ہے ،ضابطے کی کئی چیزیں عہد موجود میں غیر متعلق ہو گئی ہیں۔ تب ایک نیا ضابطہ یا معنوی ترمیم ضروری ہو جاتی ہے، بصورت دیگر وہ ضابطہ ناقص اور متروک قرار پاتا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ پرانا ہو چکا ہے، یہ نئے دور کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتا۔اسی طرح ضابطہ بے لچک بھی ہوتا ہے۔وہ ایک چیز طے کر دیتا ہے۔بھلے آپ کی پرواز فکر کوئی دوسرا نتیجہ نکال رہی ہو، ضابطے پر عمل ضروری ہوتا۔ضابطہ جب بن جائے تو اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی، وہ صرف تقلید اور تقلید محض کا تقاضا کرتا ہے۔
اسلام کسی نظام کا نام بھی نہیں ہے۔نظام بھی ایک محدود تصور ہے۔زمان و مکاں کی تبدیلی اعلیٰ سے اعلیٰ نظام کو مجموعہ نقائص ثابت کر سکتی ہے۔ایک نظام آج آپ کو انتہائی باکمال محسوس ہو تا ہے، ہو سکتا ہے، انسان کی فکر کا ارتقاکچھ عرصہ بعد اس کو ٹھکرا دے اور ایک نئے نظام کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔دنیا میں کتنے ہی نظام آ چکے اور کسے معلوم ابھی کتنے ہی او ر نظام آئیں گے۔اسلام کو اس محدود تصور میں قید نہیں کیا جا سکتا۔تو پھر اسلام کیا ہے؟
اسلام ہدایت، نصیحت اور خیر خواہی ہے۔اسلام نے کوئی ضابطہ دیا ہے نہ ہی کوئی نظام۔اسلام نے کچھ بنیادی اصول طے کر دیے ہیں۔ان اصولوں کی روشنی میں آپ ہر دور میں اس دور کی ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ضابطے بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور نظام بھی استوار کر سکتے ہیں۔زمانے کے انداز بدلیں گے نئے چیلنجز سامنے آ ئیں گے تو یہ ضابطے اور یہ نظام بھی تبدیل کر دیے جائیں گے۔صرف یہ اہتمام کیا جائے گاکہ نئے ضابطے اور نئے نظام اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں یا متصادم نہ ہوں۔اسلام کا یہی تو وہ حسن ہے جو اسے تا قیامت ہر دور میں متحرک قوت نافذہ کے طور پر زندہ رکھتا ہے۔عبادات کی استثناء کے ساتھ اس نے کوئی ضابطہ اور کوئی نظام وضع نہیں کیا۔اس نے شعور انسانی کو مقید نہیں کیا ،اسے آزاد چھوڑا ہے۔صرف آزاد نہیں چھوڑا، اس کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ آپ اجتہاد میں غلطی بھی کریں گے تو مواخذہ نہیں ہو گا بلکہ ایک اجر ملے گا۔اسلام نے صرف رہنما اصول دیے ہیں۔ان اصولوں کی روشنی میں فکر انسانی اس کے مشاہدات اورتجربات کوئی سا بھی ضابطہ ا ور کوئی سا بھی نظام بنانے میں آزاد ہیں۔ یہ رہبانیت کا علمبردار بھی نہیں ہے۔ قانون سے معیشت تک اور ذاتی زندگی سے اجتماعی زندگی تک اس کی رہنمائی موجود ہے۔۔ کسی پر جبر نہیں کہ اسے اختیار کرے لیکن جو مسلمان ہو اس کے لیے سیکولرزم کے نام پر حجتیں تراشنے کی کوئی گنجا یش نہیں۔ یا تو کہہ دیجیے ہم مسلمان نہیںیا اس کی ہدایات پر عمل کیجیے۔
اسلام کا ضابطہ حیات ہونا یا نہ ہونا، یہ محض ترکیب لفظی کا معاملہ نہیں۔اس مغالطے سے ایک کامل فکر تشکیل پاتی ہے جو بقائے باہمی اور خیر خواہی کی بجائے تصادم اور تناؤ کو فروغ دیتی ہے۔جب آپ اسلام کو ضابطہ حیات اور نظام قرار دے کر اسکی آفاقیت کو محدود کر تے ہیں تو اس سے کچھ مسائل جنم لیتے ہیں۔چند مسائل کا تعلق مسلم سماج کی نفسیاتی تشکیل سے ہے اور کچھ مسلم سماج اور غیر مسلم معاشروں کے باہمی تعلق کی الجھنوں سے متعلق ہے۔
داخلی سطح پر یہ سوچ ایک نفسیاتی گرہ بن جاتی ہے اور منتشر الخیالی پر منتج ہوتی ہے۔ہر آدمی اپنی اپنی استعداد فکر کے مطابق سوالات کے منجدھار میں پھنس جاتا ہے۔مثلااسلام اگر ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو ہم کسی بھی اور ضابطے کو کیوں مانیں؟ آپ غور فرمائیں تو آ پ کو روایتی مذہبی فکر میں ایک طبقہ یہ سوال اٹھاتا دکھائی دے گا کہ اسلام تو خود ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ایسے میں ہم پاکستان پینل کوڈ کو کیوں مانیں جس کا غالب حصہ دانش فرنگ سے ماخوذ ہے۔جب اسلام کو ایک ضابطہ حیات بنا دیا جاتا ہے تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرد کو دوسرے تمام ضابطے باطل لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔انسان نے صدیوں کے تجربات سے کچھ نتائج فکر اخذ کیے ہیںیہ انسانیت کا اجتماعی ورثہ ہیں۔یہ سوچ اس سارے ورثے کو حریف تصور کرتی ہے اور اس کی نفی کر دیتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماج کے ارتقائی عمل سے کٹ جاتا ہے۔اس کے اندر نفرت اور بے گانگی کے جذبات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔لیکن اگر ایک فرد یہ جان لے کہ اسلام کسی ضابطے کا نام نہیں بلکہ ایک اعلیٰ آفاقی ہدایت کا نام ہے جو کسی بھی خیر کی نفی نہیں کرتا۔وہ بنیادی طور پر کسی کا حریف نہیں سب کا خیر خواہ ہے۔وہ انسان کی دانش اجتماعی کی نفی نہیں کرتا صرف اس کی تہذیب کرتا ہے۔وہ کسی بھی تہذیب کو تباہ کرنے نہیں آیا بلکہ تزکیہ کرنے آیا ہے۔جہاں جہاں خرابیاں ہیں انہیں دور کر دیتا ہے۔حیات اجتماعی میں جہاں انسانی تجربات سود مند ہوں وہ ان کی قدر کرتا ہے تو پھر فرد کی نفسیاتی کیفیت کچھ اور ہو جاتی ہے۔پھر وہ یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ کتاب الخراج کی جگہ پاکستان پینل کوڈ کیوں نافذ ہے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس میں اسلام کی نصوص کے خلاف کچھ نہیں تو اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔اسلام کو ضابطہ سمجھیں تو سوال اٹھیں گے کہ اسلام میں کہاں لکھا ہے کہ موٹر وے پر حد رفتار ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی؟ کہاں لکھا ہے کہ سرخ اشارے پر گاڑی روکنا ہو گی ؟کہاں لکھا ہے کہ ایک پارلیمنٹ ہو گی ؟کہاں لکھا ہے کہ دوسرے ملک میں جانے سے پہلے ویزالینا ہو گا ؟کہاں لکھا ہے کہ مسلم امت سرحدوں میں تقسیم ہو جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اگر اسلام ایک ضابطہ حیات ہے تو اسے ہر چیز کے بارے میں بتانا چاہیے تھا۔اس نے ان چیزوں کا ذکر نہیں کیا اس لیے یہ سب کی سب غیر اسلامی ہیں۔یہ باطل نظام کی فروعات ہیں جنہیں ختم کرنا عین اسلام ہے۔لیکن اگر ہم اسلام کو ہدایت سمجھیں گے تو رہنما اصول موجود ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے اگر وہ نصوص شریعت کے خلاف نہ ہو۔اولی الامر نظام ریاست چلانے کے لیے دنیا کے کسی بھی ضابطے اور کسی بھی نظام سے چیزیں لے سکتا ہے شرط صرف اتنی سی ہے کہ وہ دین سے متصادم نہ ہوں۔جدید طرز زندگی میں ترقی یافتہ ممالک کے ضابطوں اور نظاموں میں سے خیر کی ہر چیز لی جا سکتی ہے کیونکہ انسان کی دانش اجتماعی کا مظہر ہے۔اسے حریف سمجھیں گے تو خیر سے محروم ہو جائیں گے۔ہر چیز اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی۔نہ ہی یہ تقسیم دین کا مقصود ہے۔ہم نے شدت جذبات میں ہر شے کو اس زاویے سے دیکھا تو اسلامی علوم اور غیر اسلامی علوم کی تفریق کر ڈالی یہاں تک کہ بات اسلامی شہد تک آن پہنچی۔کچھ بعید نہیں چند سالوں میں بریلوی شہد الگ دستیاب ہو اور دیو بندی اور شیعہ شہد الگ۔
اسی سوچ نے غیر مسلم معاشروں کے بارے میں ایک خاص رویے کو جنم دیا۔وہ کفریہ معاشرے ٹھہرے اور انہیں بتایا گیا کہ ہمارے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات اور مکمل نظام موجود ہے۔مکمل ضابطہ اور مکمل نظام کی بات کو ایک حریفانہ تصور کے طور پر لیا گیا۔جیسے اسلام آئے گا تو دیگر تہذیبوں کو مٹا کر ایک اسلامی تہذیب لاے گا۔سب نظام ختم کر دے گا۔تمام ضابطے کالعدم ہو جائیں گے۔ایک طرف یہ دعوے اور دوسری جانب مسلم دنیا کی حالت زار۔دنیا سوچتی ہو گی یہ کون سا ضابطہ ہمیں دینا چاہتے ہیں۔تصادم کی اس کیفیت نے اسلام کی کیا خدمت کی؟اسلام نہ کسی کی تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے نہ کسی نظام کو۔نہ اس کا مقصود یہ ہے کہ عرب کلچر ساری دنیا میں رائج ہو جائے نہ وہ کسی خاص رہن سہن اور تہذیب کا علمبردار ہے جو باقیوں کو مٹا کر غلبہ چاہتا ہے۔وہ حریف نہیں ایک خیر خواہ ہے ساری دنیا کا خیر خواہ۔ تمام تہذیبوں کا خیر خواہ۔ وہ کسی کو مٹانے نہیں آیا۔وہ تزکیہ کرنے آیا ہے۔