تخلیقِ آب و خاک ہی اعلانِ نعت ہے
”ہر شعبہ حیات میں امکانِ نعت ہے“
اشکوں سے پہلے کیجیے تطہیرِ نُطق و حَرف
آدابِ نعت ہیں یہی عرفانِ نعت ہے
پھر سے ہمیں زیارتِ طیبہ ہوئی نصیب
ہم پر عطا ہے نعت کی، فیضانِ نعت ہے
پروانہء بہشت کا مجھ سے نہ کر سوال
رضوان! میرے ہاتھ میں دیوانِ نعت ہے
یادِ مدینہ، اشک، شفاعت کی آرزو
ہم بے کسوں کا بس یہی سامانِ نعت ہے
لگتا ہے سب گناہ مرے دھلنے والے ہیں
شعر و سخن پہ حاوی جو رجحانِ نعت ہے
یاسین و طاہا کی ہمیں لولاک کی قسم
عالم کا ذرہ ذرہ ہی حیرانِ نعت ہے
قدموں میں شہ کے بیٹھ کے جنت دکھائی دے
آ پاس آ کے بیٹھ، خیابانِ نعت ہے
شاد اس ورق کو چومیے، دل سے لگائیے
جو جلوہ گاہِ مطلعِ جانانِ نعت ہے