تاريخ
انيسويں صدی كا ہندستان ،لطف اللہ کی آپ بیتی سے
ترجمہ و ترتیب ڈاکٹر مبارک علی
انتحاب – ميم -سين
ایک ایسی کتاب جو تکنیکی لحاظ سے اتنی شاندار ہے کہ دو سو سال پرانے ہندوستان کو آپکی آنکھوں کے سامنے یوں لا کھڑا کرتی ہے ۔جیسے آپ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کروٹ بدل رھا تھا۔ قدیم روایات اگرچہ کمزور ہو رہی تھیں لیکن موجود تھیں۔ نوآبادیاتی نظام تیزی سے اپنی جگہ بنا رھا تھا لیکن ابھی پوری طرح نافذ نہیں ہوا تھا۔۔ اس کتاب کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو اس کتاب کو ممتاز بناتے ہیں-
پہلی آپکو ہندوستان کے عام انسان کی زندگی بہت تفصیل اور گہرائی کے ساتھ دیکھنے کو ملتی ہے۔
دوسرا ہندوستان کے مقامی لوگوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے-
تیسرا وہ انگریزوں کے مزاج اور رویوں پر بڑا غیر جانبدرانہ رائے دیتا ہے-
چوتھا انگریزوں کے طرز عمل کا گہرا مشاہدہ کرتا ہے اور ان کی مثبت اور منفی باتوں پر اپنی رائے رکھتا ہے-انگریزوں کی ابتدائی جدوجہد ان کی محنت ، برداشت حب الوطنی، قربانی کے جذبے کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے۔
پانچواں کتاب میں کہیں شکوہ پڑھنے کو نہیں ملتا نہ ہی نظام پر تنقید نظر آتی ہے۔
چھٹا -سب مصائب کے باوجود مذہبی راست بازی سے کہیں بھی دامن چھڑانے کی کوشش نہیں کرتا۔
ساتواں- لطف اللہ کا مشاہدہ کمال کا ہے اور یادداشت بھی۔ اس لئے بہت معمولی نوعیت کی حرکات کو بھی نوٹ کرتا ہے۔ جس کی اس کے نزدیک اہمیت ہو۔
آٹھواں۔ کہیں کہیں اپنی فلسفیانہ سوچ کے ساتھ آپکے دماغ کی گرھیں ایسے کھولتا ہے کہ آپکو شک ہو جاتا ہے کیا واقعی یہ کتاب آج سے دو سو برس پہلے لکھی گئی تھی۔
اس کتاب میں جہاں پورے ہندوستان کا تعارف ملتا ہے وہیں یورپ کے سفر کے دوران مختلف ممالک کے بارے اپنے مشاہدات بھی جمع کئے ہیں۔مالدیپ لنکا کے جزائر کی سیر بھی شامل ہے۔ خاص طور پر سندھ میں قیام کے دوران وہاں پیش آنے والے واقعات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے۔
لطف اللہ کون تھا کہاں چلا گیا اس بارے ہمیں بہت زیادہ معلومات نہیں ہے۔ ہمیں اس کے بارے بس اتنا پتا ہے جتنا اس نے اپنی کتاب کے ابتدائی ابواب میں تعارف کروایا ہے۔ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد جو حالات کا شکار ہوگیا۔ باپ کے فوت ہوجانے کی وجہ سے ماموں نے تربیت کی۔ خاندان کا وارث ہونے کی وجہ سے لاڈ پیار کا شکار رھا۔ ذہانت کا مظاہرہ بچپن سے ہی اپنی شرارتوں سے کرنا شروع کر دیا۔ اس زمانے میں تعلیم کا انداز کیسا تھا اس کا پتا چلتا ہے جب اسے مدرسے داخل کروایا گیا۔غربت اور مفلسی سے تنگ آکر اپنے ان مریدوں کے ہاں جانے کا فیصلہ کیا جو خوشحال تھے۔وہاں پہنچ کر ماموں شدید بیمار پڑ گئے جس کی وجہ سے واپس آنا پڑا۔ لیکن لطف اللہ کا یہ پہلا سفر اس کیلئے بہت بڑی دلچسپی کا سبب بنا۔ کچھ عرصے بعد شہر اجین کا سفر کیا۔اس دوران اس کی ماں نے ایک فوجی کے ساتھ دوسری شادی کرلی۔ اگرچہ بے جوڑ رشتہ تھا لیکن اس نے لطف اللہ کو گھڑ سواری اور اسلحہ کی تربیت دلوائی۔ اسکا باپ ایک مزاحمتی تھا اس لئے گوالیار سے اسکے گرفتاری کے احکام آگئے لیکن رشوت کی وجہ سے اس پر زیادہ سختی نہیں کی گئی۔ کئی ماہ بعد ان کی جان چھوٹی۔ حاکم گوالیار کے ساتھ تعلقات اچھے کرنے کیلئے گوالیار کا سفر کرتے ہیں۔ مہاراجہ نے بوڑھے سپاہی کو معاف کر دیا تو گوالیار رہنا شروع ہوگئے۔ اس دوران لطف اللہ کے باپ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے تو اس نے گوالیار سے بھاگ جانے کی ٹھانی اور پکڑے جانے کے ڈر سے اصل راستے کی بجائے جنگل کا راستہ استعمال کیا۔ ٹھگوں سے بچتا بچاتا اور مشکلات سے گزر کر آگرہ اپنے سوتیلے ددھیال پہنچ جاتا ہے۔ آگرہ میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کی اور 1817 میں حکیم رحمت اللہ کا ملازم ہوکر دھلی روانہ ہوا۔ دھلی کچھ وقت گزار کر گوالیار لوٹے۔ جہاں اپنے سوتیلے باپ کے ساتھ صلح کی۔ حکیم صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے طب کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ سال بعد اپنے گھر لوٹ آیاجہاں اسے انگریز فوج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی بار انگریزی زبان سنی اور اسے سیکھنے کی کوشش کی۔ اس دوران افغانوں کا ایک گروہ ان کے شہر آیا تو لطف اللہ ان کو فوج کا حصہ سمجھتے ہوئے ان کا ملازم ہوا اور بہت مشکل سفر کے بعد ایک پہاڑی مقام پہنچے تو یہ جان کر بہت صدمہ ہوا کہ وہ افغان رہزن ہیں اور لوٹ مار کرکے اپنے مالک کو حصہ پہنچاتے ہیں اور باقی خود رکھ لیتے ہیں۔ چونکہ اسکا باپ بھی یہ پیشہ اختیار کر چکا تھا اس لئے اسے اس پیشے سے شدید نفرت تھی۔کافی عرصہ تک ان کے ساتھ لوٹ مار میں شامل رھا اور وہاں سے بھاگنے کی ترکیب سوچتا رھا۔ ایسے میں ایک مخالف قبیلے کے ساتھ پٹھانوں کا جب کافی نقصان ہوا تو موقع سے فائدہ اٹھا کر بھاگ نکلا اور ایک طویل مشکل اور تکلیفوں سے بھرے سفر کے بعد واپس گھر پہنچا تو سوتیلے باپ کے مرنے کی خبر ملی اور معلوم ہوا اسکی ماں بیمار ہے اور اسکے بچنے کے امکان بہت کم ہیں۔ ماں کی وفات پر اٹھنے والے اخراجات نے مقروض کر دیا جس پر اسکے دوست کی وساطت سے انگریز سرکار کے پاس کلرک کی نوکری مل گئی۔زندگی مزے سے گزر رہی تھی کہ ایک دن نوکری سے برخواست کر دیا۔ اور مصائب سے گزرتے ایک انگریز فوجی کو فارسی پڑھانے کی نوکری مل گئی۔ کچھ عرصہ بعد بلوچوں کی ایک بغاوت کچلنے نکلے تو لطف اللہ بھی ساتھ ہولیا۔ لطف اللہ کی ترقی کا سفر انگریزوں کا اعتماد اسے بہت اہم مقام تک لے گیا۔ اور ہندوستان سے باہر تک گھوم آیا۔ اپنی زندگی کی یہ روداد اس کتاب کی شکل میں لکھی۔ خود وہ تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوگیا لیکن اس کتاب کی بدولت اس کا نام ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔
اقتباسات
قحط اور بھوك
قحط کے دنوں میں خاصی تعداد میں لوگ روزانہ بھوک کی شدت سے مرجاتے تھے۔ ان کی لاشیں گھسیٹ کر شہر سے باہر لے جائی جاتی تھیں اور انہیں یا تو کسی گڑھے میں دفن کر دیا جاتا تھا یا سوکھے کنوؤں میں پھینک دیا جاتا تھا۔ اس تباہ کن قحط میں ایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ایک انسان بھوک اور فاقہ کی وجہ سے کس حد تک گر سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس واقعہ کو ضرور بیان کروں۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ ایک عورت کو دیکھنے گیا کہ جس کی سربازار تشہیر کی جارہی تھی۔ اس مقصد کے لئے اس کے چہرے کو ایک طرف سے سفید اور دوسری طرف سے کالا کیا گیا تھا اور اسے گدھے پر الٹا بٹھایا گیا تھا۔ چونکہ مجھے اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ اس لئے میں اس کو اس حالت میں دیکھ کر محظوظ ہوا۔ لیکن میری یہ خوشی تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو گئی کہ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ عورت ایک قریبی گاؤں کی ہے اور اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے بھوک کی شدت سے مجبور ہو کر اپنے ہمسایہ کے بچے کو مار ڈالا اور اس کے گوشت کو
ابال کر کھا گئی۔
سزاؤں اور تشدد كے طريقے
ان میں سے ایک یہ تھا کہ کسی شخص کو رسیوں سے باندھ کر ننگے سر جلتے سورج کی روشنی میں کھڑا کردیا جاتا تھا اور اس کے کانوں کو بندوق کی لبلبی سے چھید دیا جاتا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اسے دھوپ میں کھڑا کر کے اس کے سر پر انگور کے دانے برابر پتھر رکھا جاتا تھا اور پھر اس کے اوپر ایک بھاری پتھر تاکہ یہ اس کے سر میں داخل ہو جائے اور اسے تکلیف دے۔ تیسرا طریقہ یہ تھا کہ ایک تھیلے میں راکھ اور سرخ مرچیں ملا کر اس کے منہ پر باندھ دیا جاتا تھا۔ جب وہ سانس لیتا تو یہ اس کے منہ اور ناک میں جاتا جس سے اس پر ابتدا میں کھانسنے کا دورہ پڑتا مگر آخر میں اس کا دم گھٹ جاتا اور اس کی موت واقعہ ہو جاتی۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے طریقے جن کو بطور تشدد استعمال کیا جاتا تھا - انہیں ہاتھی کے پیر سے باندھ کر شہر کی سڑکوں پر گھیسٹا جاتا تھا یا ہاتھی کے ذریعہ ان کے جسم کے دو ٹکڑے کروا دیئے جاتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مہاوت کے اشارے پر ہاتھی مجرم کی ایک ٹانگ کو اپنی سونڈ میں پکڑتا اور دوسری پر اپنا پیر رکھتا، پھر سونڈ سے ٹانگ کھینچ کر جسم کے دو ٹکڑے کر دیتا تھا۔ دوسرے طریقہ میں سر کو پھاڑ دیا جاتا تھا۔ یہ سزا کا سب سے زیادہ خوفناک طریقہ کار تھا۔ اس میں سر پر ایک پتھر کی چھوٹی سی گولی رکھ دی جاتی تھی۔ اس کے بعد جلاد تین مرتبہ اجازت لیتا تھا۔ جب تیسری بار اجازت مل جاتی تو پتھر کی اس گولی پر زور سے ہتھوڑا مارتا تھا۔ جس کی ضرب سے سر پھٹ جاتا تھا اور اس میں سے مغز نکل کر باہر آجاتا تھا۔ سزا کے دوسرے طریقوں میں مجرم کو اونچی دیوار سے نیچے پھینکنا، تلوار سے سر اڑانا اور توپ سے باندھ کر اڑانا شامل تھے۔ ان میں سے اکثر سزاؤں کو میں خود دیکھ چکا ہوں-
مغلوں كا خرا ب حال
اس وقت ہر طرف سے اس کا چرچا تھا کہ جنگ ہونے والی ہے۔ دہلی سلطنت کو اس وقت سخت صدمہ پہنچا کہ جب 1707 میں اور نگزیب کی وفات ہو گئی۔ لیکن سلطنت کی اصل طاقت اس وقت ختم ہوئی جب شاہ عالم کو کہ جس نے عیاشی و لہو لعب کی زندگی گزاری۔ 1788 میں غلام قادر خاں نے اندھا کر دیا۔ اس کی موت 1806 میں ہوئی۔ اس کے بعد اس کا لڑکا اکبر دوم بادشاہ بنا۔ اس کی تخت نشینی میں مرہٹوں نے مدد دی تھی۔ لہذا جب سلطنت کی یہ حالت ہوئی تو صوبوں کے عمال نے بغاوت کر کے خود مختاری اختیار کرلی۔
ساٹھ سال پہلے محمد شاہ کے دور حکومت میں کچھ غیر ملکی جو اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے ہم سے مختلف تھے ، ہندوستان میں آئے اور یہاں بادشاہ کی کمزوری امراء و عالموں کے اختلافات و خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر اپنا اقتدار قائم کرنا شروع کر دیا۔
انگريزوں كے بارے ميں عجيب توہماتی باتيں
ان عجیب و غریب لوگوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ مثلاً یہ کہ ان کی کوئی کھال نہیں ہوتی ہے، بلکہ ایک باریک غلاف سے ان کا جسم ڈھکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ کراہیت کی حد تک سفید نظر آتے ہیں۔ انہیں جادو ٹونا آتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی تمام مہمات میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمارے پیغمبر پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور خود کو عیسائی کہتے ہیں۔ مگر وہ مقدس انجیل کے قوانین پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنے دنیاوی مفادات کے تحت ترمیم کرلی ہے۔ ان میں سے اکثر بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور کھانے میں سور اور پینے میں شراب استعمال کرتے ہیں-
بڑودہ
شہر کو چھوڑنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کو کچھ اس شہر کے بارے میں بتاؤں۔ بڑودہ کا اصلی نام "بار پتر" تھا۔ یہ پہلا بڑا شہر تھا جو میں نے دیکھا تھا۔ اس لئے میں اس کا مقابلہ اپنے چھوٹے اور شکستہ حال شہر سے نہیں کر سکتا کہ جو اس کا مشکل سے بارہواں حصہ ہو گا۔ شہر کا اندرونی حصہ فصیلوں میں گھرا ہوا ہے اور اس میں جگہ جگہ پہرے داروں کے لئے مينار بنے ہوئے ہیں لیکن اس سے باہر کا حصہ کھلا ہوا ہے اور کہیں کہیں وہ فصیلوں کے درمیان ہے۔ اس کے مرکز میں ایک چوکور بڑی شاندار عمارت ہے، جسے منڈاوی کہتے ہیں۔ اس کے اندر تقریباً سو دکانیں ہیں۔ شہر میں جو محل ہے وہ مرہٹوں کے اپنے انداز کا ہے۔ اس لئے وہ محل سے زیادہ بدصورت تہہ خانہ معلوم ہوتا ہے۔ شہر کی آبادی اس وقت ایک لاکھ کے قریب ہوگی۔ بروڈہ کی حکومت اس وقت مرہٹہ راجہ کیکواڑ جس کا تعلق گائے پالنے والی ذات سے تھا اس کے پاس تھی۔ راجہ کا نام آنند راؤ تھا اور یہ خاندان کے بانی پلاجی کی چھٹی نسل سے تھا۔ چونکہ یہ راجہ ان پڑھ ہوتے تھے، اس لئے حکومت کے امور میں ان کے وزیروں کا عمل دخل ہو تا تھا، جو سلطنت کے ہر شعبہ میں اس لئے بے ترتیبی اور پیچیدگی پیدا کرتے تھے کہ اس میں ان کی بدعنوانیاں چھپ جاتی تھیں۔بڑودہ میں میں ایک پالتو گینڈے سے بے انتہا متاثر ہوا، جسے شہر کے ایک دروازے کے پاس رکھا گیا تھا۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور جانور ہے۔ مجھے اس کو دیکھنے کا اس قدر شوق ہو گیا تھا کہ میں گھنٹوں اس کے دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ بیٹھا رہتا اور اس کو گھورتا رہتا۔یہ شہر دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی، میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ شہر ہندوؤں کے دیو مالائی قصوں کے مطابق ہزاروں سال پہلے آباد ہوا تھا۔ ہندوؤں کے لئے اس شہر کی بڑی توقیر ہے کیونکہ یہاں راجہ کرن بھرتری اور مشہور زمانہ وکرم جیسے بادشاہ تخت نشین ہوئے اور روحانی طاقتوں کی مدد سے یہاں حکومت کی۔ راجہ وکرم ، جس کی وفات 57 ق م میں ہوئی، اس کا سن بطور کلینڈر پورے ہندوستان میں ہندو استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے اس شہر کو 1224 میں فتح کیا تھا۔ محمد شاہ کے عہد زوال میں اس پر مرہٹوں نے قبضہ کرلیا اور جب سے اب تک یہاں پر سندھیا خاندان کی حکومت ہے۔ 1860ء اس کی آبادی ایک لاکھ بيس ہزار تھی۔
توہمات
یہاں میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان چند توہمات کا ذکر کرتا چلوں کہ جو ہندوستان کے تمام لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ اگرچہ ہمارے رسول نے ہر قسم کے توہمات کو رد کر دیا تھا۔ چاہے ان کا تعلق علم نجوم سے ہو، یا ایام جاہلیہ سے، مگر اس کے باوجود مسلمان جھوٹے مذاہب کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اور ہر قسم کے کام کی ابتداء کرنے سے پہلے علم نجوم کے ذریعہ شگون لیتے ہیں۔ چاہے یہ شادی ہو، سفر پر جاتا ہو، بچہ کی پیدائش ہو، گھر کی تعمیر ہو، فصد کا کھلوانا ہو یا سرمنڈانا ہو۔ ہر عمل کے لئے دن اور وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔ چاند کے ہر مہینے میں چھ دن منحوس خیال کئے جاتے ہیں۔ یہ چھ دن 3 ،8 ،13 ،18 ،23 ،اور 28 تاریخوں کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سات ستاروں کی حرکت کو دیکھتے ہوئے دن اور وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔
قتل كر نے والے ٹھگ كی شاگردی
اگرچہ میں بہت زیادہ تھک گیا تھا اور نیند سے میری آنکھیں بند ہونے لگی تھیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے میری جان بچالی کیونکہ جمعہ نے مجھ سے گفتگو شروع کردی اور کہنے لگا کہ اس نے میرے بارے میں اندازہ لگا لیا ہے کہ میں کرایہ کے فوجی کی طرح ہوں کہ جو ملازمت کی تلاش میں آوارہ پھر رہا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کی حالت بھی میری طرح کی ہی ہے کہ جس کا کوئی دوست اور جاننے والا نہیں۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ اگر میں قرآن شریف کے نام پر قسم کھاؤں کہ میں اس کا راز کبھی بھی فاش نہیں کروں گا تو وہ مجھے اپنا شاگرد بنانے پر تیار ہے۔ اس کے کہنے کے مطابق اس کا پیشہ اتنا شاندار ہے کہ وہ لمحوں میں آدمی کو مالدار بنا دیتا ہے۔ میں جمعہ کی گفتگو سے بڑا متاثر ہوا اور میں نے بغیر سوچے سمجھے، فورا قسم کھائی، اگرچہ اس کا بعد میں مجھے افسوس بھی ہوا۔ اس کے بعد جمعہ کہنے لگا کہ ملک بھر میں اس کے سات شاگرد ہیں، جو اس کے وفادار ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اب وہ راز بتاؤ کہ کیا ہے؟ اس نے ایک بار پھر مجھ سے قسم لی کہ میں راز کو اپنے ہی تک رکھوں گا اور کسی سے اس کا ذکر نہیں کروں گا۔ پھر کہنے لگا کہ دراصل میں ٹھگ ہوں اور مسافروں کو قتل کرکے ان کے مال کو ہتھیا لیتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے اپنا تھیلا ہاتھ میں لیا اور اس میں سے سونے کے سکے نکال کر دکھائے-
آگرہ
اگرہ کا تاریخی اور قدیم شہر جمنا دریا کے شمال مغرب میں واقع ہے، دریائے جمنا، گنگا اور سرسوتی تینوں ہندوؤں کے مقدس دریا ہیں۔ الہ آباد کے قریب ان کا سنگھم تری بینی یا بالوں کی تین چوٹیاں کہلاتا ہے۔ یہ ان کے نزدیک انتہائی پاک مقام ہے کہ جہاں غسل کرنے سے ان کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔ جمنا میں نہانے سے تین گنا گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اکبر بادشاہ کے دور حکومت سے آگرہ کا نام اکبر آباد ہو گیا ہے۔ اس نے شہر کوخوبصورت بنانے اور آباد کرنے میں بڑی دلچسپی لی تھی اور پھر اسے اپنا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ اس شہر کے گھر اکثر بلند و بالا اور دو منزلہ ہیں۔ لیکن گلیاں بڑی تنگ اور پیچیدہ ہیں۔ان کا مقابلہ قاہرہ کی گلیوں سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سوائے ایک کے جو قلعہ سے متھرا دروازے تک جاتی ہے۔ شہر کا ایک بڑا حصہ ان دنوں میں ویران پڑا ہوا تھا۔ یہاں سے پندرہ میل کے فاصلہ پر سکندرہ میں شہنشاہ اکبر کا مقبرہ ہے۔اس کو تعمیر کرانے والا شاہ جہاں تھا، جس نے اسے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں بنوایا۔ ممتاز محل ایک قابل خاتون تھی اور اپنے وقت کی سب سے خوبصورت عورت تھی۔ یہ اس کا مقبرہ ہے۔ اس وقت آگرہ کی آبادی، جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے، اسی ہزار تھی، 1803ء میں دولت راؤ سندھیا نے اسے لارڈ لیک کے حوالے کر دیا تھا۔
دہلی
دھلئ: شہر میں داخل ہوتے وقت انگریزی حکومت کے کچھ کلرکوں اور چپڑاسیوں نے ہماری ناراضگی کے باوجود ہمارے سامان کی تلاشی لی اور ہم سے تفصیل کے ساتھ شہر آنے کی وجوہات معلوم کیں۔ جب ان کو سوالات کا جواب مل گیا تو انہوں نے ہمیں جانے کی اجازت دی۔ حکیم نے وقتی طور پر اپنی رہائش کا انتظام ایک امیر کی حویلی میں کیا یہ امیر نوازش خاں کے خاندان سے تھا اور ایک بڑی حویلی میں چاندنی چوک میں رہتا تھا۔ یہ مکان ہر قسم کے فرنیچر اور آسائش کی چیزوں سے آراستہ تھا۔ یہاں پر ہم سفر کی تھکن کے بعد سترہ دن تک آرام کے ساتھ رہے۔ اس عرصہ میں میرے پاس کرنے کو كام بہت کم تھا۔ صرف صبح کے وقت حکیم کے دیئے ہوئے نسخوں کو مجھے ایک رجسٹر میں نقل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی ہدایت کے مطابق مریضوں کے صندوق سے جو میرے چارج میں تھا دوائیں دینا ہوتی تھیں۔ پھر ناشتہ کے بعد سے پورا دن میرا اپنا ہوتا تھا۔ یہ وقت میں شہر کے گردونواح میں گھومنے میں گزارتا تھا۔موجودہ شہر کو شاہ جہاں نے 1631ء میں آباد کیا تھا۔ یہ شہر دریائے جمنا کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور اس کا نام شاہ جہاں آباد ہے۔ جب میں اس شہر میں آیا ہوں تواس کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہوگی۔ شہر پر ویرانی کی حالت طاری ہے اور خستہ عمارتیں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ یہ تباہی مرہٹوں کے ساتھ جنگوں کے نتیجہ میں آئی۔ شہر کی فصیل برج اور سات دروازے سرخ پتھر سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں پر بہت سی عمارتیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ ان میں سے کچھ اب تک اچھی حالت میں ہیں، اور کچھ شکستہ ہو گئی ہیں۔ مثلاً غازی الدین کا مدرستہ جو اجمیری دروازے کے قریب ہے۔ علی مردان خان قمر الدین خان اور محمد شاہ کی ماں قدسیہ بیگم کی حویلیاں اور بہت سی مسجدیں اب تک اپنی اصل شکل میں ہیں۔ ان سب عمارتوں میں شاندار دہلی کی جامع مسجد ہے جو سرخ پتھر سے تعمیر ہوئی ہے اور شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اس قابل احترام عمارت کو شاہ جہاں نے اپنی تخت نشینی کے چار سال بعد تعمیر کرایا تھا اور اس کی تکمیل گیارہویں سال جلوس میں ہوئی تھی۔
انگريزی سيكھنا
میں اپنی ماں کے ساتھ تین ہفتوں تک بڑے آرام اور خاموشی سے رہا۔ دسمبر کے درمیان میں دس ہزار فوجیوں پر مشتمل انگریز فوج سرٹامس جس لوپ کی سربراہی میں یہاں آئی اور دریائے سپرا کے کنارے قیام کیا۔ میرا وقت ان دنوں سپاہیوں کی بہترین یونیفارم ان کی توپوں کی قطاریں، اور ان کی جنگی سازوسامان کو دیکھنے میں صرف ہو تا تھا۔ صبح کی نماز کے بعد میں ان کے کیمپ میں چلا جاتا تھا اور وہاں ان کی ورزش، قواعد، ڈرل اور پیریڈ دیکھا کرتا تھا۔ وہاں میں نے ایک انگریز سپاہی سے دوستی کرلی تھی جو کہ بڑا شریف النفس تھا، مگر افسوس کہ میری زبان نہیں بول سکتا تھا۔ ہماری گفتگو اشاروں میں ہوتی یا ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی میں۔ ایک دن وہ مجھے اپنے خیمہ میں لے گیا جہاں اس کے اور دوستوں نے بڑی خوش اخلاقی سے میرا خیر مقدم کیا اور مجھے شراب کی پیش کش کی۔ اس کے لئے تو میں نے معذرت کرلی، مگر اس کو خوش کرنے کے لئے روٹی اور دودھ کو قبول کرلیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی کو انگریزی بولتے ہوئے سنا اور مجھے شدید خواہش ہوئی کہ اسے سیکھوں ۔ ان تین یا چار دنوں کی صحبت میں میں نے تین انگریزی کے الفاظ سیکھے اور انہیں فارسی میں اپنی کاپی میں لکھ لیا۔ الفاظ کی یہ لسٹ اب تک میرے نوٹس کے بنڈل میں موجود ہے۔
لٹيروں كےہمراہ
اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسی وادی میں اس کا آقا جو بھیلوں کا سردار ہے وہ رہتا ہے۔ اس کا نام نادر ہے اور اس کے حکم پر عمل کرنے کے لئے پانچ سو کے قریب لوگ ہر وقت تیار رہتے ہیں اور میں اپنے افغان دوستوں کے ساتھ اس کی مدد کرتا ہوں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم قافلوں اور کار وانوں کو لوٹتے ہیں۔ مال غنیمت جو حاصل ہوتا ہے اس کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اس میں سے دو نادر لے لیتا ہے اور باقی ہم افغانوں کے حصہ میں آتا ہے۔ موسی نے یہ بیان کرکے مجھ سے کہا کہ میں خاطر جمع رکھوں کیونکہ لوٹ مار کی مہمات میں وہ مجھے ساتھ نہیں لے کر جائیں گے۔ میرا کام یہ ہوگا کہ میں گھر پر رہوں اور ان کے سامان کی حفاظت کروں اور جہاں تک حساب کتاب رکھنے کا تعلق ہے تو اس کے لئے مجھے زیادہ وقت دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ شاید ایک مہینہ میں آدھ گھنٹہ۔ میں یہ سن کر تھوڑی دیر کے لئے خوف زدہ ہو کر رہ گیا اور میرا غصہ اچانک اس قدر بڑھا کہ میرا دل چاہا کہ اسے گالیاں دیتا شروع کر دوں۔
يورپی لباس بمقابلہ مقامی لباس
یہاں میں قارئین کی توجہ اس بات کی طرف دلاؤں کہ ہم ایشیائی لوگوں کا لباس یورپیوں کے تنگ اور کئی حصوں میں بٹے لباس سے کس قدر بہتر ہوتا ہے۔ یورپی لباس صرف جسم کو ڈھانکنے کے کام آتا ہے، لیکن ہمارا چغہ یا قبا لباس کے علاوہ اگر ضرورت پڑے تو بستر کا کام بھی دیتی ہے۔ ہماری چادر رات کو اوڑھنے کے بھی کام کرتی ہے، اور اسے دن میں سورج کی روشنی سے بچنے کے لئے بطور خیمہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہماری پگڑی لباس کا سب سے اہم حصہ ہے اور ہر صورت میں یورپی ٹوپی سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ یہ انسانی سر کا سب سے خوبصورت لباس ہے اور اسے سورج کی تمازت بچاتا ہے۔ یورپی ہیٹ اس کے مقابلہ میں سورج کی روشنی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پگڑی پیاسے مسافروں کو پانی فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ وہ صحرا یا جنگل میں سفر کر رہا ہوں اور پانی کے لئے گہرے کنویں کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہ ہو ایسے موقع کو پگڑی کو کنویں میں ڈال کر آسانی سے پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر پگڑی سلک کی ہو تو یہ سر کو تلوار کی کاٹ بچاتی ہے۔ اگر کوئی زخمی ہو جائے تو اس کے زخموں کے لئے پٹی کا کام کرتی ہے۔ اسکے علاوہ اس کے اور بھی بہت سے فائدہ ہیں کہ جن کو اگر بیان کیا جائے تو اس میں وقت اور جگہ دونوں کا بے جا استعمال ہو گا۔
موت كی رسميں
چونکہ میں ہی وہ شخص تھا کہ جس سے تجہیز و تکفین کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس لئے میں نے ہدایات دیں کہ اس کی تیاری جس قدر بہتر ہو اس طرح سے کی جائے۔ ان تمام اخراجات کو میں نے برداشت کیا جس کی وجہ سے میری تمام رقم ختم ہو گئی۔ تجہیز و تکفین کے علاوہ غریبوں کو خیرات دینا اور ان دوستوں و رشتہ داروں کے کھانے و پینے کا انتظام کرنا کہ جو دور و نزدیک سے تعزیت کے لئے آئے تھے، ان سب میں میرا کافی پیسہ خرچ ہو گیا۔ اگرچہ میں نے اپنی ماں کے چند زیورات بھی فروخت کر دیئے مگر اس کے باوجود خرچہ کے لئے رقم کی ضرورت رہی۔ اس لئے میں نے سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ میں خاموشی سے یہاں سے چلا جاؤں کیونکہ اس شہر میں اب مزید رہنے سے میری شہرت خراب ہو رہی ہے کیونکہ جن لوگوں سے میں نے تھوڑا بہت قرض لیا تھا اب وہ اس کی واپسی کے لئے شدید اصرار کر رہے تھے۔
دھرم پوری
چند سال پہلے دھرم پوری ایک بڑا شہر تھا، مگر اس وقت یہ چھوٹا ہو کر محض ایک گاؤں رہ گیا تھا اور باقی تمام کھنڈرات ہی کھنڈرات تھے۔ اب اس میں صرف ایک سو کے قریب مکانات تھے۔ جن میں انتہائی غریب لوگ آباد تھے۔ اس طرح یہ جگہ اب میری حکومت کے ماتحت تھی۔ یہاں کے لوگ ناتھو بھائی جیسے گورنروں کے ظلم و ستم کا شکار رہے تھے اور ساتھ میں ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے تھے۔ اس لئے ان کی شدید خواہش تھی کہ ان پر کوئی انصاف کے ساتھ حکومت کرے۔ چونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ انگریزی حکومت اپنے انصاف اور رعایا پروری میں دنیا میں واحد ہے، لہذا وہ اس پر تیار تھے کہ پہلا موقع ملتے ہی وہ خود کو اس حکومت کے حوالے کردیں۔
دھرم پوری اگرچہ کھنڈرات ہو چکا تھا، مگر جغرافیائی طور پر یہ دریائے نربدا کے کنارے بہترین جگہ پر واقع تھا۔ یہاں صاف و شفاف پانی دریا کی ریتلی سطح پر بہتا ہوا بڑا خوبصورت لگتا تھا۔ اس کے دونوں کناروں پر کئی شاندار مندر تھے جو مشہور زمانہ ایلیا بائی نے تعمیر کرائے تھے ، جس نے 1769ء سے 1795ء تک ہلکر کی ریاست پر حکومت کی تھی۔ اس کا انصاف مردوں والی ہمت اعتدال اور فیاضی و سخاوت وہ خوبیاں تھیں کہ جن کی وجہ سے اس کا نام کئی نسلوں تک زندہ رہے گا۔
انگريزوں كی مصاحبت
میری آمد کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مدراس سے مقامی فوجیوں پر مشتمل ایک دستہ ایک بہت ہی خوبصورت انگریز کی کمانڈ میں آیا اور میرے گاؤں میں قیام کیا۔ اس کی آمد سے میں اور گاؤں کے لوگ بہت خوش ہوئے۔ مگر ناتھو بھائی کو یہ آمد سخت ناگوار گزری۔ اس انگریز نے پہلے مجھ سے معلومات حاصل کیں۔ اس کے بعد اس دستہ کو ایک ہندوستانی صوبیدار کی ماتحتی میں چھوڑ کر خود ایک نائک اور تین سپاہیوں کے ساتھ مہوہ چلا گیا۔ اس کے بعد سے گاؤں میں میری پوزیشن اور طاقت اور زیادہ مضبوط ہو گئی۔ یہاں پر میں نے جو وقت گزرا وہ میری زندگی کا سب سے زیادہ پر مسرت زمانہ تھا۔ حکومت کی جانب سے فرائض کی ادائیگی میں میرا زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ لگتا تھا۔ اس کے بعد پورے دن کا میں مالک ہوتا تھا۔ دن میں، میں دریا کے پاک و صاف پانی میں نہاتا تھا اور اس کے بعد دریائی پرندوں کا شکار کرتا تھا اور پھر مقامی فوجی دستہ کے افسروں کے ساتھ شطرنج کھیلتا تھا۔ رات میں میں مندر میں باقاعدہ دربار لگاتا تھا جس میں گاؤں کے پنچ اور فوج کے عہدیدار شریک ہوتے-دو مہینے بعد ایک اور انگریز انجنیئر جس کا نام مسٹر ڈینجر فیلڈ تھا معہ اپنے آلات کے پیمائش کے لئے آیا۔ اس نے اس جگہ کی مردم شماری کے بارے میں مجھ سے معلومات حاصل کیں۔ اس کے بعد مجھ سے اور سوالات کئے کہ جن کا جواب میں نے دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ انتہائی بیمار تھا، ۔اس موقع پر سر جان مالکم ہماری درگاہ پر آیا اور اس نے اس کے متولین کی خدمت میں خاصی رقم بطور تحفہ دی۔ اس نے ایک کالے پتھر کی سل میں بھی بڑی دلچسپی لی جو مسجد کے ممبر کی نشست پر نصب تھی اور جس پر ایک ہندو دیو مالائی قصہ سنسکرت زبان میں بڑے قرینہ سے لکھا ہوا تھا۔ اس نے ہم سے کہا کہ یہ پتھر اسے مناسب قیمت پر فروخت کردیں۔ ہم نے اس درخواست پر بڑا غوروخوض کیا اور اس کو غیر مناسب جانا کہ ایک یادگار کو جسے طاقتور بادشاہ نے اس وقت نصب کیا تھا کہ جب اس جگہ کے مندر کو مسجد میں بدلا تھا اس کو اس کے حوالے کیا جائے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے فوراً اس کی درخواست کو منظور نہیں کیا۔ لیکن دوسری طرف ہم نے یہ بھی سوچا کہ اس جیسے طاقتور اور بااثر شخص کو انکار کرنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کے ایک اشارہ پر یہاں کا راجہ اس پتھر کی سل کو ہم سے لے کر بغیر معاوضہ کے اس کو دے دے گا۔ اس لئے ہم نے جنرل کے آدمیوں سے درخواست کی کہ اس پتھر کو لے جائیں کیونکہ مقدس مسجد میں اس مشرکانہ یادگار کا نصب ہوتا شاید ماضی میں غلطی سے ہوا ہو گا۔ اس لئے اس کو جس قدر جلدی یہاں سے ہٹا لیا جائے اسی قدر مناسب ہے۔ پتھر کو اٹھا لیا گیا اور اس کی جگہ جنرل کے آدمیوں نے عمدہ طریقہ سے مرمت کردی-