دين و دانش
روایات وضع کرنے والے
از ڈاکٹر عمار الحریری –ترجمہ ، قاری حنيف
روایات وضع کرنے والے ادوار میں سے ایک دور، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ، فتنہ خیز، خونریزی اور انتشار کا سبب تھا، اھل مدینہ میں سے ہی ایک گروہ پیدا ہوا جو مسجدِ ضرار کے وارث تھے۔ وہ نفاق اور کفر کی خصلتوں کے حامل تھے اور انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئےایمان والوں کو نقصان پہنچانے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرنے میں مصروف رہے۔ مگر ان کی چالیں حلف اور قسموں کے پردے میں چھپی ہوتی تھیں، اور وہ دعویٰ کرتے کہ "ہم تو صرف بھلائی چاہتے ہیں"۔اگر ہم اس نازک دور کی ایک جیتی جاگتی تصویر کا تصور کرنا چاہیں تو امام بخاری رحمہ اللہ "صحیح بخاری" میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک نہایت مؤثر واقعہ نقل کرتے ہیں، جو اس زمانے کے بگاڑ پر گہرا درد ظاہر کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو اللہ کی کتاب کی طرف بلاتے ہیں، لیکن لوگ اہلِ کتاب سے آئی ہوئی کہانیوں کی طرف جھک چکے تھے، خاص طور پر اسرائیلیات کے راویوں کی روایات کی طرف۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سانحہ پیش آیا: سنتِ نبوی کی خالص تعلیمات اور ان بیرونی روایات کے درمیان خوفناک ملاوٹ کر دی گئی-حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ "اے مسلمانو ! تم اہلِ کتاب (کعب احبار)سے کس منہ سے سوال کر لیتے ہو، جب کہ تمہاری اپنی وہ کتاب جو تمہارے نبی پر نازل ہوئی، اللہ کی طرف سے تازہ ترین خبریں رکھتی ہے، تم اسے پڑھتے ہو، یہ بلا ملاوٹ ایک خالص کتاب ہے، اور اللہ نے تمہیں بتایا کہ اہلِ کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل دیا اور اپنے ہاتھوں سے اسے لکھا پھر کہا: یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے تھوڑا فائدہ حاصل کریں۔ کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے، وہ تمہیں ان سے سوال کرنے سے نہیں روکتا؟اللہ کی قسم! ہم نے ان میں سے کسی شخص کو کبھی نہیں دیکھا جو تم سے پوچھتا ہو کہ تم پر کیا نازل ہوا۔"
کیا یہ بیان ایک انتہائی خطرناک دور کی عکاسی نہیں کرتا، جب وحیِ خالص اور بیرونی، جعلی روایات آپس میں خلط ملط ہو گئیں؟تو کیا اہلِ حدیث یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ اس قدر غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے کہ انہوں نے ان اسرائیلیات کو مکمل طور پر پہچان لیا اور الگ کر دیا؟ جبکہ آخری نازل ہونے والی سورت سورہ توبہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مدینے کے ارد گرد کی بستیوں کے اعراب منافقوں سے بھرے پڑے ہیں اور کچھ اھل مدینہ میں بھی موجود ہیں یہ نفاق میں اس قدر ماہر ہیں کہ آپ بھی انہیں نہیں پہچانتے ،ہم ہی انہیں جانتے ہیں ۔خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ روایات تو نبی کریم ﷺ کی وفات کے140 سال بعد تک تیار کی جاتی رہیں اور روایت کے چھان پھٹک کے باب میں نرمی اختیار کی گئی؟بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں "رفع" (کسی قول کو براہ راست نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرنے) کے باب میں بڑی وسعت اور سستی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ جیسا کہ خطیب بغدادی ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں کہ: "میں نے جو بھی چیز حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی، وہ مرفوع ہے"، یعنی اسے بلا تفریق نبی کریم ﷺ سے منسوب کر دیا ہے ، گویا حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو استعمال کر کے کعب احبار کی بیان کردہ اسرائیلیات بھی قول رسول بنا کر روایت کر دی گئیں ۔
بعض محدثین نے اس اصول کو مزید وسعت دے دی کہ جو کچھ صحابہ امورِ غیبیہ میں نقل کریں، یا جن میں رائے اور اجتہاد کا دخل نہ ہو، وہ سب "مرفوع ہی" شمار ہوگا، یعنی نبی کریم ﷺ ہی کا قول ہوگا۔ اس اصول نے اسرائیلیات کے داخلے کے لیے دروازے کھول دیے، اور لوگ محسوس بھی نہ کر سکے۔
اب سوال یہ ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے مرفوعاً منقول ان روایات میں جو اسرائیلیات کی بھرمار ہے، اس کی کیا توجیہ کی جائے؟
اصل زہر کی پوٹلی یہ ہے کہ وضّاعین نے نہایت مکر اور چالاکی سے کام لیا۔ وہ دینِ اسلام اور نبی کریم ﷺ کی سیرت کو محض باہر سے نہیں، بلکہ اندر سے مجروح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ نبی کریم ﷺ پر براہِ راست بہتان نہ لگا سکے، مگر انہوں نے ایسی جھوٹی احادیث گھڑ کر نبی کریم ﷺ کے نام سے منسوب کیں، جو انتہائی ظلم و زیادتی، سفاکیت، سختی اور بدصورتی کا مظہر تھیں، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امیج اور کردار کو مسخ کر دیا جائے۔اس طرح نہ صرف اسلام کے دشمنوں کے سامنے نبی اکرم ﷺ کی شبیہ خراب کی گئی، بلکہ خود مسلمانوں میں بھی ایسی بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ افسوس کہ کئی مسلمان ان روایات کو بلا تحقیق قبول کر بیٹھے، اور یوں نبی کریم ﷺ کی شان میں نادانستہ طور پر گستاخی کے مرتکب ہوئے۔ یہ سب کچھ آج تک ہمارے اندر موجود ہے، اور اس کا نتیجہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کے بارے میں غلط اور سیاہ تصور رکھتے ہیں۔ایسی جھوٹی روایات میں، نبی کریم ﷺ کو اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کی کہانیوں میں ایسے مگن تھے کہ ساری رات صحابہ کو ان کے قصے سناتے، جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرشتے کی آنکھ نکال دی، یا پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ گیا، یا ایک قوم چوہے بن گئی، یا خنزیر کا گوشت حرام کرنے کا سبب ان کی کوئی حرکت تھی۔
ان روایات میں اللہ تعالیٰ کو بھی مجسّم صفات کے ساتھ بیان کیا گیا کہ وہ آسمانوں اور زمین کو اپنی انگلیوں پر رکھے ہوئے ہے، اور سات دن میں تخلیقِ کائنات کی باتیں، قبر کا عذاب، جنت کا کھانا وغیرہ شامل کیا گیا۔
مزید ایسی روایات بھی مشہور ہوئیں جن میں نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو ناقابلِ تصور اور غیر اخلاقی طرز پر پیش کیا گیا: مثلاً ایک رات میں تمام ازواج سے تعلق، عورت کو شیطان کی مانند بیان کرنا، کہ وہ کتے اور گدھے کی طرح سامنے سے گزرے تونماز کو باطل کر دیتی ہے، یا وہ منحوس ہوتی ہے اور نقصان کا سبب ہے، یا زیادہ تر عورتیں دوزخ میں ہوں گی، یا وہ عقل اور دین میں ناقص ہیں۔بعض من گھڑت روایات میں نبی ﷺ کو مکروہ اعمال کرتے دکھایا گیا، جیسے مکھی کو پانی میں ڈبونا، اونٹ کا پیشاب پینا، یا سنگسار کرنا، مرتد کو قتل کرنا، ڈاکؤوں کے ایک گروہ کی آنکھیں نکال کرانہیں مرنے کے لئے پیاسا چھوڑ دینا، یا کسی کو دھوکہ سے قتل کروانا۔
اسی طرح ایسی خرافات اور افسانوی قصے وضع کیے گئے جن کا کوئی وجود نہ تھا، جیسے مسیح دجال کی عجیب و غریب کہانیاں، یا "المہدی المنتظر" کا تصور، یا قیامت کی نشانیاں کہ کچھ قومیں ایسے جوتے پہنیں گی جو بالوں کے ہوں گے، یا ان کے چہرے ڈھال کی طرح چپٹے ہوں گے۔نبی کریم ﷺ پر جو جھوٹ گھڑے گئے وہ بے شمار ہیں! اگر ہم دیانتداری سے اس المناک حقیقت پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کتنا بڑا فتنہ تھا، جس نے دین اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو اندر سے مسخ کر دیا، اور اسے دینداری کے پردے میں چھپا دیا گیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس سچائی کو مانیں، اور نبی کریم ﷺ کے دفاع میں کھڑے ہوں، ان جھوٹی روایات سے اظہارِ براءت کریں، اور ان پر دوبارہ تحقیق کریں۔
اگر ہم ان روایات کو اللہ کی کتاب اور یقینی عقل و وحی کی میزان پر رکھیں، تو ہم اپنے نبی ﷺ سے انصاف کر سکتے ہیں، اور دین کی سچائی کا دفاع کر سکتے ہیں۔ نہ یہ کہ ہم ایسی من گھڑت روایات کو صرف اس لیے قبول کریں کہ ان کی اسناد بظاہر درست نظر آتی ہیں، جب کہ وہ ابتدا ہی میں منقطع، مخترق اور مشتبہ تھیں ۔