دين و دانش
تقدیر کیا ہے؟ نوشتہ تقدیر
طفيل ہاشمی
غلامی، غربت، پس ماندگی اور جہالت پر راضی کرنے کے لیے نہ معلوم کن زمانوں سے انسانوں کے بالاتر طبقات نے نوشتہ تقدیر کا فلسفہ تراش کر غلاموں کو غلامی پر رضا مند رہنے کا درس دینا شروع کیا جو ہر دور میں جاری رہا۔اسلامی تاریخ میں آغاز ملوکیت سے امت مسلمہ کے عقائد میں جو پہلی دراندازی ہوئی وہ اسی فلسفہ تقدیر کی تھی، جس کا درس یہ تھا کہ اللہ نے جس کی قسمت میں حکمرانی، بادشاہی، وسائل کی فراوانی، اقتدار و اختیار کی بے پناہی لکھ دی ہے اسے نہ چیلنج کیا جا سکتا ہے نہ تبدیل۔یہ فلسفہ جبراً مسلط ہو جانے والے حکمران خاندانوں کو تحفظ فراہم کرتا تھا، اس لیے اسے مذہبی روایات سے بھی مزین کیا گیا۔ جس قوم کو لیس للإنسان إلا ما سعی اور ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسهم کے دائمی قواعد کلیہ دئیے گئے تھے اور جن کے نبی نے کبھی تقدیر پر بھروسہ کر کے عمل میں کوتاہی نہیں کی اور کبھی کسی ناکامی کو نوشتہ تقدیر کہہ کر ذمہ داری سے گریز نہیں کیا اسی کے ماننے والوں نے ایک مکمل فلسفہ تقدیر وضع کر کے اسے کتاب و سنت کے عنوان سے مارکیٹ کر دیا۔اقبال نے یہی تو کہا تھا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں--ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
تقدیر ایک سانچے کا نام ہے۔ اس سانچے کے اندر انسانی تگ و تاز کا وسیع میدان ہے اور یہی انسان کا دائرہ اختیار ہے۔ ہم بالعموم تقدیر کو جبر کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جب کہ تقدیر ایک مکمل پیکج کا نام ہے جس میں جبر و اختیار دونوں کا امتزاج ہے۔ جن پہلوؤں سے انسان مجبور ہے اور ان کو کسی کوشش سے تبدیل نہیں کر سکتا، تو ان کے بارے میں وہ ذمہ دار ہے نہ جواب دہ۔مثلاً کوئی شخص کس زمانے میں، کن ماں باپ کے گھر پیدا ہوگا، رشتہ دار اور بہن بھائی کون ہوں گے، یہ تقدیر میں جبر کا پہلو ہے جسے کسی سعی و کاوش سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کسی شخص کی تعلیم کیا ہو گی، ذرائع معاش کیا ہوں گے، رزق کتنا ملے گا، عمر کتنی ہو گی، تن درستی اور بیماری سے کتنا سابقہ ہو گا، کوئی قوم باعزت، آزاد اور خوش حال ہوگی یا کمتر، غلام اور فلاکت زدہ؟ یہ سب فرد اور قوم کے اختیارات کے پہلو ہیں جنہیں محنت سے تبدیل کیا جا سکتا ہے تاہم ہر چیز کی ایک انتہائی حد ہوتی ہے جس سے ماورا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ان دونوں یعنی جبر و اختیار کے مجموعے کو تقدیر کہتے ہیں۔
وما تشاؤون الا ان یشاء اللہ-بعض لوگ اس آیت کو انسان کے مجبور محض ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ استدلال قطعاً غلط ہے کیونکہ آیت میں انسانی مشیت سے مشیت عمل مراد ہے اور الوہی مشیت سے مشیت خلق۔جو نہیں سمجھے وہ یوں سمجھیں کہ اگر کوئی شراب پیتا یا بدکاری کرتا ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اللہ اس سے یہ گناہ کروانا چاہتا تھا سو اس بے چارے نے کر لئے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے شراب یا بدکاری کے اعضاء اور صلاحیت نہ پیدا کی ہوتی تو کوئی ایسا کام نہ کر سکتا۔ یعنی ہم روٹی تب کھا سکتے ہیں کہ اللہ نے وہ کھانے کے لئے پیدا کی ہے اور پتھر نہیں کھا سکتے کہ اللہ نے کھانے کے لئے نہیں پیدا کیے۔اسی کو کہا جاتا ہے خلق شر، شر نہیں کسب شر، شر ہے۔ اللہ کی مشیت کا تعلق تخلیق سے ہے اور انسانی مشیت کا تعلق عمل سے۔ پس کوئی انسان مجبور نہیں۔
انسانی اختیار پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انسان کا ہر عمل کسی نہ کسی خیال کے تحت ہوتا ہے اور خیال کا منبع اللہ کی ذات ہے۔ جب کسی عمل کا منبع اور مصدر ہمارے اختیار میں نہیں تو عمل محض خیال کا نتیجہ ہے۔ اس کے بارے میں ہم لاکھ کہیں کہ وہ ہمارے اختیار سے ہے لیکن جب گہرائی میں جائیں گے اور اپنے آپ کو کسی خیال کے زیر اثر پائیں گے جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر تھا تو ہم با اختیار کیسے ٹھہرے؟غالباً یہی وجہ ہے کہ رازی ایسے متکلم بھی جبر کے قائل ہیں۔ لیکن أمر واقعہ اس سے مختلف ہے اور وہ یہ کہ انسان نے خیال کے منبع و مصدر پر سائنس اور فلسفہ کے حوالے سے جس قدر غور کیا، اسے معلوم نہیں ہو سکا کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟ البتہ کتاب اللہ نے یہ گتھی سلجھا دی ہے اور وہ یوں کہ یہ بات درست ہے کہ خیال کا منبع اللہ کی ذات ہے لیکن انسانی دماغ میں کبھی بھی خیال کی ایک جانب نہیں آتی۔ جب تک وہ خیال ہوتا ہے اس کی دونوں جانب، کروں یا نہ کروں، انسانی ذہن پر دستک دیتی ہیں۔اسی کو قرآن نے کہا ہے: فالھمھا فجورھا و تقواها یہ دوگونہ خیال انسان کی پیشانی سے ٹکراتا ہے جسے قرآن نے آخذ بناصیتھا سے تعبیر کیا ہے۔ سائنس یہ بتاتی ہے کہ انسان کی پیشانی پر ایک Receptive وصول کنندہ آلہ یا انٹینا لگا ہوتا ہے، جو اس دو پہلو خیال کو وصول کرتا ہے۔ پھر انسان ان دونوں پہلوؤں پر غور کر کے کسی ایک پہلو پر عمل کرتا ہے جو انسان کے اختیار میں ہے۔ اسی لیے خیالات پر بازپرس ہے نہ سزا، بشرطیکہ غیر اختیاری ہوں۔
انسانی پیشانی میں لگے انٹینا کو تصوف کے تمام سلسلے بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یہی تیسری آنکھ، سلطان الأذكار کا لطیفہ باطنی ہے۔ اسی لیے عبادت اور عبودیت کی انتہا یہی ہے کہ انسان کے منبع اختیار کو خالق و مالک کے حضور سجدہ ریز کر دیا جائے۔ یہی قرب الٰہی کا بلند ترین مقام اور اللہ سے سرگوشی کی کیفیت ہے۔