پاڑہ چنار میں کیا ہو رہا ہے؟

مصنف : فاطمہ ملك

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : فروری 2025

پاكستانيات

پاڑہ چنار میں کیا ہو رہا ہے؟

فاطمہ ملک

پاکستان میں افغان سرحد کے قریب واقع ضلع کرم کے صدر مقام کا اصل  نام پاڑہ چنار ہے لیکن اسے عام طور پر پارہ چنار کہا جاتا ہے. پاراچنار کو ایک دور میں کشمیر کی طرح ’جنت نظیر وادی‘ کہا جاتا تھا۔ضلع کرم جہاں تقریباً 8 لاکھ افراد مقیم ہیں، کی سرحدیں تین اطراف سے طالبان کے زِیر حکُومت افغانِستان سے مِلتی ہيں، یعنی جنوب (خوست)، مغرب (پکتیکا) اور شمال (ننگرہار)۔ صِرف مشرق میں اس کی ایک سرحد پاکستان کے اورکزئی ضلع سے مِلتی ہے۔ضلع کرم میں تین ڈویژنز ہیں، بالائی، وسطی اور زیریں۔ پاراچنار بالائی ڈویژن میں واقع ہے اور یہاں شیعہ مکاتب فکر کے ماننے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ پاراچنار کی زیادہ تر آبادی طوری اور بنگش قبائل پر مشتمل ہے۔لیکن پاڑہ چنار وادی کے گرد پہاڑی چوٹیوں پر سُنی قبائل آباد ہیں اور پاڑہ چنار تک آنے جانے والے تمام راستوں پر وہ اونچائی سے آسانی سے حملہ کر سکتے ہیں. یہاں ایک ہی زُبان بولنے والے اور ایک ہی جیسی تہذیب و تمدن کے حامل پٹھان اہل تَشیع اور اہل سُنت صدیوں سے اَمن سے ساتھ رہتے چلے آ رہے تھے۔لیکن ایرانی انقلاب، روس کے افغانستان پر حملے کے بعد سنی افغان پناہ گزینوں کی آمد اور افغان جہاد کے دوران ہتھیاروں کی ترسیل پاڑہ چِنار میں بارُودی سرنگوں کی طرح ثابت ہوئی جو اب شدت سے پھٹتی جا رہی ہیں.

سال 2011 میں شام کے نصیری فرقے کے صدر بشارالاسد کے خلاف حکومت مخالف مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ مسلح خانہ جنگی کی صورت حال اختیار کر گیا۔سال 2013 میں عرب خطے میں وجود میں آنے والی سُنی شدت پسند تنظیم داع ش نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی 'خلافت' قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔اس صورت حال میں ایران اور روس نے بشارالاسد کے حق میں حالات کو بدلنے کے لئے بڑے پیمانے پر افغانِستان اور پاکسِتان سے شیعہ نوجوانی کی بھرتی شروع کردی۔اس سلسلے میں افغانستان کی سطح پر "فاطمیون بریگیڈ" جب کہ پاکستان کی سطح پر 'زینبیون بریگیڈ' نامی تنظیم تشکیل دی گئی۔زینبیون بریگیڈ میں بھرتی کیے گئے شیعہ نوجوانوں کا تعلق پاڑا چنار، اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تھا اور اِن پاڑہ چنار کے شیعہ نوجوانوں کو بھاری رقوم کے عوض باقاعدہ ایران میں فوجی ٹریننگ دے کر شام اور عراق لڑنے کے لئے بھیجا جاتا رہا۔

دُوسری طرف تین اطراف سے افغانستان میں گھِرے پاڑہ چنار کے سُنی نوجوانوں کے طالبان سے روابط بڑھتے گئے اور جنگجو طالبان ان کی ایک آواز پر سرحد پھلانگ کر ان کی مدد کے لئے حاضر ہونے لگے۔

ضِلع کُرم (پاڑا چِنار) میں 2007ء کا سال نمایاں ہے کہ جب علاقے میں خوفناک جھڑپیں ہوئیں جن میں دونوں اطراف سے 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 50 دیہات نذرِ آتش کیے گئے۔ ان فسادات کے بعد سیکڑوں رہائشی بے گھر ہوگئے تھے۔اس وقت بھی پاراچنار کی جانب جانے والی سڑک بند کر دی گئی تھی اور رہائشیوں کو اس علاقے میں داخلے کے لیے پاڑہ چنار سے کابل اور پھر کابل سے پاکستان میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ (چونکہ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں تھی اس لئے یہ راستہ استعمال ہو رہا تھا). سال 2007 میں شیعہ اکثریتی علاقے پاڑہ چنار میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے سینکڑوں سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنے گھر اور کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور بِنا کسی معاوضے کے اپنا سب کچھ چھوڑ کر سُنی اکثریتی علاقوں کی طرف مُنتقل ہوگئے۔بدلے میں ایسا ہی کُچھ کرم ہی کے سنی اکثریتی علاقے صدہ میں شیعہ خاندانوں کے ساتھ ہوا اور وہ اپنا گھر بار، کارُوبار بنا کسی معاوضے کے چھوڑ کر پاڑا چنار مُنتقل ہو گئے۔اس طرح ایران اور طالبان /سعودی عرب اپنی مسلکی لڑائی (proxy war) پُوری طرح پاڑہ چنار میں لے آئے۔فسادات سے قبل اپر کرم یعنی پاڑہ چنار شیعہ اکثریتی علاقہ تھا۔ لیکن ان کے ساتھ سنی بھی آباد تھے جب کہ لوئر کرم سنی اکثریتی آبادی تھی مگر شیعہ بھی ان کے ساتھ رہتے تھے۔ وسطی کرم پہلے ہی سے تقریباًسنیوں کا علاقہ تھا۔اب اپر کرم خصوصاً پاڑہ چنار سے تقریباً تمام سنی ہجرت کر چکے ہیں جب کہ لوئر کرم خصوصاً صدا سے تمام شیعہ پاڑہ چنار منتقل ہو چکے ہیں۔ان علاقوں کو پشاور اور بنوں جیسے شہروں سے ملانے والی واحد سڑک لوئر کرم سے گزرتی تھی جہاں کے سنّی باشندوں نے اسے اپر کرم (پاڑا چنار) میں رہنے والے شیعہ قبائل کے لیے بند کر رکھا ہے۔ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کے نواحی علاقہ بوشہرہ میں اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازعہ موجودہ فسادات کی اصل وجہ ہے۔

جولائی 2024 میں بھی اسی تنازعے میں کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، ہلاک شدگان میں سے 35 کا تعلق اہلِ تشیع قبائل جبکہ آٹھ کا اہلسنت قبائل سے تھا۔یہ صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ نہیں بلکہ پانچ، چھ اور بڑے زمینوں کےتنازعات بھی ہیں جو جب بھی سر اٹھاتے ہیں تو یہ فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خود خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے اعلامیے کے مطابق ’ضلع کرم میں 80 مختلف زمینی تنازعات چل رہے ہیں جن میں سے بیشتر پاکستان بننے سے پہلے کے زمانے کے ہیں'۔اس علاقے میں پاڑہ چمکنی بلندی پر واقع اہم جگہ ہے جو کہ سُنی قبائل کے کنٹرول میں ہے اور وہاں سے پاڑہ چنار پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی جاتی ہے۔

ایران اور طالبان کے حمایت یافتہ قبائل میں جنگ کے دوران بڑے ہتھیار بھی استعمال ہوتے  ہيں اور یہ دو قبائل کی جنگ نہیں بلکہ دو ملکوں کی جنگ لگ رہی ہوتی ہے ، جس میں راکٹ لانچر، میزائل، بڑی بندوقیں سب کچھ استعمال ہوتا ہے۔

اب پاکستان کے فِرقوں میں بٹی قوم سے ایک گُزارش ہے ، کبھی اپنا سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت پاکستانی بن کر بھی سوچا کریں۔ ٹھیک ہے آپ کا قبلہ و کعبہ ایران اور اسٹوڈنٹس /سعودی عرب ہیں اور آپ کے نزدیک اپنے مُلک پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں۔لیکن پھر بھی آپ سے ہاتھ جوڑ کر گُزارش کرتی ہوں کہ حقائق کو مسخ نہ کیا کریں ۔ پاکستانی حکومت ، خیبر پختونخواہ حکومت اور پاکستانی پولیس ، رینجرز اور فوج اِتنے کمزور نہیں کہ اِن قبائل کو سبق نہ سِکھا سکیں.لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ایران اور طالبان /سعودی عرب کی حمایت سے زمین کے 100 کنال قطعے کے لئے لڑتے ان قبائل کی جنگ / گند باقی پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں۔