قرآنيات
غامدی صاحب، تصوف اور غارحرا کی روایات
خضر ياسين
کیا غار حرا اور اس سے وابستہ واقعات پر مروی احادیث واقعتاً صوفیاء کی وضع کردہ ہیں اور محض افسانہ ھیں جیسا کہ غامدی صاحب کا مؤقف ہے؟
کیا واقعی قرآن مجید کی سورہ والنجم کی آیات ان احادیث کی تردید کرتی ھیں جو صحیح بخاری میں "کیف بدء الوحی" کے عنوان کے تحت درج کی گئیں ہیں؟
بالفرض ایسا ہی ھے جیسے محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں تو ان کے مقدمے کی سچائی چند ضروری سوالات کا تسلی بخش جواب چاھتی ھے۔آپ کا یہ مقدمہ کہ غار حرا اور اس سے وابستہ مروی واقعات مثلاََ اعلان نبوت سے قبل آپ علیہ السلام کا اس غار میں خلوت گزیں رہنا افسانہ ہے؟ کس علمی دیانت کے پیش نظر یہ دعوی فرما رھے ہیں؟ آپ علیہ السلام کے غارحرا تشریف لے جانے کو ایک انسانی واقعہ کے طور پر تاریخ و روایات کی کتابوں میں بیان کیا گیا ھے۔ کیا تاریخ کی نفی، استدلال سے کی جا سکتی ھے؟ جی بالکل کی جا سکتی ھے مگر استدلال کے مقدمات کا تاریخی ھونا ضروری ھے۔ آپ کا یہ خیال ھے، استدلال نہیں ھے۔یاد رھے کہ تاریخی واقعات کا صدق و کذب کسی ایسے استدلال سے ممکن نہیں ھوتا جس میں آپ کا اپنا ان پٹ input ایک فریق کا ھو۔ تاریخ کو تاریخ کی نظر سے ہی دیکھنا ہوگا نا کہ اپنے مزعومہ آیڈیالوجیز کی بنیاد پر تاریخ کی قطع و برید کی جا سکتی ھے۔ تاریخ (History) میں ایک واقعہ کا رد ہسٹری کے کسی دوسرے ایسے بیان سے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی تاریخی ریکارڈ ہو۔
غامدی صاحب فرماتے ہیں؛ یہ صوفیاء کا وضع کردہ افسانہ ھے؟ مسلمانوں کی تاریخ اور تاریخی واقعات پر صوفیاء کی گرفت اس قدر مضبوط کب رہی ھے کہ وہ تاریخی ریکارڈ کے خالق و جاعل بن گئے ھوں؟ جبکہ حقیقت یہ ھے کہ ہر دور میں علماء، صوفیاء اور حکماء میں مسلسل علمی، فکری اور عملی تصادم چلا آیا ھے جس نے ہر فریق کے وضعیات کو بغیر کسی تردد کے طشت از بام کیا ھے۔
آخری سوال یہ ھے؛ قرآن مجید کی جن آیات بینات کو آپ نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے پیش کیا ھے، اس میں کس آیت یا اس کے کس جزو سے یہ اشارہ، کنایہ ملتا ھے کہ یہ پہلی وحی کے متعلق ھے؟پوری سورہ "والنجم" نزول وحی، حصول وحی اور ابلاغ وحی کی کیفیات کا بیان ھے۔ جس سے ان واقعات کی تردید ممکن ھے اور نہ تائید ممکن ھے جن پر آپ خط تنسیخ کھینچ رھے ہیں۔میری گزارش یہ ھے؛ تاریخی ریکارڈ کا جائزہ مطالعہ تاریخ کے منہج پر کیا جائے تو منظم مطالعہ ھوتا ھے۔ اس منہج میں کہیں بھی یہ شامل نہیں کہ اپنے ایمانی تصورات کو امام بنا کر جس طرف جی چاھے نکل جائیں۔ تاریخی مطالعات میں جب بھی preconceived ideas نے کوئی کردار ادا کیا ھے تو ایک نیا تاریخی مواد وجود میں آیا ھے۔ تاریخ نگاری اس طرح تاریخ نگاری نہیں رہتی بلکہ تاریخ سازی بن جاتی ھے۔
محترم غامدی صاحب میرے محترم بزرگ ہیں، تاریخ نگار کی تاریخ سازی کے نتائج سے مجھ سے بہتر آگاہ ھوں گے۔ ان تاریخ نگاروں کی صف میں شامل نہ ھوں جو تاریخ سازی کرتے ہیں اور ایک نئی تاریخ سامنے اٹھا لاتے ہیں۔ ان کے حق میں بہتر ھے کہ وہ تاریخ اور اس کی تحدیدات کا ادراک پیدا کریں اور محض خیال آرائی سے تاریخ نہ بنائیں۔ ختم شد-نبوت کماھی پر قناعت کرو تو سمجھ آۓ