بنجارہ نامہ

مصنف : نظير اكبر آبادی

سلسلہ : شاعری

شمارہ : جنوری 2025

شعر و شاعری

ثاقب لكھنوی

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

باغ باں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے

اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے

باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے

کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی، مگر

خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا

بلا سے ہو پامال سارا زمانہ

نہ آئے تمہیں پاؤں رکھنا سنبھل کر

نشیمن نہ جلتا، نشانی تو رہتی

ہمارا تھا کیا ٹھیک، رہتے نہ رہتے

دل کے قصے کہاں نہیں ہوتے

ہاں، وہ سب سے بیاں نہیں ہوتے

امير مينائی

ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے--زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے--نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

نہ گُل ہیں نہ غُنچے نو بُوٹے نہ پتے--ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا--وہاں ان کو گزرے گُماں کیسے کیسے

ہزاروں برس کی ہے بُڑھیا یہ دنیا--مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے

ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں--گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ--تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

خزاں لُوٹ ہی لے گئی باغ سارا--تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی--پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے

ساغر صدیقی

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب

حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر

وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں

اب تو مدت سے رہ و رسم نظارہ بند ہے

اب تو ان کا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج

ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقام خواجگی

ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر

ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں

بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہ گزار عشق میں

کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

راحت اندوری

ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے

جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے

جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے

رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ

ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے

میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا

تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے

مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید

لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

شاعر – نامعلوم

اے دوست بتا تو کیسا ہے

کیا اب بھی محلّہ ویسا ہے؟

وہ لوگ پرانے کیسے ہیں؟

کیا اب بھی وہاں سب رہتے ہیں؟

جن کو میں تب چھوڑ گیا

دوکان تھی جو ایک چھوٹی سی

کیا بوڑھا چاچا ہوتا ہے؟

کیا چیزیں اب بھی ملتی ہیں

بسکٹ ، پاپڑ اور گولی

اور گولی کھٹی میٹھی سی؟

بیری والے گھر میں اب بھی

کیا بچّے پتھر مارتے ہیں؟

اور بوڑھی امّاں کیا اس پر

اب بھی شور مچاتی ہے؟

بجلی جانے پر اب بھی

کیا خوشی منائی جاتی ہے

پھر چھپن چھپائی ہوتی ہے؟

کیا پاس کسی کے ہونے پر

مٹھائی بھی بانٹی جاتی ہے؟

بارش کے پہلے قطرے پر

کیا ہلّہ گلّہ ہوتا ہے؟

اور غم میں کسی کے اب بھی

کیا پورا محلّہ روتا ہے؟

گلی کے کونے میں بیٹھے

کیا دنیا کی سیاست ہوتی ہے؟

گُڈے گڑیوں کی کیا اب بھی

بچوں میں شادی ہوتی ہے ؟

اے دوست بتا سب کیسا ہے

کیا اب بھی محلّہ ویسا ہے؟

کیا اب بھی شام کو سب سکھیاں

دن بھر کی کہانی کہتی ہیں؟

پرلی چھت سے چھپ چھپ کر

کیا اب بھی انہیں کوئی دیکھتا ہے؟

کیا اب بھی چھپ چھپ کر ان میں

کوئی خط و کتابت ہوتی ہے؟

وہ عید پہ بکروں بیلوں کا

کیا گھر گھر میلہ سجتا ہے؟

خاموش ہے تو کیوں دوست میرے

کیوں سر جھکا کر روتا ہے؟

ہلکے ہلکے لفظ دبا کر کہتا ہے

سب لوگ پرانے چلے گئے

سب بوڑھے چاچا ، ماما ، خالو

خالہ ، چاچی ، امّاں

سب ملک عدم کو لوٹ گئے

گھر بکے اور تقسیم ہوئے

اپنے حصّے لے کر سب

اپنے مکاں بنا بیٹھے

انجانوں کی بستی ہے وہ

اب لوٹ کے تو کیا جائے گا

دل تیرا بھی بھر آئے گا

بنجارہ نامہ

نظیر اکبر آبادی

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا

کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے

اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے

کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے

کیا داکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا

یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا

قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا

دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے

زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے

جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے

پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی

اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی

یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی

اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی

کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی

کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل

اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل

گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ

چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر

نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر

کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے

جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے

کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے

کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے

کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا

تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا

کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا

گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن

ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن

کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن

کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا

کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سئے اور ٹانکے گا

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا

اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا