ملا حکم نامہ امیر کا مجھے عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے کرو حسن یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن کہو حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکر عمر عزیزہے تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیر شہر کہے تمہیں وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن میں ہو کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیر شہر کا ذکر ہو نہ غنیم وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہو عصمتیں مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر تو نہ محافظوں کا نام لو
کسی تاک میں لگے ہوئے مرے جاں نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر مرے عسکری مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے کبھی مرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے وہ تو مرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جان نثاروں کو حکم ہے کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیر شہر کا حکم ہے بنا اعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہیں وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوںسبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
ہو ں اصول جن کو عزیز تر انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں انہیں زر کا سکہ اچھال دو
جنہیں اپنے آپ پہ ناز ہو انہیں کال کوٹھی میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیان کرے وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں مرے شہر میں انہیں بھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے تو اسے زمیں میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے انہیں نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطا وہی در بدر یہ عجیب طرز نصاب ہے
جو گنہ کریں وہی معتبر یہ عجیب روز حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی کہ ہر ایک زیر عتاب ہے
کہیں پر شکستہ ہے فاختہ کہیں زخم زخم گلاب ہے
مرے دشمنوں کوجواب ہے نہیں غاصبوں پہ شفیق میں
مرے حاکموںکو خبر کرو نہیں آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں مجھے خوف مرگ نہیں ذرا
مرا حرف حرف لہو لہو مرا لفظ لفظ ہے آبلہ