نُصَیری یا علوی Alawite فرقہ یا مذہب

مصنف : ستونت کور

سلسلہ : مذاہب عالم

شمارہ : جنوری 2025

مذاہب عالم

نُصَیری یا علوی Alawite فرقہ یا مذہب

ستونت كور

یہ فرقہ/مذہب ہے کیا۔۔۔؟ ان کے عقائد و نظریات اور عبادات کیا ہیں؟ اور اس فرقے کی تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے؟ علوی دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نامِ نامی سے ایک نسبت ہے، اس فرقے کو نُصَیری بھی کہتے ہیں... حضرت علی کی وہ اولاد جو سیدہ فاطمہ کے بطن کے علاوہ ہے، وہ خود کو علوی کہلواتے ہیں ... جب کہ یہ فرقہ نُصَیری کہلاتا ہے ... علوی فرقے کے بارے میں دنیا میں دو آراء پائی جاتی ہیں :

اول - یہ کہ یہ ایک الگ مذہب ہے۔

دوم - یہ کہ یہ اسلام کا ہی ایک دور دراز فرقہ ہے۔

علوی ۔۔۔ جغرافیہ و تعداد :

دنیا بھر میں علویوں کی تعداد تقریباً 40 لاکھ کے قریب ہے۔ جن میں سے 20 لاکھ کے قریب شام 🇸🇾میں آباد ہیں، جہاں ان کی بڑی تعداد لتاکیہ اور طرطوس میں آباد ہے۔ دیگر علوی ترکی 🇹🇷، لبنان 🇱🇧، اسرائیل 🇮🇱، جرمنی 🇩🇪، آرجنٹینا 🇦🇷اور آسٹریلیاء 🇦🇺میں آباد ہیں۔

علوی فرقے کی تاریخ :

علوی فرقے کی بنیاد 9ویں صدی میں پڑی۔ علوی فرقہ کا بانی "محمد بن نُصیر" تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہیں نُصَیری بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔ محمد بن نُصَیر دسویں اور گیارہویں شیعہ اماموں علی نقی اور حسن عسکری کا شاگرد تھا۔ لیکن آگے چل کر محمد بن نُصَیر نے خود اپنے آپ کو ہی امام قرار دے دیا، جو کہ عوام الناس کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے پیروکاروں کو لیا اور ایک الگ فرقے کی بنیاد رکھ دی۔ آگے چل کر اس فرقے کی ترویج ابو عبداللہ حسین الخاصبی اور سرور ابن القاسم الطبرانی نے کی، طبرانی نے لتاکیہ اور طرطوس میں بڑی تعداد میں شیعہ عوام کو علوی عقائد کی جانب راغب کیا، یعنی انہیں شیعہ مسلک سے علوی فرقہ میں داخل کیا  اور تب سے آج تک علویوں کی اکثریت شام کے انہی خطوں میں آباد ہے۔

عقائد :

علویوں کے عقائد و نظریات شیعہ اسلام، سنی اسلام، پیگن مذاہب اور مسیحیت کا مجموعہ ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی تخلیق کچھ یوں ہوئی کہ دنیا میں قدم رکھنے سے قبل سب انسان نور کی شکل میں خدا کا احاطہ کیے ہوئے تھے اور خدا کی حمد و ثناء کرتے تھے۔ پھر کسی نافرمانی کی وجہ سے خدا نے غضبناک ہو کر سب کو انسان کی موجودہ شکل میں ڈھال کر زمین پر بھیج دیا، جہاں ان کی زندگی خدا کی جانب سے ایک سزا ہے۔ پھر خدا نے بنی نوع انسان کو اپنا پیغام پہنچانے کے لیے انسان کی شکل میں 7 مرتبہ زمین پر قدم رکھا ۔

پہلی مرتبہ خدا ہابیل کی شکل میں دنیا میں آیا لیکن اپنا پیغام بنی نوع انسان کو پہنچانے میں ناکام رہا۔ دوسری مرتبہ شیث کی شکل میں۔تیسری مرتبہ یوسف کی شکل میں۔چوتھی مرتبہ یوشع بن نون کی شکل میں۔پانچویں مرتبہ آصف بن برخیاء کی شکل میں۔چھٹی مرتبہ شمعون کی شکل میں۔ہر مرتبہ خدا دنیا کو اپنی تعلیمات پہنچانے میں کامیابی نہ حاصل کر سکا۔ آخر کار ساتویں مرتبہ خدا علی کی شکل میں دنیا میں وارد ہوا تو کامیاب ہو گیا ۔ چنانچہ قیامت تک کے لیے علی ہی خدا قرار پایا۔

معنیٰ، حجاب اور الباب کے تصورات :

علویوں کے نزدیک، خدا جب انسانی شکل میں دنیا میں آتا ہے تو اسے "معنیٰ" کہا جاتا ہے۔ خدا اپنے آپ کو خفیہ رکھنے کے لیے اسی وقت ایک ایسی شخصیت بھی پیدا کر دیتا ہے کہ جو اس سے زیادہ مشہور ہو اور لوگوں کی توجہ اس دوسری شخصیت کی طرف مبذول رہے اور خدا کی الوہیت حجاب میں رہے  چنانچہ اس شخص کو "حجاب" کا نام دیا جاتا ہے۔ تو جیسا کہ میں نے بتایا علویوں کے نزدیک خدا  ہابیل، شیث، یوسف، یوشع، آصف، شمعون اور علی کی شکل میں دنیا میں نازل ہوا۔ تو اسی وقت خدا نے خود کو پوشیدہ رکھنے کے لیے "حجاب" کے طور پر  آدم، نوح، یعقوب، موسیٰ، سلیمان، عیسیٰ اور حضرت محمد (PBUH) کو بھیجا تاکہ لوگوں کی توجہ ان کی جانب ہو جائے اور خدا حجاب میں رہے۔

پھر آ جاتا ہے "الباب" یعنی دروازہ ۔

علویوں کے مطابق الباب سے مراد وہ شخصیت ہے جو خدا تک پہنچنے کا دروازہ ہے۔ اب ان کے نزدیک باقی تمام الباب کے نام تو مخفی ہیں لیکن آخری الباب "سلمان فارسی" ہیں۔

یعنی علویوں کے عقائد کے مطابق : علی ہی خدا ہے۔ سلمان فارسی خدا تک پہنچے کا دروازہ ہے۔ اور حضرت محمد (PBUH) کا مقصد ان دونوں کو مخفی رکھنا تھا۔

کتب :

علویوں کے نزدیک مقدس کتاب "کتاب المجموعہ" ہے جسے سرور ابن القاسم الطبرانی نے لکھا۔ ان کے نزدیک دوسری مقدس ترین کتاب نہج البلاغہ ہے۔ اور تیسری مقدس ترین کتاب قرآن ہے۔

عبادات :

نُصَیری مذہب کے مطابق دن میں 5 مرتبہ عبادت کی جانی چاہیے۔ ان کے ہاں عبادت کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں، بلکہ ان کے نزدیک گھر پہ عبادت کرنا ہی افضل ہے  ان کی وہ عبادت ہے کیا ؟ اس بارے میں بہت کم ہی معلومات میسر ہیں، کیونکہ یہ فرقہ اپنے معاملات کو بہت ہی خفیہ رکھتا آیا ہے۔

تہوار :

علویوں کے نزدیک سب سے اہم تہوار "قدس" ہے جس میں وہ شراب پیتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ شراب حضرت علی کا خون ہے جو انہوں نے ان کے لیے بہایا ۔ یہ عقیدہ مسیحیت کے بہت قریب ہے۔

علوی رمضان میں روزے نہیں رکھتے لیکن عید الفطر مناتے ہیں ۔ اسی طرح عید الاضحی، کرسمس، نوروز (ایرانی نئے سال کی تقریبات) بھی مناتے ہیں، اور عاشورہ بھی۔۔ لیکن عاشورہ کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ "حضرت حسین کربلا میں شہید نہیں ہوئے تھے، بلکہ خدا نے انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا تھا"۔

علویوں کے تین فرقے:

علوی فرقے کے اندر تین ذیلی فرقے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں،

قمری: ان کے نزدیک علی خدا ہے۔

شمسی: ان کے نزدیک علی خدا نہیں اور حضرت محمد (PBUH) کا مرتبہ علی سے کم نہیں، بلکہ ان کے برابر یا ان سے ارفع ہے۔

مرشدی: اس فرقے کی بنیاد "سلمان المرشد" نے 1920 کی دہائی میں رکھی، جس کا دعویٰ تھا کہ خدا نے اسے علویوں کی جانب پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔

ابنِ بطوطہ کے قلم سے :

معروف سیاح ابن بطوطہ نے جب لتاکیہ اور طرطوس کا دورہ کیا تھا تو وہ وہاں آباد علویوں کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔"اس ساحلی خطے کے باشندوں کی اکثریت کا تعلق نُصیری فرقے سے ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ علی ہی خدا ہے۔ یہ لوگ وضو اور غسل نہیں کرتے اور نماز بھی نہیں ادا کرتے۔

مَلک الظاہر (بیبرس - مملوک سلطان) نے انہیں حکم دے رکھا تھا کہ اپنے گاؤں میں مساجد تعمیر کریں ۔ ان لوگوں نے مساجد تعمیر کر تو دیں لیکن اپنے گھروں سے بہت دور۔ یہ لوگ نہ تو ان مساجد کا خیال رکھتے اور نہ ہی یہاں نماز پڑھتے۔ بلکہ یہ لوگ ان مساجد میں اپنے گدھے اور بھیڑیں پالتے۔ اگر کوئی اجنبی کسی مسجد میں آ جائے اور اذان دینے لگے تو یہ اسے کہتے: "ہینکنا بند کرو، تمہیں تمہارا چارہ مل جائے گا۔"

(نوٹ : آج کل آپ انٹرنیشنل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر یہ خبریں دیکھ اور سن رہے ہوں گے کہ شام میں فلاں تاریخی مسجد میں 54 برس بعد پہلی مرتبہ اذان دی گئی، فلاں مسجد کو 50 سال بعد کھولا گیا، فلاں مسجد کی 40 سال بعد مرمت کی جا رہی ہے وغیرہ ۔۔۔ تو یہ سلسلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے)۔

مملوک اور عثمانی ادوار :

سلطنتِ مملوک اور سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں علویوں کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا اور علویوں نے بھی مقامی حکومت کے خلاف کئی مرتبہ بغاوت اور جنگیں چھیڑیں، جن میں 1834 کی عثمانی-علوی جنگ قابل ذکر ہے۔

فرانسیسی دور :

سلطنت عثمانیہ کے سقوط اور شام پر فرانس کے قبضے کے بعد فرانسیسی حکومت نے نہ صرف علویوں کو ہر طرح سے مکمل سپورٹ کیا بلکہ لتاکیہ و طرطوس میں ان کو ایک الگ آزاد ملک بھی دیا جسے "سلطنتِ علویہ" کہا جاتا ہے۔ یہ ریاست 1920 سے 1946 تک قائم رہی، پھر شام نے آزادی کے بعد دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا۔ فرانسیسی حکومت نے علویوں کو بہت نوازا۔ انہیں اہم ترین سرکاری عہدے دیے گئے۔ فوج میں انہیں دھڑا دھڑ نوکریاں دی گئیں۔ ان کا لتاکیہ اور طرطوس تک محدود ہونا ختم کر کے انہیں بڑے شہروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ چنانچہ جب شام آزاد ہوا تو حکومت، فوج سمیت شام کی اپر کلاس پر علوی چھائے ہوئے تھے۔

1966 بغاوت :

1966 میں شامی فوج کے سربراہ حافظ الاسد نے شام کے صدر صلاح جدید کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود شام کے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ صلاح جدید کی باقی ساری زندگی جیل میں گزری۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ شام کے آئین کے مطابق صدر کا مسلمان ہونا ضروری تھا لیکن بہت سے مسلمان علویوں کو مسلمان نہیں مانتے تھے۔ چنانچہ شام کے صوفی العقیدہ مفتی اعظم اور دیگر مفتیان سے یہ فتویٰ دلوایا گیا کہ علوی بھی اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے۔

لیکن صرف فتویٰ ہی نہیں، بلکہ علویوں نے بذاتِ خود اپنے آپ کو اسلام کے نزدیک لانے کی کوشش کی اور علویوں کے ایک طبقے نے یہ اعلان کیا کہ "علی خدا نہیں، بلکہ امام ہیں۔" چنانچہ علوی فرقہ مزید 3 فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ 

حافظ الاسد کے بعد:

حافظ الاسد کی موت کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد 2000ء میں شام کا صدر بنا اور اس کا اقتدار تقریباً 24 سال تک رہا۔ شام کے سابق صدر بشار الاسد اور اس کے خاندان کے بارے میں تو تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ ان کا تعلق نُصَیری یا علوی Alawite فرقے یا مذہب سے ہے۔

 

نوٹ: بعض محققين كا كہنا ہے كہ  نُصَیری بھی اسماعیلی شیعوں کا ایک فرقہ ہے۔ اسماعیلیوں نے طویل عرصے تک مصر پر حکومت کی، ان کی حکومت فاطمی حکومت کہلاتی ہے