کتابِ پیدایش: چند تاثرات

مصنف : ابوالحسين

سلسلہ : مذاہب عالم

شمارہ : مئی 2024

مذاہب عالم

کتابِ پیدایش: چند تاثرات

ابوالحسين آزاد

کچھ سال پہلے میں علی کےساتھ لاہور آیا تھاتو انارکلی میں پاکستان بائبل سوسائٹی نظر آگئی۔ انھی دنوں مولانا آزاد کی تفسیرکے بعض اجزا، حضرت شیخ کی ”عیسائیت کیاہے؟“ اور مولانا عارفی کی بائبل کا الہام“وغیرہ پڑھی تھیں جس سے بائبل کو براہِ راست پڑھنے کا شدید اشتیاق پیدا ہو گیا تھا۔چناں چہ وہاں سے کتابِ مقدس کا متوسط تقطیع کا ایک عمدہ نسخہ خرید لیا۔ مدرسے میں یہ نسخہ بکثرت میرے سرہانے رہتا، دن کے قیلولے یا رات سونے سے پہلے اس میں سےبے ترتیب انداز میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا۔بائبل کا ترجمہ جس زبان میں بھی ہوا ہے اس نے ادب کے ایک شاہ کار کا درجہ پایا ہے۔میں نے خصوصیت سے یرمیاہؑ کا مرثیہ، نوحہ،یسعیاہؑ کی وعیدیں،واعظ کے قنوطی فلسفے، غزل الغزلات، زبور، اور مسیحؑ کے مکالمے بہت شوق اور تاثر سے پڑھے اور اُن کی ادبی چاشنی، بلاغت،روحانی تازگی، فکری عمق اور الہامی پن نے دل و دماغ پر بہت سے خوش گوار نقش چھوڑے۔ پھر افسوس ناک طور پر سادسہ والے سال یہ نسخہ مجھ سے کھو گیا اور بسیار تلاش کے باوجود نہیں ملا۔  غیر نصابی کتاب کے گم ہو جانے پر مجھے ویسے بھی بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن بائبل کے اس نسخے سے توکچھ ایسی دل بستگی تھی کہ اُس کے کھو جانے کا اچھا خاصا صدمہ رہا۔خیر، اب جب کہ بائبل سوسائٹی کے پاس سے میرا روز کا گزر ہے تو میں وہ نسخہ تو خرید سکتا ہوں لیکن نظر کی کمزوری اب باریک حروف سے استفادہ نہیں کرنے دیتی۔ چناں چہ میں نے الگ الگ حصوں میں چھپی موٹے حروف والی بائبل لینے کا فیصلہ کیا اور کچھ دن پہلے تورات خرید لی۔ پہلےتو منتخب مقامات پڑھتا رہا تھا لیکن اب اسے ترتیب وار پڑھنا شروع کیا ہے۔ کل تورات کی پہلی کتاب ”پیدایش“ کو اول تا آخر پڑھا ہے۔

پیدایش“ اور قرآن کے بیانات کا تقابل بہت اہم ہے کیوں کہ قرآن تورات کے لیے مہیمن ہے۔ قرآن تورات کو ہدایت اور نور قرار دیتا ہے، یہ اُس کی تحریفات کی اصلاح کرتا ہے اور اس کی درست باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔ انبیا کے اکثر و بیشتر واقعات جو قرآن میں مذکور ہیں وہ ”پیدایش“ میں بھی درج ہیں لیکن دونوں کی ترجیحات میں بہت زیادہ فرق ہے۔ قرآن کے انبیاخدا کی معرفت اور بندگی کا پیکر ہیں، خدا کا پیغام اُن کا صبح و شام کا وظیفہ ہے، وہ انسان کی ابدی فلاح کے غم میں گھلے جارہے ہیں، عالی ترین اخلاقی اور روحانی اقدار کے سوتے اُن کی ذات سے پھوٹتے ہیں اور وہ بے غرضی، بے نفسی، محبت، حمیت، عصمت اور طہارت کی بلند ترین مثالیں ہیں۔ اس کے برعکس (موجودہ) ”پیدایش“ میں یہ انبیا سے زیادہ قبائلی سردار ہیں جو نسل در نسل ایک خانوادے کی معاشی اور انتظامی ضرورتوں کی تدبیریں کرتے چلے آرہے ہیں۔ان سرداروں کو ایک قبائلی خدا نے تقریبا نسلی بنیادوں پر اپنا محبوب بنا لیا ہے اور اب یہ سیادت و تدبیر اور انتظامِ معاش کے لیے ہر طرح کی خشک و تر تدبیریں کر رہے ہیں۔ قرآن کا یعقوب وفات کے وقت اپنے بیٹوں سے سوال کر رہا ہے: ماتعبدون من بعدی؟ (میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟) جب کہ ”پیدایش“ کا اضحاق دمِ مرگ اپنے لڑکے عیسو سے کہتا ہے مجھے ہرن شکار کر کے کھلاؤ تاکہ تمھیں برکت عطا ہو۔ عیسو جاتا ہے تو پیچھے یعقوب اپنے باپ کی کم زور بصارت کا فائدہ اٹھا کر اسے ہرن کی جگہ دنبہ کھلا کر تمام برکتیں اور دعائیں سمیٹ لیتا ہے۔ قرآن کا یوسف جیل میں تعبیر بتانے سے پہلے اپنے ساتھیوں پر دینِ حق کی دعوت پیش کرتا ہے جب کہ ”پیدایش“ کے یوسف کے ہاں ایسا کوئی اہتمام نہیں۔ قرآن کے نوح، ابراہیم، لوط اور یعقوب سچائی، غیرت، ایمانِ کامل، علم، معرفت اور راست بازی کے باصفا پیکر ہیں جب کہ ”پیدایش“ میں بہت مختلف تصویر موجود ہے۔

بعض یہودی اور مسیحی مفکرین ان بیانات کی صفائی میں کہتے ہیں یہ بائبل کے کتابِ حق اور صحیفۂ صادق ہونے کی دلیل ہے کہ اُس نے واقعات کو بالکل ویسا ہی بیان کر دیا ہے جیسا کہ وہ ہوئے، کسی کے احترام یا رعایت میں پردہ پوشی کی نہ ہی بعد میں کسی نے اُن میں کسی قسم کی ترمیم کی۔ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ یہاں سے تصورِ دین کا فرق واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کیا تصورات تھے جن کی اصلاح کے لیے پہلے حضرت مسیح آئے اور پھر قرآن نازل ہوا اور خدا پرستی کی وہ کون سی اصلی اور حقیقی شکل تھی جسے قرآن نے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پیوست کرنا چاہا۔ قرآن نے بتایا کہ جو لوگ خدا کے محبوب، برگزیدہ اور انسانیت کے ليے مثال  ہوتے ہیں اُن کی زندگی کیسی بے داغ اور اُجلی ہوتی ہے، وہ کیسے علمِ صحیح، عملِ صالح اور سیرتِ حسنہ کے پیکر ہوتے ہیں اور خدا کے ہاں کسی نسلی گروہ سے وابستگی یا کوئی خاص مذہبی شناخت نہیں بلکہ ایمان، اطاعت اور کردار کا حُسن ہی نجات اور کامیابی کا معیار ہیں۔

تورات کے موجودہ متن کے متعلق بہت سی بحثیں ہیں۔ مثلاً: حضرت موسیؑ کا دیا ہوا حصہ کون سا ہے؟ اگر سب کتابیں سیدنا موسی پر نازل ہوئی ہیں تو اب یہ کتنی مستند اور کتنی تحریف شدہ ہیں؟ قرآن اہلِ کتاب کو جس تورات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انھیں کہتا ہے کہ ”عندھم التوراۃ“ (ان کے پاس تورات ہے) وہ مبینہ تورات میں کہاں ہے؟ اگرکچھ حصہ (کتابِ استثنا)ہی توراتِ موسوی ہے تو پھر بقیہ حصے کس نے لکھے اور ان کا ماخذ کیاہے؟تورات کتنا الہام، کتنی تاریخ ، کتنی شاعری اور کتنی اسطورہ ہے؟ وغیرہ وغیرہ

پیدایش“ میں بہت سے واقعات مختلف پیرایے میں دو دو مرتبہ بھی بیان ہوئے، خدا کو کہیں الوہیم اور کہیں یہوواہ کہا گیا ہے۔ اسی طرح ماہرین نے ایک سے زائد اسالیب کو بھی دریافت کیا ہے۔ اس سب سے اب عموماً محققین نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ موجودہ تورات کوئی چوتھی صدی قبل مسیح کی تدوین ہے اور یہ چار مؤلفین کی مختلف روایتوں کو اکٹھا کر کے مدون کی گئی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ ”پیدایش“ کے واقعات پر کیرن آرمسٹرانگ کی کمنٹری (In the beginning) بہت پُر معنی اور لطف انگیز ہے، اُس سے کتاب کے بیانات کو دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے۔نیز ”پیدایش“کے ابتدائی ابواب میں تخلیق کا بیان عجیب نغمگی اور سحر آفرینی لیے ہوئے ہے، کائنات، خدا اور انسان کے تعلق کا یہ شاعرانہ اور ساحرانہ بیان بہت کمال ہے۔